اقتدار میں شراکت

حقیقت سے ہمیں معاملہ سمجھنے میں آسانی کچھ اس طرح سے ہوتی ہے جب سول حکومتیں پرائیویٹ کلب بن جائیں،


جاوید قاضی March 07, 2015
[email protected]

بہت سے زاویے ہیں اس ریاست کے ، اگر آئین کی آنکھ سے دیکھے جائیں۔ یہ ریاست وفاق بھی ہے تو جمہور بھی۔ اکثریت بھی ہے تو اقلیت بھی۔ اس لیے اس میں ایوان عام بھی ہے تو ایوان خاص بھی اور مقامی سطح پر حکومتیں بھی۔

لیکن آئین میں موجود اس توازن کا اس ریاست کے حقیقی اقتدار کی بندربانٹ میں کوئی بھی وجود نہیں۔ سینیٹ جوکہ وفاقی اکائیوں کو برابرکی نمایندگی دیتا ہے، اتنا فعال ادارہ نہیں۔کونسل آف کامن انٹرسٹ جوکہ آئینی ادارہ ہے جس کے اندر واپڈا، ریلوے، ارسا وغیرہ آتے ہیں، اس کا اجلاس ہوتا ہی نہیں۔ اس ادارے میں وفاقی اکائیاں اور وفاق فریق کی حیثیت میں بیٹھتے ہیں۔

ایوان عام کچھ نہ کچھ فعال نظر آتا ہے اور حکومت اسی ادارے کی قرارداد سے بنتی ہے مگر 73 کے آئین کے بعد بیس سال براہ راست آمریت مسلط رہی اور باقی سال بالواسطہ اسٹیبلشمنٹ حاوی رہی اور ' لے آئی آج پھر اس جگہ قسمت گزرے تھے ہم جہاں سے۔' آج کل ملک نیشنل ایکشن پلان کے تحت رواں ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا کہ سندھ میں شاہ صاحب کے رکھے پولیس آفیسر لوگوں میں غیر مقبول ہوتے ہیں،کیونکہ امن و امان قائم رکھنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ حال ہی میں خیرپور سے کچھ افسران کا تبادلہ کر بیٹھے لوگ ایسے فیصلے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے کیونکہ ان آفیسروں نے جرائم میں کمی کرکے دکھائی اور جب کچھ ڈھکی چھپی ہوئی طاقتوں نے مداخلت کرکے شاہ صاحب کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کیا اور وہی پولیس افسران جب واپس اپنی ڈیوٹی پر آئے تو ہزاروں لوگوں نے ان کا سڑکوں پر استقبال کیا۔

ایک طرف دن بہ دن سول حکومت سکڑتی جا رہی ہے اور دوسری طرف یہ سول حکومت لوگوں سے جیسے تعلق ہی نہیں رکھتی اور ان کا کوئی بھی ایسا ادارہ سرے سے ہے ہی نہیں کہ لوگوں کو اچھی حکمرانی دینی ہے۔ اس وجہ سے اب لوگ سڑکوں پر آکر زرداری صاحب یا میاں صاحب کی سکڑتی ہوئی سول حکومت کی رٹ بحال کروانے کو تیار ہی نہیں۔

حقیقت سے ہمیں معاملہ سمجھنے میں آسانی کچھ اس طرح سے ہوتی ہے جب سول حکومتیں پرائیویٹ کلب بن جائیں، لوگوں کی فلاح و بہبود کے پیسے لوٹنا شروع کریں، کرائم بڑھ جائے، بھتہ خوری روایت بن جائے، تعلیم، صحت جیسی بنیادی چیزیں بھی عام لوگوں کو نہ مل سکیں، میونسپل اداروں میں عوامی نمایندے نہ ہوں اور افسران اس علاقے کے صوبائی یا قومی اسمبلی کے ممبر سے مل کر بجٹ ہڑپ کرنا شروع کردیں، سرکاری زمینوں کو ہاؤسنگ اسکیم کے نام پر کوڑیوں کے نام بیچ کر اپنے من پسند لوگوں کو دی جائیں تو پھر لوگ حکومت سے مایوس ہوتے اور اس کے کسی مسئلے سے لاتعلق ہوتے چلے جاتے ہیں۔

بعض وجوہات کی بنا پر زرداری و میاں صاحب اکیسویں ترمیم کر بیٹھے۔ اور اب اس سے آگے جا کے وہی کام کرنے جا رہے ہیں جو کام آمریتوں کے ساتھ جڑی ہوئی سیاسی پارٹیوں کا تھا۔ کل تک تو یہ اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرتے تھے جنرل مشرف کا ٹرائل چلا بیٹھے، وزیر خارجہ کا قلم دان بھی اپنے ساتھ رکھ بیٹھے، لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے۔اقتدار پر اپنی رٹ مضبوط انداز میں تب ہی پیدا کی جاسکتی ہے جب عوام کو جمہوریت آنے کا ثمر ملے۔ اس بار تو سول حکومت نے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔

دوسری طرف سپریم کورٹ صحیح طرح اس مسئلے کو سمجھ چکی ہے کہ کیا وجہ ہے یہ سول حکومت خود آئین سے انحراف کرکے بیٹھی ہے کہ جیسے بلدیاتی انتخابات کروانا کوئی بھی جیسے جمہوری اقدار والا کام نہ ہو اور اگر یہ ایسا عمل کرنے کے بالکل خلاف ہیں تو کیا ایسی قیادت کو یا دور کو سول قیادت یا سول دور کہا جاسکتا ہے؟ پاکستان کی تاریخ میں جمہوری دور بلدیاتی انتخابات سے ٹکراؤ میں رہا ہے اور کبھی بھی ایسے اداروں کی ہمت افزائی نہیں کی۔ دوسری طرف آمریتوں نے ایسے اداروں کو فروغ دیا اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ تاثر دیا جاسکے کہ عوام کو اقتدار میں شراکت ہے۔

حال ہی میں دہلی کے اندر جو کیجری وال کے حوالے سے باد صبا آئی وہ دراصل ہمارے بلدیاتی انتخابات سے مماثلت رکھتا ہوا نظام ہے کیونکہ دلی کوئی ہندوستان کی یونین یا فیڈریشن میں آئینی اکائی یا ریاست نہیں۔ کیجری وال بنے تو وزیر اعلیٰ ہیں لیکن ان کا مقام میئر سے بڑا نہیں ہے اور کیونکہ دلی ہندوستان کا دل ہے اس لیے اتنی بڑی تبدیلی پورے ہندوستان تو برصغیر پر اپنا اثر چھوڑ گئی۔

ضیا الحق کے زمانے میں کراچی کے میئرکے روپ میں ڈاکٹر فاروق ستار ابھر کر آئے تھے اور کراچی نے پورے پاکستان کو اس وقت حیران کردیا تھا کہ ایک مڈل کلاس کا آدمی کراچی کا میئر بن سکتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اب متحدہ کو نئے سلگتے حقائق کا سامنا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں سپریم کورٹ بلدیاتی انتخاب والے آئینی تقاضے پورے کرانے پر بضد ہے۔

جس پر نوازشریف اور زرداری سنجیدہ نہیں ، جب کہ عمران خان ایسے انتخابات کے ذریعے اپنی وسعتوں کو اور پھیلا سکتے ہیں اور اس طرح متحدہ بھی ایک بڑے چیلنج سے گزرے گی۔پیپلز پارٹی بڑی ہوشیاری سے سندھیوں پر یہ تاثر رکھنے میں کامیاب ہو گئی کہ جیسے بلدیاتی اداروں سے سندھ کی تقسیم ہوجائے گی اور متحدہ بھی بہت کچھ اقتدار نچلی سطح کے حوالے کرنے کے چکر میں معاملے کو الجھائے رکھنے میں کامیاب ہو گئی۔ لیکن بعض طاقتور قوتیں خود یہ سمجھتی ہیں کہ اگر جمہوریت اس ملک کے لیے ضروری ہے تو مکمل جمہوریت ہو نہ کہ یہ جمہوریت جس میں سول قیادت صرف پیسہ بٹورنے کا کام کرتی ہے۔

ہمارے سندھی قوم پرستوں کو اپنے فہم سے وہ بیماری لگ گئی ہے کہ جس سے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا پاکستان کے کسی بھی انتخابات میں حصہ لینا غلط ہے یہ اور بات ہے کہ کچھ اس عمل سے پیچھے ہیں اور کچھ بغض میں آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہیں کہ جب انتخابات جیت سکتے نہیں تو کھڑے ہونے کی کیا ضرورت ہے اور اس طرح سندھی قوم پرست عوام سے کٹ گئے۔

وہ لوگوں سے مستقل تعلق نہ رکھ سکے اور سندھ کی مخصوص سیکولر بیانیے Narrative کا سہارا لے کر اپنے آپ کو اخباروں کے بیانوں تک یا چھوٹے موٹے احتجاج رقم کرنے تک محدود رکھتے ہوئے اپنا جوں توں کا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئے۔لیکن اس وقت بلدیاتی انتخابات پاکستان کی تاریخ میں بہت کچھ انقلابی انداز میں لیتے ہوئے آگے آرہے ہیں وہ موجودہ سول قیادت کو بے معنی کرنے جا رہے ہیں کیونکہ وہ لوگوں کے مسائل حل کرنے میں قائم علی شاہ کو کوسوں دور چھوڑ دیں گے۔

اس بات پر دو رائے نہیں ہیں کہ بری حکمرانی کی بھی ایک وجہ ہے مذہبی انتہا پرستی۔ لوگ غربت کے مارے اپنے بچے مدرسوں میں چھوڑآتے ہیں۔ نچلی سطح پر اقتدار کی شراکت ایسے غریب لوگوں کے پاس سول قیادت یا یوں کہیے کہ یونین کونسل کا ان کے ووٹوں پر جیتا ہوا کونسلر آسانی سے لا کر کھڑا کر لے گی۔

اقتدار میں عام لوگوں کی شراکت بلدیاتی انتخابات کے ذریعے ہوسکتی ہے اور ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ایسے اداروں کے تعلیم، صحت، پولیس بھی حوالے ہو، جن کا تعلق براہ راست عوام سے ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں