حکومت کی منجھلی اورسنجھلی بیویاں

پرانی اور نئی بیویوں کے علاوہ ہمارے ہاں دو، دو، تین تین اور چار چار بیویوں کا رواج بھی ہے۔


Tahir Sarwar Mir October 07, 2012
[email protected]

ہمارے ہاں جیسے رحمن ملک کی منسٹری خطرے میں ہے اسی طرح بھارت کے مرکزی وزیر شری پرکاش جسوال کی وزارت بھی ٹارگٹ پر ہے۔

یوں تو پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ اور بھارت کے سینٹرل منسٹر کی ''اسٹوری اور اسکرین پلے'' الگ، الگ ہیں مگر لگتا ہے دونوں کے باکس آفس نتائج کھڑکی توڑ ہوں گے۔ رحمن ملک کو ہمارے ہاں دوہری شہریت کے معاملہ میںالیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کا سامنا ہے جب کہ ہمسایہ ملک کے منسٹر کو میڈیا اور مہیلائوں( عورتوں) کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بھارتی مرکزی وزیر شری پرکاش جسوال نے کانپور میں منعقد ہونے والے مشاعرے میں یہ کہہ دیا تھا کہ ''جس طرح پرانی بیوی اپنے شوہر کے لیے کشش نہیں رکھتی اسی طرح پرانی جیت بھی بے مزہ ہوتی ہے۔''

پرانی یا سینئر بیویوں کی شان میں گستاخی اور ''توہینِ بیگمات'' کے جرم میں منسٹر کو بھارت کے میڈیا میں ایک مہا بھارت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہندوؤں کا کہنا ہے کہ مہا بھارت ہستنا پور کی ریاست کی حاکمیت کے لیے دو رشتہ داروں (کورو) اور (پانڈو) قبیلوں کے مابین لڑی گئی۔ مہا بھارت کی جنگ کا واقعہ 600 قبل از مسیح کا ہے اور یہ 60 لاکھ اشعار پر مشتمل ایک بھاری کتاب ہے جسے ہندو دھرم میں مقدس تسلیم کیا جاتا ہے۔ مہا بھارت جنگ میں دروپدی جیسی بہادر بیوی کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو اس وقت کے ہندو وسیب کے مطابق پانچ خاوندوں کی اکلوتی بیوی تھی۔ جن کے نام یدھشڑ، بھیم سین، ارجن، نکل اور سھدیو تھے۔ گمان کیا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے تھنک ٹینکس نے بھی کولیشن گورنمنٹ کا گریٹ آئیڈیا مہا بھارت میں دروپدی کے کردار سے لیا تھا۔ شاید اسی لیے تو اس ''ٹرم جلی'' حکومت کے ہاں مہا بھارت کی طرح کسی ایک صفحہ پر بھی مورخ سکھ اور چین کی بانسری نہیں بجا سکا۔

پرانی اور نئی بیویوں کے علاوہ ہمارے ہاں دو، دو، تین تین اور چار چار بیویوں کا رواج بھی ہے۔ بے تحاشا مہنگائی کے باعث غریب کے لیے تو ایک بیوی کا ساتھ بھی خواب کی صورت اختیار کر گیا ہے مگر صاحب ثروت اور حکمران طبقے کا منہ شادی کے اس موتی چور لڈو سے بھرا پڑا بلکہ ٹھنسا ہوا ہے۔ کہتے ہیں''ہر کامیاب مر د کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔'' اصل میں اس حقیقت کو یوں تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ''ہر کامیاب شوہر کے پیچھے ایک بیوی کا ہاتھ ہوتا ہے۔'' لیکن فی زمانہ اس قول زریں میں ترمیم کی ضرورت ہے کہ کیونکہ ہمارے ہاں ایسے شوہر بھی پائے جاتے ہیں جن کے پیچھے ایک بیوی کا نہیں بلکہ بیویوں کی پور ی ''این جی او'' کا ہاتھ ہوتا ہے۔

واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اگر یہی رفتار رہی تو بیگمات کی یہ (این جی او ا) بہت جلد ''سوتن سیاسی پارٹی'' کی شکل اختیار کر لے گی۔ ذاتی طور پر مجھے حقوق نسواں کا علمبردار کہلانے کا بڑا شوق ہے اور میں اپنی ایک عدد بیوی کا تابع فرمان شوہر ہوں۔ میرے ذاتی خیالات بھی بھارتی وزیر سے مطابقت نہیں رکھتے، میں سمجھتا ہوں کہ عمر کے ایک خاص حصے میں انسان کو ''پرہیز علاج سے بہتر ہے'' جیسے حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے شرافت سے زندگی بسر کرنی چاہیے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میرے زیادہ تر دوست بیویوں سے متعلق اسی قسم کے خیالات و نظریات رکھتے ہیں جیسے بھارتی وزیر کے ہیں۔ برسبیل تذکرہ پرانی بیویوں سے متعلق اپنے بعض دوستوں کے خیالات پیش کر رہا ہوں۔

راقم الحروف کا متفق ہونا ہرگز ضروری نہیں ہے۔ ایک دوست کا کہنا ہے کہ... پرانی بیوی چیوگم کی طرح پھیکی ہوتی ہے اور شوہر مجبوراً اسے ٹافی سمجھ رہا ہوتا ہے... ایک سینئر کالم نگار کا پرانی بیگم کے بارے میں خیال ہے کہ... پرانی بیگم سے اظہارِ محبت کرنا ایسا ہی عمل ہے کہ انسان اپنے جسم کے اس حصے پر خارش کرے جہاں پر خارش نہیں ہو رہی ہوتی... بعض صورتوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر جب زیادہ ترقی کر جائے تو پرانی بیگم آئوٹ آف فیشن دکھائی دیتی ہے۔ ضروری نہیں کہ بیگم کی دلکشی کی مدت میعاد پوری ہونے کا واویلا شوہر کرے۔

میرے ایک میگا اسٹار صحافی دوست جو آج بھی اپنی بیگم کے ساتھ خوش ہیں ان کے بارے میں ایک خاتون نے اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ... ہائے، ہائے اب بھی ان کی بیوی وہی ہے... بیویوں کے لیے شوہر اور شوہروں کے لیے بیویاں اگر بہت پرانی ہو جائیں تو باقاعدہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی صورت اختیار کر جاتی ہیں۔ بیویوں کا شوہروں کے لیے سیاسی جماعتیں بن جانے کی ایسی ہی صورت حال کے لیے نامور مزاح نگار سید ضمیر جعفری نے کہا تھا کہ

میری بیوی قبر میں لیٹی ہے جن ایام سے
وہ بھی ہے آرام سے اور میں بھی ہوں آرام سے

میرے ایک پرانے دوست جنہیں ان کی ''سنیارٹی'' کے باعث میں اب باقاعدہ ریٹائر کرنے کے متعلق سوچ رہا ہوں۔ دوست کی ریٹائرمنٹ کی زیادہ تر وجہ دوستی میں ان کا سینئر ہونا نہیں بلکہ بے اعتدالی میں سینئر ہونا ہے۔ موصوف متذکرہ شعبہ میں 22 ویں گریڈ کے ''افسر'' ہو چکے ہیں اس کے اوپر چونکہ کوئی رینک اور عہدہ نہیں لہٰذا اپنی بھلائی اسی میں سمجھتا ہوں کہ ان کے ساتھ مزید صحبت اور سنگت کرنے سے پرہیز کرتے ہوئے ان سے ''گولڈن شیک ہینڈ'' کر لوں۔ اس ضمن میںکیا ہو گا، اس کا فیصلہ بعد میںکروں گا، فی الحال ان کا قول ملاحظہ کیجیے کہ... پرانی بیوی، پرانی شراب نہیں ہو سکتی... پرانی شراب میں سرور اور دلکشی ہوتی ہے یا نہیں۔

اس کا مجھے پتہ نہیں مگر یہ طے ہے کہ پرانی حکومت، پرانی بیوی سے بھی کہیں زیادہ ڈروانی شے بن جایا کرتی ہے۔ ہماری حالیہ جمہوری حکومت افہام و تفہیم کے نعرہ کے تحت معرض وجود میںآئی تھی جس کا برینڈ ٹائٹل ''کھپے حکومت'' قرار پایا تھا۔ موجودہ حکومت کا حال بھی اس شوہر جیسا ہے جس کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوتی ہیںاور اسے پرانی بیویوں کے بجائے نئی نویلی، منجھلی اور سنجھلی بیویاں عزیز ہوتی ہیں اور وہ ان کے حقوق پورے کرنے کو ہی 'شوہرانہ عدل و انصاف' سمجھ بیٹھتا ہے جب کہ اس کی پرانی بیوی یا بیویاں جو دکھ سکھ اور اس کے بُرے دنوں کی ساتھی ہوتی ہیں۔

وہ منجھلیوں اور سنجھلیوں کے ناز نخرے اٹھتے دیکھ کر سینہ کوبی کرتی رہتی ہیں۔ سندھ اور کراچی میں بلدیاتی اختیارات کی تقسیم کے معاملہ پر پیپلز پارٹی کی حکومت اور ایم کیو ایم کے مابین ''انڈراسٹینڈنگ'' کو ایسی ہی ایک کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کب تک اپنی منجھلیوں اورسنجھلیوں کو خوش کر کے حکومت کی رینگتی ہوئی گھر گھرہستی کو دھکا لگاتی ہے۔ اسے غریب عوام کی چھید در چھید جھولی میںکچھ نہ کچھ ڈالنا ہو گا وگرنہ آیندہ الیکشن میں عوام کی طرف سے تین طلاقیں اس کا ازدواجی مقدر بن سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں