دوا کی دعا

ادھر بھی جو دہشت گردی کی نذر ہوئے وہ بے قصور ہی تھے۔


[email protected]

کسی نے پوچھا''سندھ کہاں جارہا ہے؟'' میں نے کہا جہاں حکومت سندھ ، سوال دہراکرکیا گیا۔ ''کیا سندھ حکومت جارہی ہے؟'' میں نے کہا میرا مطلب حکومت کے رخ سے تھا انجام سے نہیں، لیکن یہ چند روز جو ابھی گزرے ہیں۔

ان کا نچوڑکیا ہے؟ یعنی معاملہ تو درپیش ہے۔ وزیراعظم، چیف آف آرمی اسٹاف،آئی ایس آئی چیف،کورکمانڈرکراچی، آصف علی زرداری، وزیراعلیٰ سندھ، سبھی نے چند روز قبل سندھ کے بالخصوص کراچی کے معاملات پر ایک اہم میٹنگ کا انعقاد کیا۔ خرابیٔ حالات کی وجوہات پر غوروخوض کیا اور ایکشن لیتے ہوئے تین ایپکس کمیٹیاں تشکیل دیں۔

جن کے سربراہان کے طورپر سینئر آرمی آفیسرزکو متعین کیا گیا۔ دہشت گردی، بھتہ مافیا، ٹارگٹ کلنگ، جلاؤگھیراؤ کے مکمل خاتمے تک ہرطرح کا ایکشن لینے کا اعلان کیا گیا، لیکن حاصل معاملہ کیا رہا؟ دوران اجلاس حکومت سندھ کی مایوس کن کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے ایک طرح سے حالات کی خرابی کا ذمے دار سندھ حکومت سمیت کچھ جماعتوں کو قرار دیا گیا ۔

اب لگتا ہے کہ شایدکچھ بہتر ہوجائے کیوں کہ اگر آپ نے Wild Life کی Movies میں شیروں کے غول کو شکارکرتے یا جنگل میں سفر کرتے دیکھا ہے اور باقی جانوروں سے ان کے حسن سلوک کا مشاہدہ کیا ہے تو آپ جانتے ہوں گے کہ میں سندھ اورکراچی کے حالات میں بہتری کی بات کیوں کررہا ہوں۔ ذکر اس جماعت کا نہیں جس کا انتخابی نشان ''شیر'' ہے یا جس نے شیر کی کھال اوڑھی ہوئی ہے۔

تذکرہ تو اسی شیر کا ہے جو جنگل کا بادشاہ کہلاتا ہے۔ لہٰذا دوران اجلاس جس ادب و احترام اور نظم و نسق کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا۔ میں یہ نہیں کہوںگا کہ میرے مطابق یا میری معلومات کے مطابق بلکہ زبان زد عام ہے۔ ایسا چرچا جوگلی گلی پھیلا ہوا ہے کہ سندھ آدھا تو نیلام ہوچکا۔ جیلیں تک یہ کہہ کر فروخت کی جارہی ہیں کہ انھیں اب شہر سے باہر منتقل ہونا چاہیے۔ اسپتالوں میں عمارات اور کمرے باقی رہ گئے ارد گردکی زمین بیچ دی گئی۔

جنگلات صاف کردیے گئے۔ اب وہاں کسی کے نام کی فصلیں لہلہارہی ہیں یا شوگر ملز قائم ہوچکیں۔اسی طرح ہر محکمے کی ساتھ ہوا۔ اربوں،کھربوں کی سرکاری املاک ہڑپ لی گئیں اور سفر ہے کہ ابھی رکا نہیں بلکہ دن بدن تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ کچھ صاحب فہم یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ اگر جمہوریت کی حفاظت کا سلسلہ اسی قیمت پر جاری رہا تو وہ ملک باقی نہیں رہے گا جہاں جمہوریت درکار ہے، ممکن ہے ان کا خیال ایک حد تک درست بھی ہو۔

لیکن کسی بھی قیمت پر ہم نظام کے تسلسل کی حمایت ہی کرسکتے ہیں۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ڈاکٹر سنار اور سنارکو طب کے فرائض انجام دینے چاہئیں۔ فطرت سے اغماز نہیں برتا جاسکتا۔ ورنہ نتیجہ غلط نکلا تھا غلط نکلے گا۔البتہ اگرکسی کے پاس چھڑی ہے اور اس میں دم بھی ہے تو اسے انصاف کروانا چاہیے۔ اب وہ عدلیہ ہو یا پاک فوج۔ کیوں کہ ملک میں ابھی جمہوریت کی ابتدا ہے۔

لہٰذا سیاسی جماعتوں کا منشور ضرور جمہوری ہے سیاسی رہنما نہیں۔ اسی طرح عوام کا مزاج بھی بن رہا ہے۔ مکمل طور پر وہ بھی جمہوری نہیں۔ چنانچہ چھڑی کو فی الحال حکومت میں رکھنا پڑے گا۔ سبھی کے لیے اور آپ یہ ایک اچھا کام کرسکتے ہیں۔ اگر ماضی کی غلطی کا ازالہ کرنا مقصود ہو اور ملک سے خیر خواہی تو کچھ کام بادشاہ کی کرسی پر بیٹھے بغیر بھی کیے جاسکتے ہیں۔ جب کہ حقیقی بادشاہ بھی خود آپ ہوں تو اصلاح معاشرہ مشکل نہیں۔

دوسری طرف وہی کچھ ہورہاہے جس کا اندیشہ آپریشن ''ضرب عضب'' سے پہلے کیا جارہا تھا۔ میں اپنے چند مضامین میں اس رائے کا اظہارکرچکا ہوں۔ آج پھر اعادہ کرتا ہوں کہ ملک کے 20 کروڑ عوام اور لا تعداد عوامی مقامات کی حفاظت تقریباً ناممکن ہے۔ جب کہ سازش میں اگر پڑوسی ممالک بھی شامل ہوں تو یہ اور بھی مشکل ہے ۔ اس کا حل ان تمام علاقوں پر مسلتاہم سل اور لگاتار حملے ہیں جہاں قصور وار رہتے ہوں یا بے قصور۔

ادھر بھی جو دہشت گردی کی نذر ہوئے وہ بے قصور ہی تھے۔ تب ادھر کیوں اس بات کا خیال رکھا جائے؟ انھیں بتانا ہوگا کہ 100 کے مقابلے میں 1000 ہوںگے۔ امن قائم ہوجائے گا۔ بہت جلد، مستقل اور پائیدار امن۔ ورنہ جنگ کا رکنا، دہشت گردوں کا قابو میں آنا اور اغیار کی سازشوں کا سدباب ممکن نظر نہیں آتے۔ آپ خواہ نہ مانیں لیکن کینسر کی ابتدا نہیں بلکہ انتہا درجے پر وہ پورے جسم میں پھیل چکا ہے۔ اﷲ ہماری ملک کی حفاظت فرمائے ۔آمین۔

ضرورت ایک ایسے Operation کی ہے جو اپنے انداز میں سابقہ سے مختلف ہو۔

آیئے چند ایک جملوں میں آسٹریلیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ اور غنڈوں میں پھنسی رضیہ یعنی اپنی ٹیم کی کچھ کامیابیوں بات بھی کرلیتے ہیں۔ عزیزان گرامی! مجھے اعتراف ہے کہ ٹیم کی کارکردگی ابتدا میں نہایت مایوس کن رہی ہے۔ مگر اب تو دو میچز جیت چکی ہے، لیکن بحیثیت قوم ہمارا طرز عمل بھی فطری نہیں۔

آپ ذرا یاد کیجیے ابھی ماضی قریب کے واقعات۔ جو کھلاڑی ملک کے لیے کھیلنے پر لاکھوں روپے ماہانہ کماتا ہے شہرت کی بلندیوں کو چھولیتا ہے کسی میچ میں اس کی چند ایک عمدہ Shots پر ہم بوم بوم کہہ کر جھوم جھوم جاتے ہیں۔ اک ذرا نہیں سوچتے کہ اچھا کھیلنا اس کی ذمے داری بھی تھی سارا ملک سر پر اٹھالیتے ہیں۔ اس کی تعریف و توصیف میں۔ گانے بنتے ہیں۔ اشعار کہے جاتے ہیں۔ اس پر وہ کھلاڑی بیٹسمین ہو یا بولر یہ سمجھنے لگتا ہے کہ جیسے اس نے ملک اور قوم پر کوئی احسان کیا ہے حالانکہ آپ جانتے ہیں ہماری ٹیم میں کچھ کھلاڑی برسوں سے نہیں کھیل پارہے۔

کبھی کبھی وہ کسی پرانی فلم کے آخری تین یادگار شو کی طرح Form میں آجاتے ہیں اور قوم خوشی سے پاگل ہوجاتی ہے۔ میں یہ کہہ کر موجودہ ٹیم مینجرزکو بری الذمہ نہیں کر رہا۔ بلا شبہ وہ ذمے دار ہیں کہ وہ Merit پر ٹیم تشکیل نہیں دے سکے۔ بلکہ چڑیا اڑانے، عاقب بٹھانے میں مصروف رہے۔ لیکن ہمیں بھی اپنے طرز عمل کی اصلاح کرنی ہوگی ہر قیمت پر۔ یہ کرکٹ کا میدان ہے، کھیل ہی، ایسے Ziczag رد عمل سے ہم اپنی ٹیم کے لیے مشکل پیدا کررہے ہیں۔ کھلاڑیوں کا احتساب ہونا چاہیے۔ لیکن بہترین احتساب ہمارے رویے پر مبنی ہے، ہم اپنی اصلاح کرلیں تبھی ان کی اچھی سی اصلاح کرسکیں گے۔ عمدہ کھیلنے پر تعریف ہونی چاہیے لیکن اس قدر تعریف ... الامان۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔