شام اور ترکی میں کشیدگی
شام کے باغیوں کو خلیج عرب کی ریاستوں سے بھی مدد مل رہی ہے لیکن بشار الاسد کی حکومت کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔
ایک طرف شام کے اندر خانہ جنگی میں مسلسل شدت پیدا ہو رہی ہے دوسری طرف ترکی بھی شام کے ساتھ سرحدی جھڑپ میں ملوث ہو گیا ہے۔
ترکی کا کہنا ہے کہ اس کے سرحدی علاقے پر گولہ باری میں پہل شام نے کی ہے جب کہ ترک وزیراعظم نے انتباہ کیا ہے کہ اگر شام کی طرف سے دوبارہ کوئی حملہ ہوا تو اسے بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مغربی طاقتیں ترکی کو شام کے دلدل میں دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ شام پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ علاقائی مسائل میں خوامخواہ اپنی ٹانگ اڑا کر حالات کو پیچیدہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے جس کا ثبوت ترکی کے ساتھ شام کی حالیہ سرحدی جھڑپ ہے۔
ادھر ترکی کی پارلیمنٹ نے ترکی کی سرحد پر شامی گولہ باری سے پانچ ترک باشندوں کی ہلاکت کے بعد شام کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کی اجازت دے دی ہے حالانکہ شام کی طرف سے کی جانے والی اس گولہ باری کو کافی عرصہ گزر چکا ہے۔ پارلیمنٹ کی طرف سے اجازت ملنے پر ترکی نے بھی شام کی سرحد پر جوابی حملہ کیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ترکی اور شام ایسے پڑوسی ہیں جن کی ایک سرحد مشترک ہے لیکن شام میں گزشتہ سال سے باغیانہ تحریک شروع ہونے کے بعد سے ان دونوں ملکوں کے تعلقات میں خاصی کشیدگی پیدا ہو چکی ہے۔
اسی سال کے وسط میں شام نے ترکی کا ایک جاسوس طیارہ مار گرایا تھا جو بحیرہ روم پر محو پرواز تھا۔ شام نے ترکی پر شامی باغیوں کی مدد کرنے اور ان کی ترکی میں مہمانداری کرنے کا الزام بھی لگایا لیکن اس کے باوجود تجزیہ نگاروں کو اس بات کی توقع نہیں تھی کہ انقرہ اور دمشق حربی طور پر ایک دوسرے کے مد مقابل آ جائیں گے۔ شام نے اب بھی مصالحتی لہجہ اختیار کرنے کی کوشش کی ہے جب کہ ترکی کا بھی یہ کہنا ہے کہ اس کی پارلیمنٹ کی قرارداد کا مطلب شام کے خلاف کھلی جنگ کی اجازت دینا نہیں بلکہ صرف مدافعتی اقدامات کا اذن دیا گیا ہے۔
ترکی کے اندر بھی جنگ کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔ دریں اثناء اقوام متحد اور دیگر عالمی طاقتوں نے دونوں ملکوں کو ضبط و تحمل کی تلقین کی ہے لیکن سلامتی کونسل نے ترکی پر شامی گولہ باری کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق شام کی خانہ جنگی میں 30 ہزار کے لگ بھگ لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں جب کہ ترکی' لبنان اور اردن کی سرحدوں کے ساتھ واقع شام کے وسیع علاقے پر باغیوں کے قبضے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ چند ہفتے قبل اپوزیشن کے جنگجوؤں نے ترکی کی سرحد کے قریب ایک شامی قصبے پر مکمل قبضہ بھی کر لیا تھا اور غالباً شام کی طرف سے ترکی کی سرحد پر گولہ باری کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہ تھی۔
شام کے باغیوں کو خلیج عرب کی ریاستوں سے بھی مدد مل رہی ہے لیکن بشار الاسد کی حکومت کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ ایسی صورت میں اگر ترکی اس جھگڑے میں اور زیادہ آگے بڑھتا ہے تو اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ ترکی چونکہ نیٹو کا فعال رکن ہے لہٰذا اس کے شام میں ملوث ہونے سے دیگر نیٹو ممالک کو بھی شہ مل سکتی ہے۔ موجودہ صورت حال کو اور زیادہ خراب ہونے سے بچانے کے لیے یہ لازم ہے تمام فریقین کی طرف سے مکمل فائربندی کرا دی جائے جس کے بعد شام میں جمہوری عمل کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔ نیز علاقائی ریاستوں کو بھی جھگڑے میں ملوث ہونے سے گریز کرنا چاہیے۔
ترکی کا کہنا ہے کہ اس کے سرحدی علاقے پر گولہ باری میں پہل شام نے کی ہے جب کہ ترک وزیراعظم نے انتباہ کیا ہے کہ اگر شام کی طرف سے دوبارہ کوئی حملہ ہوا تو اسے بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مغربی طاقتیں ترکی کو شام کے دلدل میں دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ شام پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ علاقائی مسائل میں خوامخواہ اپنی ٹانگ اڑا کر حالات کو پیچیدہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے جس کا ثبوت ترکی کے ساتھ شام کی حالیہ سرحدی جھڑپ ہے۔
ادھر ترکی کی پارلیمنٹ نے ترکی کی سرحد پر شامی گولہ باری سے پانچ ترک باشندوں کی ہلاکت کے بعد شام کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کی اجازت دے دی ہے حالانکہ شام کی طرف سے کی جانے والی اس گولہ باری کو کافی عرصہ گزر چکا ہے۔ پارلیمنٹ کی طرف سے اجازت ملنے پر ترکی نے بھی شام کی سرحد پر جوابی حملہ کیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ترکی اور شام ایسے پڑوسی ہیں جن کی ایک سرحد مشترک ہے لیکن شام میں گزشتہ سال سے باغیانہ تحریک شروع ہونے کے بعد سے ان دونوں ملکوں کے تعلقات میں خاصی کشیدگی پیدا ہو چکی ہے۔
اسی سال کے وسط میں شام نے ترکی کا ایک جاسوس طیارہ مار گرایا تھا جو بحیرہ روم پر محو پرواز تھا۔ شام نے ترکی پر شامی باغیوں کی مدد کرنے اور ان کی ترکی میں مہمانداری کرنے کا الزام بھی لگایا لیکن اس کے باوجود تجزیہ نگاروں کو اس بات کی توقع نہیں تھی کہ انقرہ اور دمشق حربی طور پر ایک دوسرے کے مد مقابل آ جائیں گے۔ شام نے اب بھی مصالحتی لہجہ اختیار کرنے کی کوشش کی ہے جب کہ ترکی کا بھی یہ کہنا ہے کہ اس کی پارلیمنٹ کی قرارداد کا مطلب شام کے خلاف کھلی جنگ کی اجازت دینا نہیں بلکہ صرف مدافعتی اقدامات کا اذن دیا گیا ہے۔
ترکی کے اندر بھی جنگ کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔ دریں اثناء اقوام متحد اور دیگر عالمی طاقتوں نے دونوں ملکوں کو ضبط و تحمل کی تلقین کی ہے لیکن سلامتی کونسل نے ترکی پر شامی گولہ باری کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق شام کی خانہ جنگی میں 30 ہزار کے لگ بھگ لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں جب کہ ترکی' لبنان اور اردن کی سرحدوں کے ساتھ واقع شام کے وسیع علاقے پر باغیوں کے قبضے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ چند ہفتے قبل اپوزیشن کے جنگجوؤں نے ترکی کی سرحد کے قریب ایک شامی قصبے پر مکمل قبضہ بھی کر لیا تھا اور غالباً شام کی طرف سے ترکی کی سرحد پر گولہ باری کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہ تھی۔
شام کے باغیوں کو خلیج عرب کی ریاستوں سے بھی مدد مل رہی ہے لیکن بشار الاسد کی حکومت کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ ایسی صورت میں اگر ترکی اس جھگڑے میں اور زیادہ آگے بڑھتا ہے تو اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ ترکی چونکہ نیٹو کا فعال رکن ہے لہٰذا اس کے شام میں ملوث ہونے سے دیگر نیٹو ممالک کو بھی شہ مل سکتی ہے۔ موجودہ صورت حال کو اور زیادہ خراب ہونے سے بچانے کے لیے یہ لازم ہے تمام فریقین کی طرف سے مکمل فائربندی کرا دی جائے جس کے بعد شام میں جمہوری عمل کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔ نیز علاقائی ریاستوں کو بھی جھگڑے میں ملوث ہونے سے گریز کرنا چاہیے۔