پولیس چاہے تودستانے سے خون آلودہاتھ برآمد ہوسکتا ہے
رشتوں کے پامال ہوتے تقدس کی ایک دل دوز واردات
کوئی سال بھر پہلے فیصل آباد کے نواحی تھانہ بلوچنی کے چک نمبر 150 ر-ب مدوآنہ میں اسی طرح کا ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا تھا۔جہاں ایک ہنستا بستا گھر ہوس کا شکار ہو کر قتل کی تین وارداتیں کر بیٹھا۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ مقتولہ عابدہ پروین کی شادی سات سال پہلے اپنے ماموں زاد بھائی محمود الحسن سے ہوئی تھی، دو ان کے بچے تھے۔ گاؤں میں ہر سال ایک میلہ لگتا ہے۔ پار سال اسی میلے میں محمود الحسن کے بھائی شوکت عرف شوکی اور آفتاب فتو نے شراب پی لی۔ یہ آفتاب فتو رشتے میں ایک طرف محمود کی بیوی عابدہ پروین کا ماموں تھا تو دوسری طرف مقصود احمد کا بھائی بھی تھا اس طرح وہ شوکی اور محمود کا چچا ہوا تو دوسری طرف عابدہ کا چچا سسر بھی یعنی سب پاکیزہ رشتوں کی ایک گتھی ہوئی زنجیر میں بندھے ہوے۔
خیر چچا اور بھتیجے نے میلے میں شراب پی اور جب وہ چڑھی تو حیوانیت نے اندھا کر دیا، آنکھوں پر ہوس کی پٹی ایسی بندھی کہ ماموں کے لیے بھانجی اور دیور کے لیے بھابی محض عورت بن کر رہ گئی۔ دونوں نے مل کر عابدہ کی عزت کا دامن تار تار کر ڈالا۔ بعد دونوں کو ہوش تو آ گیا لیکن غیرت نہ آئی۔ آفتاب فتو یعنی عابدہ کا ماموں اور چچا سسر اپنے بھائی یعنی عابدہ کے اصل سسر مقصود احمد کے پاؤں پڑگیا کہ اس سے غلطی ہوگئی۔ اس پر مقصود احمد نے اسے اور اپنے بیٹے کو معاف کر دیا کہ آخر کو دونوں کی رگوں میں خوں تو ایک ہی دوڑ رہا تھا، رہ گئی لٹی پٹی عابدہ، تو وہ بس ایک عورت ہی تو تھی لہٰذا اس پر اور خبردار کیا کہ واقعے کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پائے ورنہ کاٹ کے رکھ دیا جائے گا۔
ساتھ ہی بہو عابدہ کو بھی ایسی ہی دھمکی دے دی۔ تقریباً ایک ماہ بعد عید سے چند دن قبل عابدہ اپنی ساس کے ہمراہ والدین کے پاس تھانہ نشاط آباد کے چک نمبر 7 میں آئی۔ ساس نسرین بی بی اپنی بہو کو والدین کے پاس چھوڑنے کے بعد واپس گھر چلی گئی۔ عابدہ نے اپنے والدین کو نہ چاہتے ہوے بھی واقعے سے آگاہ کر دیا جس کا انہیں شدید رنج ہوا۔ عابدہ کے والد محمد بوٹا نے اپنی بیوی سرداراں بی بی سے کہا کہ وہ اپنے بھائی اور عابدہ کے سسر مقصود احمد سے اس معاملے پر بات کرے۔ جب عابدہ کی والدہ اپنی بیٹی کو اس کے سسرال چھوڑنے آئی تو اس نے اپنے بھائی مقصود سے باز پرس کی۔
مقصود نے زیادتی تسلیم کرتے ہوے بہن اپنے بھائی اور بیٹے کے لیے معافی طلب کی جس پر سرداراں نے ازالے کے طور پر اپنے بیٹے ریاض کے لیے اس کی بیٹی ساجدہ کا رشتہ مانگ لیا۔ مقصود راضی ہو گیا اور منگنی کی رسم بھی ادا کر دی گئی۔ مقصود، عابدہ کے شوہر محمود الحسن، مقصود کے بھائی آفتاب فتو اور دیگر اہلِ خانہ کو اس بات پر شدید غصہ تھا کہ عابدہ نے اس راز پر سے پردہ اٹھایا۔ سو منگنی کے آٹھ نو دن بعد انہوں نے عابدہ کے گلے میں پھندا ڈال کر اسے قتل کر دیا اور نعش ایک کمرے میں گاڑ دی اب مقصود اپنی بہن سرداراں کے گھر گیا اور اپنے بہنوئی محمد بوٹا کو بتایا کہ عابدہ رات کی تاریکی میں گھر سے بھاگ گئی ہے۔ اس نے محمد بوٹا سے کہا کہ دونوں مل کر عابدہ کو ڈھونڈتے ہیں۔
اس پر بوٹا تشویش میں مبتلا ہو کر مقصود کے ساتھ موٹر سائیکل پر روانہ ہو گیا۔ مقصود کے دل میں کھٹکا تھا کہ عابدہ کے والدین کو شک ہو گیا ہے کہ سسرال والوں نے ان کی بیٹی کو قتل کر دیا ہے۔ وہ بوٹا کو گھر لے آیا جہاں اس نے بیٹوں محمود الحسن، شوکت شوکی اور بھائی آفتاب کے ساتھ مل کر محمد بوٹا کو بھی ٹھکانے لگا دیا اور لاش گائوں کے قریبی کھیتوں میں دفن کر دی۔ عابدہ کی لاش بھی دو ماہ بعد گھر سے نکال کر باہر کھیت میں دبا دی۔ اس کے بعد مقصود منظر سے غائب ہو گیا۔
اِدھر مقصود کے بیٹوں نے اپنے باپ کے اغوا کا مقدمہ مقتول بوٹا کے گھر کے 13 افراد کے خلاف مقدمہ نمبر 8/12 تھانہ بلوچنی میں درج کروا دیا۔ اسی طرح محمد بوٹا کے گھر والوں نے بھی محمد بوٹا کے اغوا کا مقدمہ تھانہ نشاط آباد میں بجرم 365 مقدمہ نمبر 137/12 مقصود احمد اور دیگر 9 ملزمان کے خلاف درج کروا دیا جو بعدازاں تھانہ بلوچنی میں منتقل ہو گیا۔ ابھی ایک دوسرے کے خلاف مقدمات کا سلسلہ جاری تھا کہ مقصود احمد کے بیٹے اور مقتولہ عابدہ کے شوہر محمود الحسن، بھائی شوکت علی اور آفتاب فتو کے ایما پر محلہ یٰسین پورہ کے رہائشی ذوہیب ولد نصیر احمد اور اکبر علی ولد نیامت علی نے عابدہ پروین کے بھائی دلاور محمود کو چک نمبر 74 گ ب تھانہ ستیانہ کے علاقہ میں فائرنگ کر کے 28 اگست 2012 کو قتل کر دیا۔
جس کا مقدمہ نمبر 289/12 بجرم 302/34 بھی پولیس نے درج کر لیا۔ یوں ایک ہی خاندان کے تین لوگ ایک ہی سال کے اندر موت کے گھاٹ اتر گئے لیکن اس دوران پولیس ٹیکنیکل طریقے سے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوے مصروف تفتیش رہی۔ دلاور حسین کے قتل کی سنگین واردات کے بعد سی پی او فیصل آباد بلال صدیق کمیانہ نے ایس ایس پی انوسٹی گیشن مجاہد اکبر خاں، ایس پی جڑانوالہ محمد ناصر سیال، ایس پی سی آئی اے رائے ضمیر الحق، ڈی ایس پی کھرڑیانوالہ مطیع اللہ اور ڈی ایس پی جڑانوالہ شعیب اور تھانہ ستیانہ کے ایس ایچ او محمد یاسین اور بلوچنی کے ایس ایچ او کو خصوصی ٹاسک دیا جب پولیس نے دلاور کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزموں اکبر اور ذوہیب سے تفتیش کی تو انہوں نے انکشاف کیا کہ محمد بوٹا اور اس کی بیٹی عابدہ پروین کو اس کے خاوند محمود الحسن، چچا آفتاب فتو، دیور شوکت اور سسرمقصود احمد نے قتل کر کے دفن کیا ہے۔
اس پر ایس پی ناصر سیال نے ملزمان محمود الحسن، آفتاب اور شوکت کو حراست میں لے لیا۔ دوران تفتیش ملزم سچ اگل پڑے اور بعد میں ان ہی کی نشان دہی پر پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ چک 150 ر _ب مدوآنہ کے قریب ملزمان کے زیرکاشت رقبے سے کرین کی مدد سے گڑھا کھود کر دونوں نعشیں برآمد کر لیں۔ باپ بیٹی کی نعشیں دیکھ کر گاؤں میں کہرام تو مچا لیکن تہرے قتل کی اس بھیانک واردات کا ڈراپ سین بھی ہوگیا۔ پولیس نے نعشیں قبضہ میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے جڑانوالہ اسپتال منتقل کر دیا۔
بیوی، سسر اور سالے کو قتل کرنے والے مرکزی ملزم محمود الحسن نے نعشوں کو برآمد کرواتے ہوئے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوے بتایا کہ اسے شک تھا کہ اس کی بیوی بدچلن ہے جس پر اس نے عابدہ کو قتل کر دیا۔ سسر محمد بوٹا، بیٹی کے لاپتہ ہونے کا شبہ مجھ پر کرتا تھا لہٰذا اسے بھی نیند کی گولیاں کھلا کر گلا گھونٹ دیا ''تاہم مجھے اب بڑا دکھ ہے کیوںکہ میری بیٹی مہ وش اور بیٹا اویس اکیلے رہ گئے''۔ واقعے کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ ایس پی جڑانوالہ ناصر سیال نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ پولیس نے تمام ملزم گرفتار کر لیے ہیں۔ اس کہانی کا ایک حصہ یہ ہے کہ مقصود احمد واردات کرنے کے بعد گاؤں سے دور گوجرہ میں واقع ایک شوگر مل میں جاکر ملازم ہو گیا تھا جب کہ منصوبے کے مطابق اس کے بیٹوں نے اس کے اغوا کا ڈراما رچا دیا تاہم وہ بھی بے نقاب ہوا۔ اس واقعہ میں اب تک پانچ ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ مقتولہ عابدہ پروین کی شادی سات سال پہلے اپنے ماموں زاد بھائی محمود الحسن سے ہوئی تھی، دو ان کے بچے تھے۔ گاؤں میں ہر سال ایک میلہ لگتا ہے۔ پار سال اسی میلے میں محمود الحسن کے بھائی شوکت عرف شوکی اور آفتاب فتو نے شراب پی لی۔ یہ آفتاب فتو رشتے میں ایک طرف محمود کی بیوی عابدہ پروین کا ماموں تھا تو دوسری طرف مقصود احمد کا بھائی بھی تھا اس طرح وہ شوکی اور محمود کا چچا ہوا تو دوسری طرف عابدہ کا چچا سسر بھی یعنی سب پاکیزہ رشتوں کی ایک گتھی ہوئی زنجیر میں بندھے ہوے۔
خیر چچا اور بھتیجے نے میلے میں شراب پی اور جب وہ چڑھی تو حیوانیت نے اندھا کر دیا، آنکھوں پر ہوس کی پٹی ایسی بندھی کہ ماموں کے لیے بھانجی اور دیور کے لیے بھابی محض عورت بن کر رہ گئی۔ دونوں نے مل کر عابدہ کی عزت کا دامن تار تار کر ڈالا۔ بعد دونوں کو ہوش تو آ گیا لیکن غیرت نہ آئی۔ آفتاب فتو یعنی عابدہ کا ماموں اور چچا سسر اپنے بھائی یعنی عابدہ کے اصل سسر مقصود احمد کے پاؤں پڑگیا کہ اس سے غلطی ہوگئی۔ اس پر مقصود احمد نے اسے اور اپنے بیٹے کو معاف کر دیا کہ آخر کو دونوں کی رگوں میں خوں تو ایک ہی دوڑ رہا تھا، رہ گئی لٹی پٹی عابدہ، تو وہ بس ایک عورت ہی تو تھی لہٰذا اس پر اور خبردار کیا کہ واقعے کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پائے ورنہ کاٹ کے رکھ دیا جائے گا۔
ساتھ ہی بہو عابدہ کو بھی ایسی ہی دھمکی دے دی۔ تقریباً ایک ماہ بعد عید سے چند دن قبل عابدہ اپنی ساس کے ہمراہ والدین کے پاس تھانہ نشاط آباد کے چک نمبر 7 میں آئی۔ ساس نسرین بی بی اپنی بہو کو والدین کے پاس چھوڑنے کے بعد واپس گھر چلی گئی۔ عابدہ نے اپنے والدین کو نہ چاہتے ہوے بھی واقعے سے آگاہ کر دیا جس کا انہیں شدید رنج ہوا۔ عابدہ کے والد محمد بوٹا نے اپنی بیوی سرداراں بی بی سے کہا کہ وہ اپنے بھائی اور عابدہ کے سسر مقصود احمد سے اس معاملے پر بات کرے۔ جب عابدہ کی والدہ اپنی بیٹی کو اس کے سسرال چھوڑنے آئی تو اس نے اپنے بھائی مقصود سے باز پرس کی۔
مقصود نے زیادتی تسلیم کرتے ہوے بہن اپنے بھائی اور بیٹے کے لیے معافی طلب کی جس پر سرداراں نے ازالے کے طور پر اپنے بیٹے ریاض کے لیے اس کی بیٹی ساجدہ کا رشتہ مانگ لیا۔ مقصود راضی ہو گیا اور منگنی کی رسم بھی ادا کر دی گئی۔ مقصود، عابدہ کے شوہر محمود الحسن، مقصود کے بھائی آفتاب فتو اور دیگر اہلِ خانہ کو اس بات پر شدید غصہ تھا کہ عابدہ نے اس راز پر سے پردہ اٹھایا۔ سو منگنی کے آٹھ نو دن بعد انہوں نے عابدہ کے گلے میں پھندا ڈال کر اسے قتل کر دیا اور نعش ایک کمرے میں گاڑ دی اب مقصود اپنی بہن سرداراں کے گھر گیا اور اپنے بہنوئی محمد بوٹا کو بتایا کہ عابدہ رات کی تاریکی میں گھر سے بھاگ گئی ہے۔ اس نے محمد بوٹا سے کہا کہ دونوں مل کر عابدہ کو ڈھونڈتے ہیں۔
اس پر بوٹا تشویش میں مبتلا ہو کر مقصود کے ساتھ موٹر سائیکل پر روانہ ہو گیا۔ مقصود کے دل میں کھٹکا تھا کہ عابدہ کے والدین کو شک ہو گیا ہے کہ سسرال والوں نے ان کی بیٹی کو قتل کر دیا ہے۔ وہ بوٹا کو گھر لے آیا جہاں اس نے بیٹوں محمود الحسن، شوکت شوکی اور بھائی آفتاب کے ساتھ مل کر محمد بوٹا کو بھی ٹھکانے لگا دیا اور لاش گائوں کے قریبی کھیتوں میں دفن کر دی۔ عابدہ کی لاش بھی دو ماہ بعد گھر سے نکال کر باہر کھیت میں دبا دی۔ اس کے بعد مقصود منظر سے غائب ہو گیا۔
اِدھر مقصود کے بیٹوں نے اپنے باپ کے اغوا کا مقدمہ مقتول بوٹا کے گھر کے 13 افراد کے خلاف مقدمہ نمبر 8/12 تھانہ بلوچنی میں درج کروا دیا۔ اسی طرح محمد بوٹا کے گھر والوں نے بھی محمد بوٹا کے اغوا کا مقدمہ تھانہ نشاط آباد میں بجرم 365 مقدمہ نمبر 137/12 مقصود احمد اور دیگر 9 ملزمان کے خلاف درج کروا دیا جو بعدازاں تھانہ بلوچنی میں منتقل ہو گیا۔ ابھی ایک دوسرے کے خلاف مقدمات کا سلسلہ جاری تھا کہ مقصود احمد کے بیٹے اور مقتولہ عابدہ کے شوہر محمود الحسن، بھائی شوکت علی اور آفتاب فتو کے ایما پر محلہ یٰسین پورہ کے رہائشی ذوہیب ولد نصیر احمد اور اکبر علی ولد نیامت علی نے عابدہ پروین کے بھائی دلاور محمود کو چک نمبر 74 گ ب تھانہ ستیانہ کے علاقہ میں فائرنگ کر کے 28 اگست 2012 کو قتل کر دیا۔
جس کا مقدمہ نمبر 289/12 بجرم 302/34 بھی پولیس نے درج کر لیا۔ یوں ایک ہی خاندان کے تین لوگ ایک ہی سال کے اندر موت کے گھاٹ اتر گئے لیکن اس دوران پولیس ٹیکنیکل طریقے سے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوے مصروف تفتیش رہی۔ دلاور حسین کے قتل کی سنگین واردات کے بعد سی پی او فیصل آباد بلال صدیق کمیانہ نے ایس ایس پی انوسٹی گیشن مجاہد اکبر خاں، ایس پی جڑانوالہ محمد ناصر سیال، ایس پی سی آئی اے رائے ضمیر الحق، ڈی ایس پی کھرڑیانوالہ مطیع اللہ اور ڈی ایس پی جڑانوالہ شعیب اور تھانہ ستیانہ کے ایس ایچ او محمد یاسین اور بلوچنی کے ایس ایچ او کو خصوصی ٹاسک دیا جب پولیس نے دلاور کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزموں اکبر اور ذوہیب سے تفتیش کی تو انہوں نے انکشاف کیا کہ محمد بوٹا اور اس کی بیٹی عابدہ پروین کو اس کے خاوند محمود الحسن، چچا آفتاب فتو، دیور شوکت اور سسرمقصود احمد نے قتل کر کے دفن کیا ہے۔
اس پر ایس پی ناصر سیال نے ملزمان محمود الحسن، آفتاب اور شوکت کو حراست میں لے لیا۔ دوران تفتیش ملزم سچ اگل پڑے اور بعد میں ان ہی کی نشان دہی پر پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ چک 150 ر _ب مدوآنہ کے قریب ملزمان کے زیرکاشت رقبے سے کرین کی مدد سے گڑھا کھود کر دونوں نعشیں برآمد کر لیں۔ باپ بیٹی کی نعشیں دیکھ کر گاؤں میں کہرام تو مچا لیکن تہرے قتل کی اس بھیانک واردات کا ڈراپ سین بھی ہوگیا۔ پولیس نے نعشیں قبضہ میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے جڑانوالہ اسپتال منتقل کر دیا۔
بیوی، سسر اور سالے کو قتل کرنے والے مرکزی ملزم محمود الحسن نے نعشوں کو برآمد کرواتے ہوئے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوے بتایا کہ اسے شک تھا کہ اس کی بیوی بدچلن ہے جس پر اس نے عابدہ کو قتل کر دیا۔ سسر محمد بوٹا، بیٹی کے لاپتہ ہونے کا شبہ مجھ پر کرتا تھا لہٰذا اسے بھی نیند کی گولیاں کھلا کر گلا گھونٹ دیا ''تاہم مجھے اب بڑا دکھ ہے کیوںکہ میری بیٹی مہ وش اور بیٹا اویس اکیلے رہ گئے''۔ واقعے کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ ایس پی جڑانوالہ ناصر سیال نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ پولیس نے تمام ملزم گرفتار کر لیے ہیں۔ اس کہانی کا ایک حصہ یہ ہے کہ مقصود احمد واردات کرنے کے بعد گاؤں سے دور گوجرہ میں واقع ایک شوگر مل میں جاکر ملازم ہو گیا تھا جب کہ منصوبے کے مطابق اس کے بیٹوں نے اس کے اغوا کا ڈراما رچا دیا تاہم وہ بھی بے نقاب ہوا۔ اس واقعہ میں اب تک پانچ ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں۔