ظالم کون

جو تھوڑی دیر پہلے بچی کی مالکن کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے اب صحت مند والدین کو گالیاں دینے لگے۔۔


اسعد الدین March 06, 2015
او بھیئے!! ایک دو نہیں درجنوں مثالیں گنواسکتا ہوں جو ہٹے کٹے ہونے کے باوجود خود کام کرنے کے بجائے گھرمیں پلنگ توڑتے رہتے ہیں اور معصوم بچوں کو ایسے حیوانوں کے حوالے کردیتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: نواب صاحب توپ چیز ہیں، خود بھاری بھر کم ہیں بات بھی وزنی کرتے ہیں۔ موڈ ٹھیک ہو تو صحیح اور بگڑ جائے تو دو منٹ میں موٹی سی گالی زبان کی اور بندہ جوتے کی نوک پر رکھ دیتے ہیں۔

اپنے گھر کے سامنے چوکڑی جماتے ہیں جہاں یار لوگ آتے ہیں خوب گپ شپ رہتی ہے۔ ابھی کل ہی کا تو ذکر ہے، پتا نہیں ایسی کیا بات شروع ہوئی جو گھومتے گھماتے چائیلڈ لیبر پر آگئی۔ محفل میں ایک صاحب نے چند دن پہلے لاہور کے ایک مہنگے علا قے میں ایک گھریلو ملازمہ پر تشدد کا ذکر چھیڑ دیا کہ ما لکن نے اس بے چاری کو مار مار کہ چٹنی بنادیا۔

بس ۔۔۔ اتنا کہنا تھا کہ طرح طرح کے تبصرے شروع ہوگئے۔ کسی نے کہا ایسا ظلم کرنے والوں کو اُلٹا لٹکا دینا چاہئے کہ زندگی بھردماغ سیدھا رہے۔ ساتھ ہی ایک مشورہ بھی نقد آگیا کہ ایسوں کی تو ٹانگ پر ٹانگ رکھ کہ چیر کر نمک چھڑک دینا چاہئے کہ سالوں کو پتا چلے کہ تکلیف کیا ہوتی ہے۔

ایک صا حب کے بقول حکومت دھنیا پی کر سورہی ہے۔ ہمیشہ واقعہ ہونے کے بعد جاگتی ہے۔ ایک بزرگوار اپنے پوپلے منہ کو سنبھالتے ہوئے کم سن ملازمہ کے مالکوں کو ہاتھ کی مختلف پوزیشن بنا بناکر بڑے اسٹائل سے گالیاں دینے لگے جن کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا وہ بس ہر ایک کی با ت پر ہاں ہاں کہے جارہے تھے اور نواب صاحب ۔۔۔۔ وہ صرف سُن رہے تھے کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔

دیر تک سب اپنے اپنے کلیجے ٹھنڈے کرتے رہے۔ اب نواب صاحب نے اسٹارٹ لیا، اُن کی ایک کوالٹی ہے کہ جب لوگ بات کرتے ہیں تو یہ کسی نہ ٹوکتے ہیں نہ روکتے ہیں اور سب کے خاموش ہونے کے بعد بات کرتے ہیں اور کوئی نیا نکتہ سامنے لاتے۔ کہنے لگے اِس معصوم بچی پر ظلم کرنے والوں کی تو ایسی تیسی کرنی ہی چایئے تاکہ سب دیکھ لیں، سُن لیں اورآئندہ یاد رکھیں ۔۔ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ایسے بچوں کے والدین خاص طور پر باپوں کی گردن ناپنے کی بھی ضرورت ہے جو ہٹے کٹے ہونے کے باوجود خود کام کرنے کے بجائے گھرمیں پلنگ توڑتے رہتے ہیں اور معصوم بچوں کو ایسے حیوانوں کے حوالے کردیتے ہیں۔

بات کرتے کرتے نواب صاحب ٹیمپو میں آگئے ۔۔ او بھیئے!! ایک دو نہیں درجنوں مثالیں گنواسکتا ہوں جہاں ہڈ حرام باپ سارا دن پتا نہیں کہاں کہاں ہاتھ ڈال کر کھجاتا رہتا ہے اور شام میں گلی کے نکڑ پر باقاعدگی سے تیرے میرے کی غیبت، بُرائیاں کرتا ہے اوراس کے بچے لاوارثوں کی طرح چند ہزار کے پیچھے خوار ہوتے ہیں۔

اِس بدبخت کو اتنا احساس نہیں ہوتا کہ اِس کے پوستی ہونے کی کس قدر بھاری قیمت اِس کے بچوں کو ادا کرنی پڑے گی۔۔۔۔ انہیں اپنے گھر کا ہوش نہیں ہوتا اور امریکا کی سیاست پرایسا تبصرہ کرتے ہیں جیسے اِن کا باپ وہاں کا صدر تھا۔ بچے پر ظلم کرنے والا تو سب کو نظر آتا ہے لیکن خون کا رشتہ رکھنے والے جو ظلم کرتے ہیں اُس کو کون روکے گا؟؟

نواب صاحب غصے میں بولے جارہے تھے اُدھر وہ لوگ جو تھوڑی دیر پہلے اِس بچی کی مالکن کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے وہ اب گھریلو ملازمت کرنے والے ایسے بچے جن کے باپ ہاتھ پاوں سلامت ہونے کے باوجود کچھ نہیں کرتے اُن کو گالیاں دینے لگے۔۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں