بات کا بتنگڑ
شرم و حیا کا جنازہ سرعام نکالا جارہا ہے لیکن کہتے ہیں اور درست ہی کہتے ہیں کہ شرع میں کیا شرم؟
یہ خبر ہمارے لیے اس وقت قابلِ توجہ بن گئی، جب ہماری نگاہ ان سطور پر گئی۔
سرخی کچھ اس طرح ہے کہ خواتین کے خلاف ریمارکس پر بھارتی وزیرِ کوئلہ کی شامت آگئی، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ وزیر کوئلہ سری پرکاش جیسوال کی طرف سے شاعری کی ایک تقریب میں ان کے خواتین کے بارے میں اس ریمارکس پر کہ ''پرانی فتح کی طرح بیویاں بھی پرانی ہوجائیں تو اپنی کشش کھو بیٹھتی ہیں'' ان کے اس فقرے کو ٹی وی چینلز نے بار بار نشر کیا اور اپوزیشن، بی جے پی اور خواتین کی تنظیموں نے ان سے ان کی اس جرأت و بے باکی پر معافی کا مطالبہ کردیا ہے۔ نیشنل کمیشن فار ویمن کی چیئرپرسن ممتا شرما نے کہا ہے کہ وہ وزیر کے خلاف وزیراعظم کو خط لکھیں گی۔
اس پر وزیر کوئلہ نے کہا کہ انھوں نے یہ الفاظ ازراہِ مذاق کہہ دیے تھے، ان کا مقصد خواتین کی توہین کرنا نہیں تھا، خواتین نے بات ادھر ہی ختم نہیں کی بلکہ ٹویٹر پر بھی ان کے اس ریمارکس کے بارے میں تبصرے شروع ہوگئے۔خبر کو پڑھ کر افسوس ہوا کہ خواتین نے بات کا بتنگڑ بنا لیا ورنہ تو ہماری قدیم و جدید شعر و سخن کی تاریخ مزاح اور مزاحیہ شاعری سے بھری ہوئی ہے۔ بہت دور کیوں جائیں، غالب کو ہی لے لیجیے، انھوں نے دنیا میں بسنے والی خواتین کے بارے میں نہیں کہا بلکہ براہِ راست ان کا ذہن حوروں کے دیس یعنی جنّت کے اندرونی حسین و جمیل خطوں تک پہنچ گیا۔ فرماتے ہیں کہ:
ایسی جنّت کا کیا کرے کوئی
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہیں
حالی نے مرزا غالب کی ظرافت کے بارے میں اس طرح تبصرہ کیا ہے کہ جو کچھ مرزا کی زبان سے نکلتا تھا وہ لطف سے خالی نہ ہوتا تھا۔ ظرافت مزاج میں اس قدر تھی کہ اگر ان کو حیوانِ ناطق کے بجائے حیوانِ ظریف کہہ دیا جائے تو بجا ہے، رشید احمد صدیقی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اردو شاعری میں غالب طنز و ظرافت کے اصل بانی ہیں۔ غالب کا ایک شعر اور یاد آگیا ہے۔
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
وزیرِ کوئلہ کا یہ فقرہ جو خالص مزاح کے رنگ میں رنگا ہوا ہے، اسے اس قدر سنجیدگی سے لینے کی ضرورت پیش نہیں آنی چاہیے۔ مردوں کو تو ویسے بھی بے وفا کہا جاتا ہے اور ایک موقع پر تو ان کی بے وفائی کھل کر سامنے آجاتی ہے، وہ ہے موقع موت کا۔ ادھر بیوی نے دنیا کو خیرباد کہا، ابھی اس کا کفن بھی میلا نہ ہوا کہ شوہر نے ''نوشے'' کا روپ دھارنا شروع کردیا۔بے چاری کا چالیسواں یا دسواں بھی نہ ہوسکا کہ بیاہ لائے ایک نئی خوبرو بیوی۔ اب اس کے ناز نخرے ہیں اور وہ ہیں، گھر سے ابھی کافور کی خوشبو بھی ختم نہ ہوئی کہ عطر اور حنا کی خوشبوئوں نے پورے گھر کو مہکا دیا۔
اب ان حالات میں کس کم بخت کو وہ مرحومہ یاد آئے گی جس نے ان کے ساتھ زندگی کے پورے تیس یا چالیس سال بسر کیے ہیں۔ ہر دکھ درد میں میاں کا ساتھ دیتی رہی اور تنگی و ترشی کے ساتھ جیون کے دن بسر کیے۔ لب پر حرفِ مدعا نہیں لائی ہے، کوئی گلہ نہیں، بس اپنی ہستی کو مٹا ڈالا ہے۔
شعراء کرام نے اپنی بیویوں کے بارے میں کیا کیا گل افشانی کی ہے، مزاح کے انداز میں دل کی بات کہہ گئے ہیں۔ اسے ہم جگ بیتی بھی کہہ سکتے ہیں اور آپ بیتی بھی۔ ہمارے محترم شاعر انور مسعود نے مزاح کی پھلجڑیاں اس انداز میں چھوڑی ہیں کہ:
اپنی زوجہ سے کہا ایک مولوی نے نیک بخت
تری تربت پر لکھیے تحریر کس مفہوم کی
اہلیہ بولی عبارت سب سے بہتر ہے یہی
دفن ہے بیوہ یہاں پر مولوی مرحوم کی
فی زمانہ حالات ہر لحاظ سے تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ شرم و حیا کا جنازہ سرعام نکالا جارہا ہے لیکن کہتے ہیں اور درست ہی کہتے ہیں کہ شرع میں کیا شرم؟ آج کل شادی شدہ مرد و خواتین کے معاشقے بذریعہ چینل منظرعام پر جلوہ فگن ہوتے ہیں۔ دونوں شادی شدہ ہیں، بچّوں والے ہیں لیکن دل کے ہاتھوں مجبور، ان میں سے اکثر شادی کے بندھن میں بھی بندھ جاتے ہیں جو کہ اچھی ہی بات ہے اور جو اچھی بات نہیں کرتے ہیں، ان کے لیے شاعر نے یہ اشعار تخلیق کیے ہیں۔
لوگ تو رہتے ہیں ہر لمحہ ٹوہ میں ایسی باتوں کی
پیار محبت کے ہیں دشمن دل کے ایسے کالے ہیں
دیکھیے کچھ محتاط ہی رہیے اس جاسوس زمانے سے
میں بھی بچّوں والی ہوں اور آپ بھی بچّوں والے ہیں
(انور مسعود)
بعض اوقات مرد ایک ہی شادی پر اکتفا نہیں کرتے ہیں بلکہ دو دو شادیاں چند روز کے وقفے سے رچالیتے ہیں۔ نتیجے میں کبھی دونوں بیویاں آپس میں گتھم گتھا ہوجاتی ہیں تو کبھی بے چارہ مرد دونوں کے درمیان سینڈوچ بن جاتا ہے اور دونوں مل کر اس کے سر پر اتنے جوتے مارتی ہیں کہ دن میں تارے نظر آجاتے ہیں، ان صاحب کی بھی دو بیویاں ہیں اور صورتِ حال کچھ اس طرح ہے۔
میری دونوں بیویوں کا اس طرح ملنا ہوا
دیکھتے ہی دیکھتے دست و گریباں ہوگئیں
ہم تو یو این او کی صورت دیکھتے ہی رہ گئے
ہوگیا مشکل چھڑانا، زلفِ پیچاں ہوگئیں
شیخ جہاں تیل کی دولت سے مالا مال ہیں وہاں بیویوں کے معاملے میں بھی خود کفیل ہیں۔ خودکفیل کا لفظ ہم نے اس لیے استعمال کیا ہے کہ عربی خواتین صورت و سیرت میں لاثانی اور حسن و جمال کا شاہکار نظر آتی ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار رکھتی ہیں کہ اس کا خاوند کسی بھی وقت کسی بھی حسینہ پر دل پھینک سکتا ہے۔ چونکہ روپے پیسے کی ریل پہل ہے، سب کی کفالت بخوبی کرسکتا ہے، لہٰذا درجن یا اس سے زیادہ شادیاں کرنے کے نتیجے میں بچّوں کی ایک فوج ظفر موج بہت جلد تیار ہوجاتی ہے، یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ امتِ مسلمہ کی نسل میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں شوقین مرد شادیاں تو رچا لیتے ہیں لیکن نبھانا نہیں جانتے ہیں۔ ایک سے زاید شادیوں کا انجام مار پیٹ، خلع اور طلاق ہے۔ دوسری صورت میں زن مرید یا تابع دار شوہر کی صورت میں رہنا پڑتا ہے۔
چپ ہوں بیگم کے سامنے لیکن
یہ علامت نہیں غلامی کی
بول سکتا ہوں میں اگر مجھ کو
دیں اجازت وہ خود کلامی کی
اب موصوف وزیرِ کوئلہ کی مذکورہ اشعار کی روشنی میں ان کے فقرے پر غور کریں تو ایسا بھی غضب نہیں ہوا بلکہ ایسا بعض گھرانوں میں ہوتا بھی ہے کہ بیویاں شوہر کے دل سے اتر جاتی ہیں اور اکثر مرد بیوی کی محبت میں اس قدر گرفتار ہوتے ہیں کہ ساری عمر دوسری شادی نہیں کرتے بلکہ بچوں کی پرورش اور ان کی کفالت کی ذمے داری میں زندگی کا ایک ایک پل گزار دیتے ہیں۔
وزیر کوئلہ نے تو بیوی کی کشش کھونے کی بات کی ہے اور خواتین برہم ہوگئی ہیں، ذرا وہ ہندوستان کے رسم و رواج پر بھی غور کریں کہ آج بھی بھارت کے کچھ علاقوں میں عورت کو اپنے شوہر کی ارتھی کے ساتھ ستّی کردیا جاتا ہے، بے شمار معصوم بچیوں کو قبل از وقت پیدایش موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، ہزاروں دلہنوں کو جہیز نہ لانے کی پاداش میں جلا کر خاکستر کردیا جاتا ہے تو ان تلخ حقائق پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ عورت کو تحفظ اور عزت کے ساتھ جینے کا حق دلانا انسانی حقوق کی تنظیموں کا کام ہے۔ ہندوستان میں ہی نہیں پاکستان میں بھی عورت کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی کی جاتی ہے۔ ظلم و ستم ڈھایا جاتا ہے سوائے چند سماجی اداروں کے سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ عورت کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے لیکن اس سے بھی فوائد حاصل نہیں ہوتے ہیں۔