غربت لانگ مارچ

عالمی منڈی میں اناج کی قیمتیں مزید بڑھنے والی ہیں۔


Zahida Hina October 07, 2012
[email protected]

پھٹی ہوئی ایڑیاں، ٹوٹی ہوئی جوتیاں، چہرے دھوپ سے جھلسے ہوئے اور گال فاقے سے پچکے ہوئے۔

رنگ برنگ کی ساڑیاں پہنے یہ عورتیں ہاتھوں میں 'ایکتا پریشد' یعنی 'اتحاد فورم' کے سفید اور سبز جھنڈے اٹھائے چلچلاتی دھوپ میں قطار بنائے چلتی چلی جارہی ہیں۔گوالیار سے غربت اور بھوک کے خلاف احتجاج پر نکلنے والی ان عورتوں کی منزل نئی دلی ہے۔ وہ 350 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے 26 دن میں نئی دلی پہنچیں گی۔ ان کے پیچھے بوڑھے اور جوان بھی ترتیب اور تنظیم سے چل رہے ہیں۔یہ قافلہ گوالیار سے نکلتے ہوئے 35 ہزار مردوں اور عورتوں پر مشتمل تھا۔ ان میں کسان، مزدور، سڑک کوٹنے والیاں، مچھیرے، مچھیرنیں اور بے روزگار سب ہی شامل ہیں۔ اتحاد فورم جس نے بھوک اور غربت کے خلاف اس لانگ مارچ کا اہتمام کیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ یہ مار چ 5 ریاستوں سے گزرے گا اور جب یہ دلی پہنچے گا تو اس میں حصہ لینے والوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہوگی۔

دیہات کے چھپر ہوٹل یا ڈھابے میں رکھا ہوا ٹیلی ویژن انھیں اس ہندوستان کے متوسط طبقے کی زندگی کی جھلکیاں دکھاتا ہے جس میں لشکارے مارتی ہوئی کاریں، اشتہا انگیز کھانوں کے اشتہار ہیں۔ کتوں کے بسکٹ اور وہ قیمتی گدے ہیں جن پروہ آرام کرتے ہیں۔ بچوں کی آرام و آسائش اور تفریح کے رنگ ہیں۔ وہ اپنے ہی جیسے ہندوستانیوں کی اس زندگی کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھتے ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک ایسے خوشحال ہندوستان میں انھیں 24 گھنٹے میں پیٹ بھر کر ایک وقت کا کھانا بھی کیوں نہیں نصیب؟ ان کے بچے گندا پانی کیوں پیتے ہیں اور وہ اسکول کیوں نہیں جاسکتے؟ زرعی شعبہ اس بات سے پریشان ہے کہ اتنی بڑی آبادی کا پیٹ بھرنے کے لیے زراعت پر حکومت کو جتنی توجہ دینی چاہیے تھی اور اس سے وابستہ لوگوں کو جو مراعات ملنی چاہیے تھیں، ان کا دور دور تک نام ونشان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غریب اور درماندہ بچوں میں سے 42 فیصد وہ بچے جن کی عمریں پانچ برس کے اندر ہیں، ان کا وزن اپنی عمر کے حساب سے کم ہے۔

اتحاد فورم (ایکتا پریشد) کے منتظمین کا کہنا ہے یہ احتجاجی مارچ آگرہ، متھرا اور فرید آباد سے گزرتے ہوئے دلی پہنچے گا۔ نیشنل ہائی وے پر احتجاج کرنے والے لوگوں کو ہندوستان کے کروڑوں لوگ دیکھیں گے اور ان کے دلوں میں یقیناً ان لوگوں سے کچھ ہمدردی ہوگی جو نہ توڑ پھوڑ کریں گے ، نہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلائیں گے اور نہ کسی سے دو گھونٹ پانی کے طلب گار ہوں گے۔ وہ بھنے ہوئے چنے ، گڑ کی بھیلی اورپانی کی بوتل ساتھ لے کر چلے ہیں۔

غربت اور بھوک نے دنیا کے ان ملکوں کے لوگوں کوبھی دہشت زدہ کردیا ہے جن کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں اور جو اوسط درجے کی مطمئن اور خوش وخرم زندگی گزار رہے ہیں۔ ابھی صرف 20 دن پہلے لندن میں برطانوی وزیر اعظم کے زیر انتظام بھوک کے مسئلے پر ایک چوٹی کانفرنس ہوئی جس میں متعدد ملکوں کے وزاء اور اعلیٰ اہلکاروں نے شرکت کی۔ 10 ڈائوننگ اسٹریٹ کے دروازے کے سامنے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور دوسرے مشہور افراد نے ایک دوسرے کے ساتھ مسکراتے ہوئے تصویریں کھنچوائیں اور بہت سے شرکاء کو اس بات کا گمان رہا کہ شاید بھوک کے موضوع پر ہونے والی یہ کانفرنس واقعی بھوک مٹانے میں کوئی کردار ادا کرے گی۔

یہ بات بیشتر شرکاء نے تسلیم کی کہ اس وقت مغربی افریقا میں ساحل کا خطہ قحط کی لپیٹ میں ہے اور ایک کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ افریقیوں کی زندگی دائوپر لگ چکی ہے۔ بارشوں کے نہ ہونے سے فصلیں نہیں ہوئی ہیں اور اناج کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ بھوک سے نڈھال دیہاتی اپنی کل کائنات گٹھریوں میں باندھ کر سرپر دھر چکے اورشہروں کا رخ کررہے ہیں۔ اس آس میں کہ شاید انھیں کسی امدادی تنظیم سے دو نوالے مل جائیں۔ شاید کہیں کوئی امدادی کیمپ لگاہو اور ایک پیالہ دلیہ پیٹ میں لگی ہوئی آگ کو کچھ ٹھنڈا کردے۔ گزشتہ دہائیوں میں دنیا نے افریقا کے مختلف علاقوں میں خوفناک قحط دیکھے ہیں۔ ان کی تفصیلات رونگٹے کھڑے کردیتی ہیں لیکن دنیا کا نظام چلانے والے ملکوں نے عبرت نہیں پکڑی۔

عالمی منڈی میں اناج کی قیمتیں مزید بڑھنے والی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکا کو نصف صدی کی سب سے بھیانک خشک سالی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے اس کی کھیت بہت کم مقدار میں اناج پیدا کررہے ہیں۔ وہ اناج جو امریکی کھیتوں سے آتا تھا اور دنیا کی منڈیوں میںبکتا تھا، اب وہ بہت کم ہوچکا ہے اور عالمی غلہ منڈیوں میں قیمتوں میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ابھی مزید اضافے کا اندیشہ ہے۔ماحولیات کے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ مغربی افریقا اور امریکا میں خشک سالی دراصل موسمی تبدیلی کا نتیجہ ہے جس سے ہم گزشتہ نصف صدی سے خبردار کررہے ہیں لیکن ترقی یافتہ صنعتی ملکوں نے ہمارے باتوں پر کان نہیں دھرے۔ انھوں نے غربت اور بھوک کے ایک اور بڑے سبب کی طرف بھی اشارہ کیا اور یہ ہے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بڑے پیمانے پر بائیو فیول کی تیاری اور اس کا استعمال۔

یہ بات جب ڈیوڈ کیمرون کی بلائی جانے والی بھوک کانفرنس میں کہی گئی تو وہاں موجود بہت سے لوگ اس حقیقت نمائی سے بہت ناراض ہوئے۔اس بارے میں جارج مونبیاٹ اکیسویں صدی کی ابتداء سے یہ کہہ رہا ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو دنیا کے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی اور دردمندی سے سوچنے پر مجبور کریں۔ انھیں بتائیں کہ ہمارے کرۂ ارض کی فلاح اسی میں ہے کہ قریبی فاصلوں کے لیے پیدل چلا جائے یا سائیکل استعمال کی جائے ۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو زیادہ سے زیادہ بہتر کیا جائے تاکہ لوگ اپنی کاروں کو گھر یا ٹیوب اسٹیشن پر کھڑا کردیں اور ٹیوب ٹرین اور بس سے سفر کریں۔ سب سے زیادہ یہ کہ آٹو انڈسٹری کو ایسی کاریں بنانے کے لیے مجبور کیا جائے جو کم ایندھن استعمال کرتی ہوں۔

اس نقطہ نظر سے اتفاق کرنے والوں کا کہنا یہ ہے کہ ہم نے یورپ اور امریکا کو دھویں اور اس کے زہریلے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے بائیو فیول ایجاد کیا اور لوگوں کو شاندار اور لبھا دینے والے اشتہاروں سے آمادہ کیا کہ وہ اپنی گاڑیوں میں بائیو فیول کا استعمال کریں۔ یہ بائیو فیول غریب کے منہ کا نوالہ چھین کر تیار ہورہا ہے۔ 2012ء میں امریکی بھٹے کا 40 فیصد بائیو فیول کی تیاری میں استعمال ہورہا ہے۔ ابھی اس ایندھن کا زیادہ استعمال صرف یورپین یونین میں ہورہا ہے اس کے باوجود خوردنی تیل کا 7 فیصد اس ایندھن کی نذر ہوچکا ہے۔ یورپین کمیشن کا کہنا ہے کہ اس نے 2020ء تک بائیو فیول کے استعمال کا جو ہدف بنایا ہے اس کے نتیجے میں غلے کی قیمت میں 3 سے 6 فیصد کا اضافہ ہوگا۔

ایک یورپی تنظیم نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ 2021ء تک دنیا میں پیدا ہونے والے بھٹے (مکئی) کا 14 فیصد، گنے کا 34 فیصد اور خورنی تیل تیار کرنے والی اجناس کا 16 فیصد بائیو فیول کی تیاری میں استعمال ہورہا ہوگا۔ اس بائیو فیول کی بڑھتی ہوئی مانگ نے متعدد یورپی کمپنیوں کو یہ راستہ دکھایا ہے کہ وہ غریب ملکوں میں وسیع پیمانے پر زمینیں خریدیں، وہاں مکئی، گنے اور دوسری فصلیں کاشت کریں اور پھران فصلوں کو غریب کے کھانے کے لیے نہیں، بائیو فیول کی تیاری میں استعمال کریں۔ اس مقصد کے لیے دنیا کے مختلف ملکوں میں 50 لاکھ ہیکٹر زمین خریدی جاچکی ہے اور وہاں کاشت ہورہی ہے۔ ایکشن ایڈ کا کہنا ہے کہ اس 50 لاکھ ہیکٹر زمین کا حساب لگایا جائے تو یہ یورپ کے ملک ڈنمارک کے رقبے جتنا ہے۔

اگر آپ کو یاد ہوتو یہاں بھی ایک خبر شایع ہوئی تھی کہ بعض 'برادر' ملک ہمارے یہاں زرعی اراضی خرید رہے ہیں جس پر وہ اپنی پسند کی فصلیں کاشت کریں گے۔ اس پر کچھ شور مچا اور پھر معلوم نہیں کیا ہوا۔ ظاہر ہے 'برادر' ملکوں کو ناراض کرنے یا ان سے کوئی سوال جواب کرنے کی ہمت ہم میں کہاںہے۔

بات گوالیار سے شروع ہونے والے احتجاجی مارچ سے آغاز ہوئی تھی ۔ پھٹی ہوئی ایڑیاں، ٹوٹی ہوئی جوتیاں، چہرے دھوپ سے جھلسے ہوئے اور گال فاقے سے پچکے ہوئے۔ رنگ برنگ کی ساڑیاں پہنے یہ عورتیں ہاتھوں میں 'اتحاد فورم' کے سفید اور سبز جھنڈے اٹھائے چلچلاتی دھوپ میں قطار بنائے چلتی چلی جارہی ہیں۔ گوالیار سے غربت اور بھوک کے خلاف احتجاج پر نکلنے والے ان لوگوں کی منزل نئی دلی ہے۔

اس احتجاجی لانگ مارچ میں شریک عورتوں اور مردوں کو دیکھ کر اپنے یہاں کے ایک مجوزہ لانگ مارچ کا خیال آیا جس کی قیادت منرل واٹر پیتی ہے، نجی ہوائی جہازوں میں سفر کرتی ہے، جوگر پہن کرلانگ مارچ میں شریک ہوتی ہے، اپنے اصل حکمرانوں پرنہیں بلکہ امریکا پرخوب برستی ہے اور ان سے پینگیں بھی بڑھاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں