92 کے ورلڈکپ کپتانوں کی کارکردگی کا جائزہ عمران خان کے قلم سے

مارٹن کرو نے نیوزی لینڈ جیسی اوسط درجے کی ٹیم سے بہترین نتائج حاصل کیے، عمران خان

مارک گریٹ بیج سے اوپننگ اور آف اسپنر دیپک پٹیل سے بالنگ کا آغاز بہت سوچے سمجھے اور جرات مندانہ فیصلے تھے، عمران خان۔ فوٹو: فائل

DUBAI:
1992ء کے ورلڈکپ نے مختلف ٹیموں کے کپتانوں کی قائدانہ صلاحیتوں کے تقابل کا بھی اچھا موقع فراہم کیا اور میرے نزدیک نیوزی لینڈ کے مارٹن کرو سب سے اچھے کپتان ثابت ہوئے۔

مارٹن کرو کی بڑائی اس میں ہے کہ انہوں نے نیوزی لینڈ جیسی اوسط درجے کی ٹیم سے بہترین نتائج حاصل کیے۔ انہوں نے اپنی ٹیم کی طاقت اور کمزوریوں کا جائزہ لے کر اس کے مطابق میچ وننگ کمبی نیشن تشکیل دیا۔ ایڈن پارک کی سست وکٹ کی وجہ سے بھی ان کو بہت مدد ملی۔ ان کے باؤلرز کے لیے یہ وکٹ سازگار تھی۔ انہوں نے کھیل میں کچھ غیر معمولی جدتیں متعارف کرائیں، جن میں سے دو سب سے کارگر ثابت ہوئیں۔ مارک گریٹ بیج سے اوپننگ کرانا اور آف اسپنر دیپک پٹیل سے بالنگ کا آغاز کرانا۔ یہ بہت سوچے سمجھے اور جرات مندانہ فیصلے تھے، جنہوں نے حسب منشا نتائج دئیے۔ میں سمجھتا ہوں، اگر وہ سیمی فائنل میں ہمیں شکست دینے میں کامیاب ہو جاتے، اپنی ٹیم کے مومنٹم کی وجہ سے وہ فائنل میں بھی فتح یاب ہوتے۔ تاہم انہیں آسٹریلیا کی پچوں پر میچ کھیلنا پڑتے تو، مارٹن کرو کی کپتانی کے باوجود، نیوزی لینڈ سیمی فائنل سے پہلے ہی ٹھس ہو جاتی۔ بہرحال کپتان اور بلے باز کی حیثیت سے وہ متاثرکن ثابت ہوئے اور دلیری سے اپنی ٹیم کی قیادت کی۔

ویسٹ انڈیز کے کپتان رچی رچرڈسن کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے ویوین رچرڈز، گورڈون گرینیج اور کورٹنی والش جیسے کھلاڑیوں کی ٹیم میں شمولیت پر اصرار نہ کیا۔ حالانکہ انہیں احساس ہونا چاہیے تھا کہ ورلڈ کپ جیسا ایونٹ ٹیم میں تجربات کے لیے موزوں نہیں ہے۔ نوجوان کھلاڑیوں سے مشکل صورتحال میں اچھی کارکردگی کی توقع رکھنا سادہ لوحی ہے۔ پھر یہ کوئی صلاحیتوں سے مالا مال نوجوان کھلاڑی بھی نہیں تھے، چنانچہ اگر وہ تجربہ کار کھلاڑیوں پر بھروسہ کرتے تو اچھا تھا۔ انہوں نے اس حقیقت کو بھی نظر انداز کیا کہ ماضی میں ویسٹ انڈیز کی کامیابیاں، ان کے خطرناک فاسٹ بالرز کی وجہ سے تھیں۔ دنیا کے تیزترین بالرز میں سے ایک، پیٹرک پیٹرسن کو حیرت انگیز طور پر ٹیم میں شامل نہ کیا گیا۔ حتی کہ میلکم مارشل کو بھی نہ کھلایا گیا۔ رچرڈسن نے ٹیم میں دو اسپنرز کھلائے، جن میں سے ایک بھی غیرمعمولی صلاحیتوں کا حامل نہیں تھا۔

میں سمجھتا ہوں جنوبی افریقہ کے کیپلر ویسلز نے اچھی کپتانی کی، خاص طور پر جبکہ وہ پہلی دفعہ اس سطح پر قیادت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ان کی کپتانی کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ انہوں نے آگے بڑھ کر، اپنی مثال سے ٹیم کی قیادت کی۔ انہیں اس بات کا احساس تھا کہ جمی کک کی عدم موجودگی میں، ان کی اپنی بلے بازی پر ٹیم کا انحصار ہو گا، کیونکہ دوسرے بیٹسمین نا تجربہ کار تھے، اگرچہ پیٹر کیرسٹن نے بھی اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا۔


مجھے محمد اظہرالدین کے ساتھ ہمدردی ہے، کیونکہ میں نہیں سمجھتا کہ وہ مکمل طور پر اپنی ٹیم پر کنٹرول رکھتے تھے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ورلڈ کپ سے قبل آسڑیلیا کے خلاف پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں، بھارت کو بری طرح سے شکست ہوئی تھی اور اس میں اظہرالدین کی کارکردگی اچھی نہ تھی۔ جب کسی ٹیم کی کارکردگی بری ہو، تو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ کپتان اپنی کارکردگی سے ٹیم کا حوصلہ بڑھائے۔ اچھے وقتوں میں تو کوئی ٹیم کپتان کے بغیر بھی کھیل سکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ بھارتی ٹیم ایک ہو کر نہیں کھیلی۔ اگرچہ اظہرالدین نے ورلڈکپ میں شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا، لیکن ان کے کھلاڑی یک جان نہیں تھے۔ وہ ٹیم کا مناسب کمبی نیشن تشکیل دینے کی تگ و دو میں تھے کہ ان کی ٹیم ورلڈ کپ سے باہر ہو گئی۔

میرے نزدیک انگلینڈ کے کپتان گراہم گوچ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کھلے ڈلے، صاف گو شخص ہیں، اور اپنی مثال سے ٹیم کی قیادت کرتے ہیں۔ ساتھی کھلاڑی ان کو گراؤنڈ میں جان مارتے ہوئے آسانی سے دیکھ سکتے ہیں، اس لیے مشکل صورتحال میں وہ بھی اپنے کپتان کے نقش قدم پر چلنے لگتے ہیں۔ ورلڈکپ کے میچوں میں انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ ان کی ٹیم کو اچھا اسٹارٹ ملے، اور انہوں نے کچھ بہت ذمہ درانہ اننگز کھیلیں۔ مگر ان کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ پر بھروسہ نہیں کرتے۔ وہ اپنی ٹیم کی طاقت کو بھرپور طریقے سے استعمال نہیں کرتے، جو ٹیم کے مورال کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ ورلڈکپ فائنل میں جب ہم ٹاس کے لیے گئے تو مجھے وہ پریشر میں دکھائی دئیے۔ ان کی دوسری خامی یہ ہے کہ وہ ٹیم کے ہر فرد کو ایک جیسا سمجھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کرکٹ میں، کپتان کو اپنے تمام کھلاڑیوں کو انفرادی طور پر جانچ کر ان سے بہترین نتائج حاصل کرنے چاہیں۔

ایلن بارڈر ایک منکسرالمزاج آدمی ہیں، جو ٹیم کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ساتھی کھلاڑی ان کو پسند کرتے ہیں۔ وہ آسٹریلیا کے بہت بڑے ہیرو بھی ہیں، جنہوں نے ایک نا تجربہ کار ٹیم کو دنیا کی بہترین ٹیموں میں سے ایک بنا دیا۔ تاہم ورلڈکپ نے ان کی کمزوریوں کو بھی عیاں کر دیا، جن میں سے سب سے بڑی یہ تھی کہ وہ پریشر کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ بہترین ون ڈے کمبی نیشن اور ہوم کنڈیشنز کے باوجود وہ شکست کے خوف سے پریشان ہو کر پریشر میں آ گئے۔ حتی کہ نیوزی لینڈ کے ساتھ پہلے میچ سے قبل ہی انہوں نے اس طرح کے بیان دینا شروع کر دئیے کہ ٹیم پر بہت زیادہ پریشر ہے اور وہ شاید نیوزی لینڈ کو ان کے ہوم گراؤنڈ پر شکست نہ دے سکیں۔ اس طرح سے انہوں نے اپنی ٹیم کا اعتماد برباد کر کے رکھ دیا۔ پہلے میچ میں شکست کے بعد، وہ ہر میچ میں ٹیم کمبی نیشن تبدیل کرتے رہے۔ ان کی اپنی کارکردگی بھی بہت مایوس کن رہی۔

مجھے احساس ہے کہ فائنل کے بعد جذباتی کیفیت میں، میں ٹیم کی شاندار کارکردگی پر ان کا شکریہ ادا نہ کر سکا، لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں انہیں داد و تحسین کا مستحق نہیں سمجھتا تھا۔ میں شروع سے ہی سمجھتا تھا کہ ٹیم اور میں، دونوں ایک ہیں، اور ٹیم کا شکریہ ادا کرنے کا مطلب یہ ہو گا، جیسے اپنا شکریہ ادا کیا جائے۔ دوسرے، مجھے اس بات نے بے پناہ مسرت دی کہ جن کھلاڑیوں کو مختلف حلقوں کی مخالفت کے باوجود میں نے ٹیم میں لیا تھا، وہ اب ورلڈ کلاس کھلاڑی بن چکے تھے۔ تاہم، مجھے ورلڈکپ جیتنے کی سب سے خوشی یہ تھی کہ اب میرا کینسر ہسپتال کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا، جس کی وجہ سے میں ان دنوں کرکٹ کھیل رہا تھا۔ ورلڈکپ میں کامیابی کے ایک مہینے کے اندر اندر ہم نے تقریباً 30 لاکھ ڈالر اکٹھے کر لیے تھے۔ اگرچہ مجھے اندازہ تھا کہ پاکستان میں لوگوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو گا، لیکن مجھے امید نہیں تھی کہ وطن واپسی پر ہمارا اس قدر بھرپور اور شاندار استقبال کیا جائے گا، جہاں ہر طرف مرد و زن اور بچوں کے چہرے مسکراہٹ اور خوشی سے جگمگا رہے تھے۔
Load Next Story