سلمان مرگیا انقلاب زندہ ہے

غزہ میں زیادہ ریڈیکل فلسطینیوں پر حماس کی حکومت کا جبر دراصل اسرائیلی ریاست کے جبر ہی کا تسلسل ہے۔

zb0322-2284142@gmail.com

محمد بوعزیزی کے خون سے رنگا ہوا انقلاب عرب بہار نے ساری دنیا کے محنت کشوں کو یکجا کردیا اور دنیا کی ایک درجن حکومتیں تبدیل ہوگئیں۔

اس عالمی انقلاب کا شباب جسے طوفان جنت (Heaven storm) کہنا غلط نہ ہوگا ''وال اسٹریٹ قبضہ تحریک'' میں نظر آیا۔ محنت کشوں کی یہ عالمگیریت 88 ملکوں کے 900 شہروں پر مشتمل تھی۔ ایسی ہی ایک اور عالمگیریت گزشتہ برس عالمِ عرب میں تب نظر آئی جب فلسطینی محنت کش سارے عرب ممالک مصر، اردن، لبنان، شام اور فلسطین کی (محمود عباس اور حماس انتظامیہ) سرحدوں کو پار کرتے ہوئے اسرائیل جاپہنچے۔ اس سفر کے دوران حماس اور محمود عباس انتظامیہ سمیت سب نے روکنے کے لیے ان پر گولیاں برسائیں مگر فلسطینی محنت کش اور نوجوان ان حکمرانوں کی گولیوں کی بوچھاڑ میں گزرتے ہوئے اسرائیل جاپہنچے۔

انھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے ہوئے ممالک کی سرحدوں، بندھنوں اور دیواروں کو توڑ ڈالا۔ اس عمل میں درجنوں فلسطینی شہید ہوئے۔ آج پھر ایک بار موسم خزاں میں دنیابھر کے محنت کش خصوصاً جنوبی افریقہ کی پلاٹینیم کے کان کنان (جس میں 44 مزدور شہید بھی ہوئے) اسپین، یونان، نیدرلینڈ، اسرائیل، چلی اور کیوبا کے محنت کش اور طلبا اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر امنڈ آئے۔گزشتہ سال فرانس اور تیونس سے شروع ہونے والی تحریک جب اسرائیل تک آن پہنچی تو اسرائیل کی 77 لاکھ کی آبادی میں 7 لاکھ لوگوں نے غذائی قلت، مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف ہڑتال کردی جنھیں 90 فیصد آبادی کی حمایت حاصل تھی۔ اس تحریک کی یاد میں تل ابیب میں گزشتہ دنوں ایک ریلی نکالی گئی۔

ریلی کے اختتام پر ایک اسرائیلی شہری موشے سلمان نے سرعام خود کو آگ لگالی۔ مظاہرین نے فوراً ایک پلے کارڈ پر درج کرلیا کہ: ''Sulman is dead, the revolution lives'' ''سلمان مر گیا انقلاب زندہ ہے۔'' لیکن اس دل خراش واقعے کی میڈیا میں رپورٹنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے ایک ایسے واقعے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنا، جو اسرائیلی سماج میں پائی جانے والی شدید بے چینی کی غمازی کرتا ہے، لازمی تھا۔ 57 سالہ سلمان سماجی انصاف کے لیے چلائی جانے والی تحریک کا سرگرم رکن تھا اور اس جدوجہد میں حصّہ لینے کے لیے حیفہ سے تل ابیب آیا تھا۔

اسرائیل کی جابر اور مطلق العنان حکومت نے غزہ کو ایک وسیع قید خانے میں تبدیل کردیا ہے۔ اس حکومت نے نیو لبرل سرمایہ دارانہ پالیسیوں کو ظالمانہ طریقے سے جاری رکھا ہے، جس نے عام اسرائیلی شہریوں کی زندگیاں بھی قابل ترس بنا دی ہیں۔ اگست 2011 میں لاکھوں اسرائیلی شہری حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ اسرائیل کی تاریخ میں یہ سب سے بڑی عوامی بغاوت تھی۔ اس سال مظاہرین کی کم تعداد کو دیکھتے ہوئے بے بسی کے عالم میں سلمان نے شاید محمد بوعزیزی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خود کو آگ لگالی تاکہ تیونس کی طرح اسرائیل میں بھی انقلابی تحریک شروع کی جاسکے۔ اس نے اپنے آخری تحریری پیغام میں لکھا ''اسرائیل کی ریاست نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا ہے، میرے پاس کچھ بھی نہیں بچا، یہ حکمران سماج کے غلیظ ترین لوگ ہیں۔''


پچھلی تین دہائیوں میں اسرائیل میں بننے والی ہر حکومت نے ایسی مالیاتی پالیسیاں نافذ کی ہیں جنھوں نے اسرائیل کے عوام کا معیارِ زندگی کم کیا ہے جب کہ سماجی محرومی میں اضافہ ہوا ہے۔ صحت، تعلیم اور رہایشی سہولتوں کے فنڈ میں 56 فیصد تک کٹوتی کی گئی ہے۔ اجرتوں میں کمی ہوئی ہے جب کہ پنشنوں کی صورت حال بھی غیر یقینی ہے۔ یہ سب کچھ ان حالات میں ہورہا ہے جب معیشت کی شرح نمو نسبتاً بہتر ہے اور اسرائیل امریکی امداد کا سب سے بڑا وصول کنندہ ہے۔ اسرائیل میں بننے والی تقریباً ہر حکومت نے ان یہودی پارٹیوں کے ساتھ الحاق کیا ہے جو مذہبی تعصب اور عدم برداشت کا پرچار کرتی ہیں۔ کینیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) جس میں آبادی کے 20 فیصد حصّے عرب اسرائیلیوں کی علامتی موجودگی بھی ہے، نے فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی پر مبنی 33 قوانین پاس کیے ہیں۔

امریکا میں جسے یہودی لابی (مذہبی تعصب کی بنیاد پر) کہا جاتا ہے وہ دراصل تیل کی کمپنیوں اور اسلحہ ساز اداروں کی لابی ہے جو صہیونی ریاست کے پیدا کردہ تنازعات کو اپنے منافعوں اور لوٹ مار کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اپنے 65 سالہ وجود کے دوران اسرائیل نے تمام تر عالمی قوانین کو مسترد کیا ہے، دوسرے علاقوں پر قبضے کیے ہیں، بڑی تعداد میں لوگوں کو ہجرت پر مجبور کیا ہے، منظم طریقے سے قتل یا پھر بے رحم جبر کا نشانہ بنایا ہے۔ اس سب کے باوجود اسرائیل کے لیے مغربی سامراج کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔

سامراج کی ایما پر بعض حکومتیں فلسطینی تنظیموں کو امداد دے کر ان کی پالیسیوں کو کنٹرول کرتی ہیں اور ان سے وقتاً فوقتاً ابھرنے والی عوامی انقلابی لہروں کو زائل کروانے کا کام لیتی ہیں۔ اپنی مطلق العنان طرزِ حکمرانی کی وجہ سے ابھرنے والے اندرونی تضادات کو دبانے اور اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے یہ حکومتیں فلسطین کے مسئلے کو استعمال کرتی ہیں۔ نیتن یاہو مصری انقلاب سے شدید خوف زدہ ہے جس نے خطے میں اس کے قریب ترین اتحادی حسنی مبارک کی حکومت کو گرادیا ہے۔ مغربی کنارے کی فلسطینی قیادت اسرائیل کے ساتھ خفیہ طور پر تعاون کرتی آرہی ہے۔

غزہ میں زیادہ ریڈیکل فلسطینیوں پر حماس کی حکومت کا جبر دراصل اسرائیلی ریاست کے جبر ہی کا تسلسل ہے۔ یہاں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حماس اور اسلامی جہاد دونوں ہی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی پیداوار ہیں، جنھیں ماضی میں بائیں بازو کی ریڈیکل فلسطینی تنظیموں کو تباہ کرنے کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ فلسطینی عوام نے تمام تر نامساعد حالات کے خلاف لڑنے کی قوت کا بار بار اظہار کیا ہے۔ 1987 کے انتفادہ نے پہلی بار صہیونی ریاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور فلسطینیوں کو امید کی کرن نظر آنے لگی لیکن قیادت نے سامراجی ایجنڈے پر عملدرآمد کرتے ہوئے مذاکرات کے ''لائحہ عمل'' کے نام پر تحریک کو زائل کردیا۔

اسرائیل پر آج تک خوف کی سیاست کے ذریعے سے حکومت کی گئی ہے اور عوام کو بیرونی خطرات سے ڈرا کر محکوم رکھا گیا ہے۔ گزشتہ سال سماجی انصاف کے لیے ابھرنے والی عوامی تحریک نے پہلی بار خوف کی اس سیاست کو مسترد کیا ہے۔ اس شاندار ابھار نے اسرائیل کے بارے میں ایک رجعتی اکائی ہونے کے غلط تصور کو بھی پاش پاش کردیا ہے۔ یہ تحریک عرب انقلاب ہی کا تسلسل ہے جو پچھلے سال کے موسم بہار میں پورے خطے میں پھیل چکا تھا۔

اس انقلابی عمل میں 1936-39 کے ہسپانوی انقلاب کی طرح اتار چڑھائو آئیں گے۔ صہیونی ریاست اور سامراج کی مکمل شکست کے بغیر اس خطے کے لوگوں کو آزادی نصیب نہیں ہوسکتی ہے۔ پچھلے 65 سال کے تجربے نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ سماجی، معاشی اور سیاسی آزادی مذاکرات یا مذہبی رجعت کے ذریعے حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ صرف طبقات کے خاتمے اور قومی حد بندیوں کے خاتمے کے ذریعے ہی حقیقی آزادی نصیب ہوسکتی ہے۔
Load Next Story