جہالت کی برف
ہم لوگ منفی اعتبارسے ساری دنیا سے مختلف ہوچکے ہیں، ہم تمام پاکستانی ایک سرخ دائرے میں زندگی گزاررہے ہیں
ہم لوگ منفی اعتبارسے ساری دنیا سے مختلف ہوچکے ہیں، ہم تمام پاکستانی ایک سرخ دائرے میں زندگی گزاررہے ہیں۔6دہائیوں کامسلسل بوجھ اب ہماری سکت اوراسطاعت سے بہت زیادہ بڑھ چکاہے۔ سماجی،سیاسی،مذہبی اورمعاشی اعتبارسے ہم شدیدتوڑپھوڑاوردباؤکاشکارہیں۔مجموعی طورپر ہم لوگ سچ سے شدید خوفزدہ ہیں۔
ہمارے نظام کے طاقت ورترین لوگ مغربی ممالک کے ادنیٰ درجے کے سیاسی لوگوں کے سامنے ایسی عامیانہ حرکات کرتے ہیں کہ بتائی نہیں جاسکتیں۔کئی غیرملکی سیاسی لکھاریوں نے ہمارے مقامی فرعونوں کی پست ذہنیت اورکردارپر کئی سچے واقعات لکھے ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ ان لکھنے والوں کوہمارا مقتدرطبقہ کسی عدالت میں لے جانے کی جرات نہیں کرسکا۔وجہ صرف ایک ہے کہ وہ واقعات سچے ہیں۔یہ دراصل مقامِ عبرت ہے! مگر کس کے لیے!
وہ لوگ جنھیں تمام عمرکے لیے پابندسلاسل ہوناچاہیے، وہ ہمارے فیصلے کرتے رہے ہیں اوریہ جبر مسلسل جاری ہے۔ مجھے یہاں مردِصحرا،ڈاکٹرارشدبٹ کی بات سچ معلوم ہوتی ہے کہ یہ قوم اسی قابل ہے کہ اسے تیسرے درجہ کے حکمران ملیں۔میں جوکچھ تحریرکررہاہوں،وہ عام سی باتیں ہیں مگران سے ہٹ کر میں آپ کویہ احساس دلاناچاہتاہوں کہ ہم سائنس کی دنیامیں کہاں کھڑے ہیں۔اس میدان میں ہماری حیثیت کیاہے۔ تمام مسلم ممالک ایک جیسے علمی،فکری اورتحقیقی جمود کا شکارہیں۔
میں نے مسلم امت کالفظ استعمال نہیں کیا کیونکہ Nation Stateکے دورمیں مسلم اُمہ کاکوئی عملی وجودنہیں ہے۔اگرآپ مجھ سے متفق نہیں توویزہ کے بغیرسعودی عرب،ترکی یاایران جانے کی کوشش کریں۔آپ کوعملی جواب مل جائے گا۔مسلم ممالک فکری طورپربانجھ ہوچکے ہیں۔ 2014ء میں بہت سی نئی ایجادات ہوئیں۔ان میں سے ایک بھی کسی مسلمان سائنسدان،مفکریامسلمان ملک نے نہیں کیں۔
لاک ہیڈکمپنی(Lock Head Company)نے ایٹمی ری ایکٹرکومکمل تبدیل کردیاہے۔کمپنی کے مطابق اب بہت بڑی اورمہیب ایٹمی تنصیبات کی ضرورت نہیں ہے۔ہائی بیٹا ری ایکٹر(High Beta Reactor)اب مقناطیسی شیشہ(Magnetic Mirror Confinement)کے انتہائی جدیداستعمال سے اس قدرچھوٹابنادیاگیاہے کہ وہ عام سے ٹرک کے پچھلے حصے میں نصب کیاجاسکتاہے۔
ایٹمی فیوژن(Nuclear Fusion)کی دنیا میں یہ ایک ایسا انقلاب ہے کہ اس تغیر کے لیے مقام اورجگہ بے معنی ہوچکی ہے۔ ملک کی تمام ایٹمی قوت محض ایک ٹرک پرمنتقل کے جاسکتی ہے۔محض ایک ٹرک پرنصب ایٹمی ری ایکٹرکراچی اورلاہور جیسے بڑے بڑے شہروں کے لیے کئی سال مسلسل بجلی پیدا کرسکتاہے۔اس ایجاد سے صنعتی دنیامیں کیاانقلاب آئیگا، اس کا تصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔
ہم تمام لوگ موبائل فون اورکمپیوٹرپرWi-Fiانٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔یہ عام سی چیز، اب ہماری زندگی کاحصہ ہے۔واٹرٹاؤن(Water Town)میں ایک کمپنی Witricityکے نظریہ کوپیش کیاہے۔یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس سےWi-Fiکی مانند بجلی کی فراہمی ممکن ہوگی۔آپ اپنے گھریادفترمیں محض ایک چارجرلگادیجیے۔اس کے اردگرد بجلی سے چلنے والی تمام اشیاء تاراورکنکشن کے بغیروائرلیس کے ذریعے بجلی حاصل کریں گی۔
کمپنی کے مالک الیکس گروزن (Alex Gruzen)نے اعلان کیاہے کہ گھریادفترکے ٹی وی،فریج،لیمپ،بلب اوربجلی سے چلنے والی تمام اشیاء محض وائرلیس بجلی سے کام کرناشروع کردینگی۔آپ اندازہ فرمائیے کہ گھرمیں برقی تاروں کانظام مکمل طورپرختم ہوجائے گا۔ Witricityکی ایجاداس قدرمحیرالعقول ہے کہ اس سے بجلی کی ترسیل کاتمام موجودہ نظام بوسیدہ ہوجائے گا۔برقی روکے لیے دھاتی تارکی ضرورت ہی ختم ہوجائے گی۔
تھری ڈی پرنٹنگ ایک ایساانقلاب ہے جس سے تمام انسان فائدہ اٹھارہے ہیں۔ایوی رشنٹل(Avi Reichental)تھری ڈی سسٹم کاC.e.oہے۔اس کمپنی نے تین اطراف سے دیکھے جانی والی کاغذکی اس جدید پرنٹنگ کاآغازکیاہے جس سے ہرچیزتبدیل ہوچکی ہے۔اب اساتذہ طالبعلموں کو فزکس کے لیکچرمیں تھری ڈی ماڈل دکھاتے ہیں۔
طالبعلموں کوانتہائی مشکل معاملات کوآسانی سے سمجھنے میں سہولت ملتی ہے۔اس ایجادسے سائنسدان انسانی اعضاء کی تین اطراف سے مزین جزئیات دیکھتے ہوئے بیماری کوبہترسمجھ سکتے ہیں۔ہوائی جہازبنانے کی کمپنی جی ای (G.E)نے اس ایجادکواس نئے طریقے سے استعمال کرنا شروع کیاہے کہ جیٹ انجن کی صلاحیت بہت بڑھ چکی ہے۔ تھری ڈی پرنٹنگ سے تعلیم،سائنس اورطب کی دنیا بڑی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔
Appleکمپنی نے ایک نئی طرزکی گھڑی ایجادکی ہے۔ اس تحقیق پراس کمپنی نے اربوں ڈالرخرچ کیے ہیں۔یہ اسمارٹ گھڑی ہے۔اس کاڈیزائن اتناخوبصورت ہے کہ یہ کمپیوٹرہے یا گھڑی ہے۔اس گھڑی میں سارا نظام وہی ہے جو اسمارٹ فون میں موجودہے۔اس گھڑی نماکمپیوٹرسے آپ اوقات کا اندازہ تولگاہی سکتے ہیں،اس کے علاوہ یہ آپ کوپورے علاقہ کامکمل جغرافیہ بتائے گی۔اس سے آپ کوبخوبی پتہ چل جائے گاکہ آپ کی منزل کتنی مسافت پرہے۔گھڑی آپ کے تمام پیغامات پوری دنیامیں پہنچائے گی۔
اگرآپ گاڑی چلارہے ہیں اورآپ غلط سمت کی طرف چلے گئے ہیں تویہ گھڑی آپ کو فوراًمطلع کرے گی ۔یہ آپ کے تمام بلزاوربینک کے ساتھ مکمل رابطہ میں معاون ہوگی۔آپ اپنے گھرکے تمام بلزاس گھڑی کے توسط سے اداکرسکیں گے۔اس کے علاوہ یہ گھڑی آپ کوآپ کی صحت کے متعلق ہروقت بتاتی رہے گی۔آپ کابلڈپریشر(Blood Preasure)،خون میں ٹیکنیکل جزئیات یعنی آپ کی صحت کی تمام معلومات فراہم کرتی رہے گی۔ خواتین کے لیے اس گھڑی کو اتنا دیدہ زیب بنادیاگیاہے کہ ایسے معلوم ہوتاہے کہ انھوں نے ایک قیمتی گہنا پہنا ہوا ہے۔
دفتروں میں کام کرنے والے افرادگھنٹوں کرسیوں پر بیٹھے رہتے ہیں۔ان میں سے اکثریت کچھ عرصے کے بعدکمراورگردن کے دردمیں مبتلاہوجاتی ہے۔دردکی بنیادی وجہ ہے کہ یہ تمام افرادکرسی پراس زاویہ سے بیٹھتے ہیں کہ کمر اور گردن کے مہروں پرغیرضروری بوجھ پڑتا ہے۔ دس بارہ سال کے عرصے میں انسان ایک طرح کی معذوری کا شکار ہوجاتا ہے۔اکثریت کوپوری عمریہ پتہ ہی نہیں چلتاکہ تکلیف کی اصل وجہ کیاہے۔وہ دردکی دوائیاں کھاکھامزیدبیماریوں کاشکار ہوجاتے ہیں۔
باڈی ٹیک(Body Tech)کمپنی نے ایک چھوٹی سی چِپ(Chip)ایجادکی ہے۔یہ اتنی چھوٹی ہے کہ کسی بھی انسان کی قمیض یاپینٹ میں بٹن کے طورپراستعمال کی جاسکتی ہے۔چِپ کی خاص بات یہ ہے کہ جیسے ہی کرسی پربراجمان شخص غلط زاویہ سے بیٹھتاہے تویہ چِپ ایک خاص طریقے سےVibrateکرتی ہے۔یہ اس وقت تک معمولی سی حرکت کرتی رہتی ہے جب تک وہ شخص صحیح زاویہ سے بیٹھ نہیں جاتا۔یہ صحیح زاویہ اس شخص کوکبھی بھی کمراورگردن کے دردکے قریب تک نہیں جانے دیتا۔
قوت سماعت سے محروم لوگوں کے کتنے سنگین مسائل ہیں۔اس کااندازہ کرنابہت مشکل ہے۔اس محرومی کوکیسے ختم کیاجاسکتاہے اوران کی زندگی کوکیسے بہتربنایاجاسکتاہے۔اس کی بہت زیادہ کوشش کی گئی ہے۔اس کے لیے باقاعدہ ایک زبان(Sign Language)ترتیب دی گئی ہے۔
سان فرانسکو(San Franciso)کی ایک کمپنیMotion Savyنے اس میں حیرت انگیزکام کیاہے۔اس نے ایک چھوٹی سی ٹیبلیٹ بنائی ہے جس میں ایسے کیمرے لگائے گئے ہیں جواشاروںکی زبان کوصوتی الفاظ میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یعنی اب قوت سماعت سے محروم ہرشخص کی آوازسنائے دی گی۔
افریقہ کے ایک خاص حصہ(Sub-Sahara)میں پانچ سال سے کم عمرکے بچوں اوربچیوں میں اکثریت نابینا ہوجاتی ہے۔بل گیٹس نے یہ نابیناپن دیکھاتو اس نے دنیاکے امیرترین شخص کی حیثیت سے اعلان کیاجوجوکمپنی یاسائنسدان اس مسئلہ کاحل نکالے گا،وہ اس تحقیق کے تمام اخراجات برداشت کرے گابلکہ ایک انتہائی معقول رقم انعام کے طور پر بھی دے گا۔کوئنز لینڈیونیورسٹی(Queensland University)کے سائنسدانوں نے یہ چیلنج قبول کرلیا۔
انھوں نے تحقیق کرنے سے یہ تومعلوم کرلیاکہ اندھے پن کی اصل وجہ غذامیں وٹامنAکانہ ہوناہے۔مگرانھیں یہ سمجھ نہیں آرہاتھاکہ وہ اس غذائی کمی کومقامی حالات کے مطابق کیسے پورا کریں۔سب سہارن افریقہ میں لوگ کیلے کااستعمال بہت کرتے ہیں۔سائنسدانوں نے کیلے کاایک ایسابیج اوردرخت بنالیا،جس میں وٹامن اے بھرپورطریقے سے موجودہے۔اس کانام(Super Banana)رکھ دیاگیا۔یہ کارنامہ ایک آسٹریلین سائنسدان نے انجام دیا۔اس کانام جیمزڈیل (James Dale)ہے۔
اس درخت کواگانے کے لیے بل گیٹس نے ایک اسکیم شروع کی۔اس کانامReverse Ponzi Schemeرکھاگیا۔اس کے مطابق گاؤں کے ہرسردارکودس کیلے کے پودے مفت دیے گئے۔اس مفت اسکیم کی صرف ایک شرط ہے۔جب یہ درخت بڑاہوجائے گاتووہ سرداراس کی بیس شاخیں مختلف آدمیوں کومفت تقسیم کرے گا۔مفت تقسیم سے بہت تھوڑے عرصے میں ایسے درخت عام ہوجائیں گے جن کے پھل کے استعمال سے بچوں میں نابیناہونے کی بیماری ختم ہوجائے گی۔افریقہ کے انتہائی غریب ممالک میں یہ اسکیم شروع ہوچکی ہے۔اس سے انسانیت کی کتنی خدمت اورفلاح ہے،اس کااندازہ آپ خودلگاسکتے ہیں۔
میں ان تمام محققین اورسائنسدانوں کے سامنے اپنے آپ کو بے وقعت محسوس کررہاہوں۔ ایک سوال مجھے مسلسل بے سکون کررہاہے۔ان تمام ایجادات میں کسی مسلمان ملک کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
ملک تورہنے دیجیے،کسی مسلمان سائنسدان کااس جدیدتحقیق سے دوردورکابھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔یہ تمام کام مغرب نے سرانجام دیے ہیں،ان مغربی سائنسدانوں نے بلاتفریق قوم،رنگ یامذہب لوگوں میں لازوال آسانیاں پیداکرنے کی حقیقی کوشش کی ہے لیکن ہمیں سائنسی ترقی سے کیالینادینا؟ہمیں توتاریخی لوریاں سنا سنا کر گہری نیند سلادیاگیاہے!ایسے لگتاہے کہ ہماری سوچ اور فکر کو جہالت کی برف سے ہمیشہ کے لیے منجمدکردیاگیاہے!