فخرالدین ابراہیم غیرمتنازع اور اصولوں کی پاسدار شخصیت

فارن سروس میں تدریس کا ارادہ تھا لیکن حادثاتی طور پر سندھ مسلم کالج میں پڑھانا شروع کردیا


ایکسپریس July 14, 2012
فارن سروس میں تدریس کا ارادہ تھا لیکن حادثاتی طور پر سندھ مسلم کالج میں پڑھانا شروع کردیا (فوٹو ایکسپریس)

نئے چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم ایک غیر متنازع اور اصولوں کی پاسداری کرنے والی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ فخرالدین جی ابراہیم 12 فروری 1928 کوغیر منقسم بھارت کی ریاست گجرات کے علاقے کاٹھیا واڑمیں پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم انھوں نے بمبئی میں حاصل کی جہاں وہ اسکاؤٹ کے ٹروپ لیڈرتھے۔ فخرالدین جی ابراہیم کہتے ہیں کہ وہ ٹروپ لیڈرفِفٹین بمبئی تھے جو بہتبڑی بات ہوتی تھی۔ انھوںنے بمبئی سے انٹراور پھر ایل ایل بی کیا اورپھر مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن روانہ ہوگئے۔ لندن میں انھوں نے بار ایٹ لاکیا اورانٹرنیشنل ریلیشنز میں ڈپلوماکیا۔ فخرالدین جی ابراہیم کہتے ہیں جب میں واپس آیا تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کرنے والا ہوں، میں نے سوچا کہ میں فارن سروس میں جا کرتدریس کا کام کروں گا لیکن حادثاتی طور پر سندھ مسلم کالج میں پڑھانا شروع کر دیا۔

فخرالدین جی ابراہیم کا کہنا ہے کہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں انھوں نے صوبہ سندھ کے گورنر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ جب بینظیر بھٹو کی حکومت کو تحلیل کردیا گیا تو فخرالدین جی ابراہیم نے بھی سندھ کے گورنر کی حیثیت سے استعفٰی دے دیا۔ اس کے بعد وہ وکالت کی پریکٹس کرتے رہے۔ بینظیر بھٹو بہت مہربان تھیں، ان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے، ہاں زرداری صاحب کے ساتھ میرے کوئی تعلقات نہیں تھے۔ بینظیر بھٹو جب دوسری مرتبہ وزیراعظم بنیں تو فخرالدین جی ابراہیم کو اٹارنی جنرل پاکستان بنایا گیا لیکن اس عہدے پر فائز ہونے کے چند ماہ بعد جب وہ کراچی آئے ہوئے تھے تو ان کے علم میں آیا کہ حکومت نے شریف الدین پیرزادہ کو اِنگیج کرلیا ہے۔ فخرالدین جی ابراہیم کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ اٹارنی جنرل کے دفتر کی تذلیل تھی کہ اٹارنی جنرل کے علم میں لائے بغیر کسی شخص کو ان ہی کے دفتر میں انگیج کرلیا جائے۔ اس معاملے پر فخرالدین جی ابراہیم نے استعفیٰ دے دیا۔

فخرالدین جی ابراہیم نے اپنی ایک غلطی کا ذکر کرتے ہوئے کہا 'ایک غلطی کردی یار، ایک غلطی کردی میں نے، فاروق لغاری کی حکومت میں شامل ہوگیا تھا میں وزیرِ قانون کی حیثیت سے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ اس کو غلطی کیوں سمجھتے ہیں، تو ان کا کہنا تھا 'میں اس کو غلطی اس لیے کہتا ہوں کہ وہ 58(2b) کی حکومت تھی۔ اپنی زندگی کے چند دلچسپ پہلوؤں سے پردہ اٹھاتے ہوئے فخرالدین جی ابراہیم نے کہا کہ سکول کے زمانے میں کتاب میں ایک مضمون تھا جس کا عنوان تھا 'چِکلک' اور اْس وقت بہت دبلے پتلے تھے تو سکول میں ان کا نام چکلک پڑ گیا تھا۔ یہ کہہ کر وہ خود ہنسنے لگے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا 'پھر میں جب لندن گیا تو مشیر پیش امام بمبئی کے تھے وہ بھی وہاں آگئے تھے۔ تو میں نے انہیں کہا کہ اب تو میرے نام سے پکارو یار، لیکن وہ چکلک کہتا رہا اور لندن میں مجھے دیگر دوست چِک کہنے لگے اور میرا نام لندن میں چِک پڑ گیا تھا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ میں چھوٹا تھا اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ہوا میں اڑ جاؤں۔ وہ ایک بار پھر ہنسنے لگے اور اچانک ان کو ایک اور واقعہ یاد آگیا۔ 'یہاں میں یہ بتادوں کہ ایک بدقسمتی تھی میری، میں نے بار ضرور کیا لیکن ایک بھی لیکچر اٹینڈ نہیں کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں