ڈالر کے غلام ملکوں کے عوام آخری حصہ
تجارت کا خسارہ پیدا کرکے امریکا نے اس خسارے کے گیپ کو پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرضے دینے شروع کردیے
ستمبر 1949 کو آئی ایم ایف نے Rupiah کی قیمت میں 345 فیصد کمی کردی۔ اس کمی کے نتیجے میں مقامی ایکسپورٹرز نے بیرونی منڈی مقابلے میں کم سے کم ڈالر ریٹ پر مقامی اشیا فروخت کردیں۔ مالی سال 1950 میں ایکسپورٹرز نے 1365.0 ملین Rupiah سرپلس حاصل کرلیے تھے۔
اور تجارت کو مصنوعی طریقے سے سرپلس کرکے ایکسپورٹرز نے فی ڈالر پر Rupiah 9.17 کا ڈالر نفع مقامی ڈالر ٹریڈنگ ذرایع سے حاصل کرلیے تھے اور CDMED کے منفی اثرات ملک کی تمام معیشت پر نمایاں ہوگئے۔
(1) دوسرے سال بیرونی منڈی سے امپورٹرز نے جو اشیا خریدیں ان کو ان اشیا پر 345 فیصد مقامی کرنسی زیادہ ادا کرنی پڑی۔ حکومتی بجٹ اور صنعتی کلچر کی لاگتیں بڑھنے سے صنعتی کلچر پیچھے چلا گیا۔ (2) جوں جوں مقامی کرنسیوں پر CDMED لگتا گیا توں توں ان ملکوں میں مہنگائی بے روزگاری، ادارے خسارے میں چلے گئے۔
(3) لاگتیں بڑھنے سے مقامی تیار اشیا اپنے ہی ملکوں میں مہنگی ہوتی گئیں اور ان کے مقابلے میں بیرونی ملکوں کی وہی اشیا سستی ہوتی گئیں۔ اس طرح سڈمڈ CDMED کے نتیجے میں اس کی زد میں آئے ہوئے ملکوں کی تجارتیں خساروں میں چلی گئیں۔ کینیا کی کرنسی شلنگ 1948 میں 4.9628 شلنگ کا ایک ڈالر تھا۔
1949 میں 7.1429 شلنگ کا ڈالر کردیا گیا۔ متذکرہ کتاب کے صفحے 317 پر کینیا کے تجارتی اعداد و شمار کے مطابق 1948 میں کینیا کی تجارت 12.57 ملین شلنگ سے خسارے میں تھی، 1949 میں 13.05 ملین شلنگ سے خسارے میں تھی، سڈمڈ 44 فیصد لگنے کے بعد ایکسپورٹرز نے بیرونی منڈی میں کم سے کم ڈالر ریٹ پر زیادہ اشیا فروخت کیں اور 1950 میں تجارت کو مصنوعی طریقے CDMED سے 1.17 ملین شلنگ سے سرپلس کرلیا تھا۔
CDMED کے شکار پاکستان کے اعداد و شمار کو تمام ان ملکوں کی پوری معیشت میں دیکھا جاسکتا ہے جو 2015 میں بھی مسلسل CDMED کا شکار ہو رہے ہیں۔ پاکستانی روپے کی قیمت میں کمی جولائی 1955 میں 43 فیصد کردی گئی۔ اس کے نتیجے میں مالی سال 1956-57 کا بجٹ 24.886 ملین روپے سے خسارے میں چلا گیا۔ پاکستانی تجارت 1955-56 میں سڈمڈ لگنے سے 458.6 ملین روپے سے سرپلس ہوگئی اور مالی سال 1956-57 میں 727.0 ملین روپے سے خسارے میں چلی گئی۔
پھر 1972 میں سڈمڈ لگنے سے (4.762 روپے سے 11.031 روپے کا ڈالر کردیا گیا) روپے کی قیمت میں کمی 132 فیصد کردی گئی۔ 1972-73 میں تجارت مصنوعی طور پر سڈمڈ لگنے سے 153.0 ملین روپے سے سرپلس کرلی گئی۔ 1973-74 کو منفی ردعمل میں تجارتی خسارہ 3318.0 ملین روپے ہوگیا۔ اس طرح 1949 سے فروری 2015 تک 3.308 روپے سے 101.79 روپے کا ڈالر کردیا گیا۔ روپے کی قیمت میں کمی 2977 فیصد کردی۔ اسی نسبت سے پاکستان کی تمام معیشت کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔
تجارت کا خسارہ پیدا کرکے امریکا نے اس خسارے کے گیپ کو پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرضے دینے شروع کردیے اور 1991 سے باقاعدہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی قرضے شرائط کے ساتھ دینے شروع کردیے۔ بجٹ خسارہ سڈمڈ کا نتیجہ تھا۔ لیکن امریکا نے حکم دیا کہ حکومتی سرپرستی میں چلنے والے نفع بخش اداروں کی نجکاری کی جائے۔ اداروں سے ملازمین نکالے جائیں، بجٹ خسارے اس سے پورے کیے جائیں۔
1991 سے حکمرانوں نے ایسا ہی کرنا شروع کردیا۔ 2012-13 تک سامراجی قرضہ 88 ارب 95 کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ اس میں سے بروقت 59 ارب 26 کروڑ 60 لاکھ ڈالر سود و اصل زر کی مد میں کاٹ لیے گئے۔
پاکستانی اشرافیہ نے 29 ارب 68 کروڑ 40 لاکھ ڈالر بروقت اس مدت کے دوران ہر سال وصول کیے اور عوام پر قرض ادائیگی کا بوجھ 50 ارب 20 کروڑ 90 لاکھ ڈالر موجود رہا تھا۔ یہی نہیں ملکی بینکوں سے اشرافیائی حکومت ہر سال کھربوں روپے عوام کے نام پر لیتی آرہی ہے اور ادائیگی کا بوجھ عوام پر بجٹ میں ڈال دیتی ہیں۔ مارچ 2014 تک ملکی قرضہ عوام کی قوت خرید پر 108 کھرب 23 ارب تک بڑھا دیا گیا۔ ملکی اور غیر ملکی دونوں کا مجموعی قرضے کا بوجھ 155 کھرب 34 ارب روپے تھا۔
امریکا نے برطانوی سامراج کی جگہ تو بنالی لیکن یہ حقیقت ہے کہ امریکا نے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے پلیٹ فارم سے پسماندہ ملکوں کو امریکی معاشی غلام بنا لیا ہے۔ پاکستانی معیشت میں سڈمڈ کے ذریعے ڈالر کی قیمت 2977 فیصد زیادہ کرکے پاکستان پر غیر علانیہ امریکی ڈالر ٹیکس پوری ملکی معیشت پر لگا ہوا ہے۔
پاکستان صنعتی کلچر کو تباہ کرکے سامراجی امریکا نے سامراجی درآمدات Imports کو بڑھایا اور ساتھ ہی معاشی غلام ملکوں کی معیشت میں امریکا اور یورپی ملکوں نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے عوام کی قوت خرید کو لوٹنے کا سلسلہ قائم کرکے معاشی غلام ملکوں کی اشرافیہ کو ڈالرائز کرکے ان کے ذریعے وہ مظالم کیے جا رہے ہیں جو شیطان بھی نہیں سوچ سکتا ہے۔ جس جس ملک کی معیشت پر امریکی غیر علانیہ ٹیکس لگا ہوا ہے۔
وہ ملک امریکا کا غیر علانیہ باجگزار ملک بنا ہوا ہے، ایسے تمام معاشی غلامی ممالک کی شکل کے لیے یہ کہا جائے کہ CDMED is inversely proportional to the Development of the Monetary Slave Countries اس کی بنیادی وجہ ہے کہ ایسے ممالک بیرونی ملکوں سے اپنی کرنسی میں براہ راست تجارت، لین دین نہیں کرسکتے ہیں اور اچھوت ملکوں کے حکمران ''اشرافیائی جمہوری کلچر'' کے ذریعے عوام کے تمام حقوق چھین لیتے ہیں، جس سے حکمران اور اشرافیائی طبقہ دن بہ دن مالدار ہوتا جاتا ہے اور عوام قلت زر کا شکار ہوتے جاتے ہیں۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے پورے کرہ ارض کے اربوں انسانوں کو جمہوریت کے جال اور مالیاتی جال میں جکڑا ہوا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور غیر ملکی درآمدات کے ذریعے عوام کا سرمایہ بیرونی ملکوں کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ ان ملکوں پر قابض حکمران سامراجی ایجنٹ ہیں جو جمہوریت کے ذریعے دھوکے دے کر عوام کو جمہوری قیدی بنا کر اشرافیائی آئین اور قانون تلے دبا کر عوام کی قوت خرید کو ٹیکسوں کی شکل میں لوٹ رہے ہیں۔
اس کے ساتھ عوام کا سرمایہ بیرونی ملکوں میں ڈالروں کی شکل میں اپنے اپنے کھاتوں میں منتقل کر رہے ہیں۔ سامراجی حکم پر بے ضمیر حکمران اپنے ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی کرتے ہیں۔ بجٹ، تجارت خسارے میں لے جانے کے بعد غیر ملکی قرض لے کر عیاشیاں کر رہے ہیں۔
کتاب International Debt Statistics 2014, by the World Bank کے صفحے 35 پر ان 128 ملکوں پر سامراجی قرضے کی تفصیل دی گئی ہے، مالی سال 2012 تک 128 ملکوں نے 17 کھرب 77 ارب 33 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کا نقد قرضہ وصول کیا تھا۔ ان ملکوں پر اس قرضے کے عوض 48 کھرب 29 ارب 60 کروڑ 80 لاکھ ڈالر قرض ادائیگی کا بوجھ باقی موجود تھا۔ یعنی وصول کی گئی رقم پر 72 فیصد زیادہ ادائیگی کا بوجھ موجود تھا۔
ان معاشی غلام ملکوں کے اقتدار پر قابض اشرافیہ درحقیقت سامراج کی نمایندہ ہے۔ اشرافیہ کے ہوتے ہوئے تمام معاشی غلام ملکوں کے عوام کبھی بھی خوشحال نہیں ہوسکیں گے۔ نت نئے بھیس بدل کر عوام کی خواہشات، اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے نام پر جمہوری قیدی بنا کر عوام کو معاشی غلامی میں جکڑتے رہیں گے۔ عوام کو آخرکار آج یا کل یا پھر بعد میں ان ''معاشی غلامی'' کی زنجیروں کو توڑنا اور کاٹنا ہوگا۔ کیونکہ معاشی آزادی کے بغیر کسی بھی ملک کے عوام ترقی نہیں کرسکیں گے۔