بھاگتے چور کی لنگوٹی

ہمارے یہاں اتنا چور نہیں بولتے جتنا اُن کے لنگوٹ بولتے ہیں۔

ہمارے یہاں جرائم کا اعداد وشمار کا پیمانہ بھی یہی ہے کہ جرم کے بجائے لنگوٹوں کی گنتی کی جاتی ہے۔ فوٹو: فائل

بھاگتے چور کی مثال آپ نے بھی سُنی ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ کسی بھاگتے ہوئے چور کی لنگوٹ آپ کے ہاتھ میں آبھی گئی ہو اورپھر یقیناً آپ نے وہی کیا ہوگا جو ایسی صورتحال سے دوچار کوئی بھی شخص چور کے بجائے ہاتھ آئی لنگوٹ کو ٹھکانے لگانے کی فکر میں مبتلا ہوجاتا ہے تاوقت یہ کہ اسے یہی لگتا ہے کہ وہ چور خود اور یہ لنگوٹ اسی کی ہے۔

پولیس کا خوف الگ سر پہ سوار ہوتا ہے کہ ہمارے لوگوں کو خبر ہے کہ چور کے لنگوٹ کا سائز اسمال، میڈیم یا بھلے لارج ہو یہ اکثر اس لنگوٹ کے لانے والے کو ہی کھینچ تان کر پہنا دیا جاتا ہے کیونکہ لنگوٹ تو دستیاب ہے ہی بس اس میں چور کوڈالنے کی دیر ہوتی ہے!

ہمارے یہاں پولیس اور میڈیا یہ دوشعبے ایسے ہیں جن کا واسطہ دن رات انہی چوروں اور ان کے لنگوٹوں سے پڑتا ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ ان دونوں شعبوں نے اپنے اپنے حصے کا کام بانٹ رکھا ہے یعنی چور پکڑنا میڈیا کی ذمہ داری ہے اور لنگوٹ کی دیکھ بھال پولیس کے ذمے۔

اب ہمارا میڈیا کتنا بھی آزاد سہی مگر بہرحال ابھی اسے اتنی آزادی نہیں ملی کہ بناء لنگوٹ والوں کو ٹی وی پر دکھانے لگے! ٹی وی پر ٹاک شوز دیکھتے ہوئے آپ کے من میں لازمی یہ سوال آتا ہوگا کہ ان ٹاک شوز میں آنے والے اکثر حکومتی اور سیاسی جماعتوں کے شرکاء کے مُنہ پر ہی کیوں کیمرہ ٹکا رہتا ہے؟

توجناب اس کی بھی وجہ بھی یہی ہے کہ ان میں سے اکثر و بیشتر شرکاء وہی ہیں جو اپنے لنگوٹوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ اسی طرح اگر بازار میں لنگوٹ دستیاب نہ ہوں تو دکاندار اگلی دکان کے بجائے گاہک کو قریبی تھانے کا پتہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں! کہ وہاں سے باآسانی لنگوٹ مل جائیں گے۔


ہمارے یہاں جرائم کا اعداد وشمار کا پیمانہ بھی یہی ہے کہ جرم کے بجائے لنگوٹوں کی گنتی کی جاتی ہے۔ مگر یہ چیز دھیان میں رہے کہ اگر چور کا تعلق حکومت یا کسی بڑی سیاسی جماعت سے ہے تو ایسی صورت میں آپ کو لنگوٹ بھی دستیاب نہیں ہوگی پھر چور تو بڑی دور کی بات ہے۔

لنگوٹ پر مزید پانی ڈالنے سے قبل وضاحت کردوں کہ (روشنی ڈالنے کی مثال اس لئے نہیں دی کہ غلاظت سے ہر بھری ہوئی چیز پر پانی ڈالا جاتا ہے روشنی ڈالنے کی صورت غلاظت مزید نمایاں ہوگی)۔ ویسے چور دو قسم کے ہوتے ہیں ایک پیشہ ور اوردوسرے خاندانی چور ۔

پیشہ ور وہ چور جو وقت اور حالات کے تحت اپنا پیشہ تبدیل کرنے کا احتمال ہوتا ہے مگر خاندانی چور وہ ہیں جن کے آباؤ اجداد یہ کام کرتے چلے آرہے ہوں تو کسی بھی صورت میں ان کے لئے اپنے اجداد کی اس روایت سے منہ موڑنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ خاندانی چوروں میں یہی حکمران و سیاسی گروہ آتے ہیں جن میں چوری کی فطرت وراثتی طور پر منتقل ہوتی ہے۔ پیشہ ور چوروں میں اتحاد کی مثال نہیں ملتی مگر حکمران و سیاسی چوروں میں یہ مثال باآسانی مل جاتی ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جب حمام ایک ہو تو ننگوں کو کمپرومائز کرنا ہے پڑتا ہے!

لہذا یہاں لنگوٹ کے حوالے سے کوئی تمیز نہیں رکھی جاتی اکثر چور ایک دوسرے کا لنگوٹ پہن کر چلتے بنتے ہیں اور بعض جماعتیں تو گذشتہ حکمرانوں کے چھوڑے ہوئے لنگوٹوں سے بھی کام چلا لیتے ہیں او ر پھر لنگوٹیے یار کہلاتے ہیں۔ چوروں کا ایک اعلیٰ طبقہ وہ ہے جو اقتدار میں رہتا ہے لہذا ان کے لنگوٹ انہی کے پاس رہتے ہیں پولیس کے نزدیک ان کے لنگوٹ کسی خودکش حملہ آور کی بارودی جیکٹ سے کم نہیں لہذا پولیس ان کے لنگوٹوں سے اتنا ہی دور رہتی ہے جتنا خودکش حملہ آور کی بارودی جیکٹ سے دوررہتی ہے ۔

ہمارے یہاں اتنا چور نہیں بولتے جتنا اُن کے لنگوٹ بولتے ہیں۔ گذرے وقتوں میں کھوجی ہوتے تھے جہاں چوری ہوئی ان کی خدمات لی جاتی تھیں۔ اس کا یہ فائدہ ہوتا تھا کہ لنگوٹ ہی نہیں چور بھی مل جاتا تھا مگر دورِ جدید میں یہ کام جب کتوں سے لیا جانے لگا توجب اُن کو لنگوٹ سنگھائے گئے توتمام کتوں نے اندھا دھند ایوانوں کی طرف یوں دوڑلگا دی کہ ان کو پکڑنا مسئلہ ہوگیا اس کے بعد ہی وہ سب کے سب غائب کردئیے گئے۔۔۔۔ نہیں لنگوٹ نہیں ۔۔۔۔۔ وہ کتے!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story