ہم ماضی سے لپٹے آج میں زندہ ہیں

ہم اس وقت ذہین کہلائے جانے کے قابل ہوسکتے ہیں جب ہم مسائل کو سائنسی طریقے سے حل کرپائیں۔


Aftab Ahmed Khanzada October 07, 2012
آفتاب احمد خانزادہ

کومی نیئس کا کہنا تھا ''ہماری پہلی خواہش سب کا مکمل طور پر پڑھا لکھا ہونا چاہیے'' جبکہ ارسطو نے کہا تھا ''انسان ہی فطرت میں سب چیزوں کا مرکز ہے۔''

انسان کی عقل، فطرت اور خدا دونوں کے بارے میں جاننے کی صلاحیت رکھتی ہے لہٰذا تعلیم ہر ایک کا پیدائشی حق ہے۔ انسان ایک بیج کی طرح ہے اور نصاب کی حیثیت وہی ہے جیسے بیج کے لیے زمین اور استاد یا طریقہ تدریس فطرت کے مشابہ کردار ادا کرتے ہیں۔ جان ڈیوی بیسویں صدی کے تعلیمی نظریے پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوا، اس نے امریکا کو وہ فلسفہ تعلیم دیا جس سے امریکا دنیا کی تنہا طاقت ور ترین قوم میں ڈھل گیا۔ اس نے کہا انسان ایک نشوونما پانے والا، آگے بڑھنے والا جاندار ہے۔

جس کی کچھ آرزوئیں، خواہشات، ضرورتیں اور دلچسپیاں ہوتی ہیں جو اس کی جدوجہد، مقاصد اور منزلوں کو متعین کرتی ہیں تاکہ وہ اپنی ذہانت کا استعمال کرکے انھیں حاصل کرسکے۔ علم اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ انسان کا تجربہ ہے جو انسانی تجربے سے باہر ہے وہ علم نہیں ۔ ماحول کے ساتھ سرگرم باہمی ربط سے وہ کچھ تجربہ حاصل کرتا ہے، مسئلے کو قابو کرنے اور حل کرنے کی سوچتا ہے جو ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں، اس سے ذہانت درجہ بدرجہ آگے بڑھتی ہے۔ ذہانت کوئی تجریدی چیز نہیں جو ہماری کھوپڑی کے اندر بیٹھی ہے یہ تو صرف سوچنے کی خاصیت کا نام ہے جس کا مقصد زندگی کے مسائل کو موثر طریقے سے حل کرنا ہے۔

ہم اس وقت ذہین کہلائے جانے کے قابل ہوسکتے ہیں جب ہم مسائل کو سائنسی طریقے سے حل کرپائیں۔ مسئلہ کب پیدا ہوتا ہے؟ جب ہم کوئی کام کرتے ہیں اور اس دوران ہمیں کسی رکاوٹ یا خلل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ ہی رکاوٹ تحریک پیدا کرتی ہے تاکہ ہم سوچیں۔ جب ہم سوچتے ہیں تو مسائل کے کچھ حل سجھائی دیتے ہیں۔ تعلیم تجربے کے نتیجے میں آتی ہے لہٰذا تعلیم کا مقصد طالب علموں کی اس صلاحیت کو ترقی دینا ہے جو مستقبل کے مسائل کا تدبر سے سامنا کرسکے، یعنی ذہانت کو ترقی دینا ہے چنانچہ تعلیم نشوونما اور صرف نشوونما کے سوا کچھ نہیں۔

18 ویں صدی میں ہندوستان کیا دنیا کے کسی حصے میں بھی رعایا کی تعلیم ریاست کی ذمے داری نہیں سمجھی جاتی تھی۔ علم دوست شہزادے اور امراء اپنے خر چ سے مدرسے قائم کرتے رہتے تھے، صوفیائے کرام کے اپنے حلقے اور دائرے تھے جن میں مریدوں کی تعلیم و تربیت اور کھانے، رہنے کا انتظام مفت تھا۔ پہلا سرکاری مدرسہ سلطان شہاب الدین غوری نے 1191 میں اجمیر میں قائم کیا تھا پھر بختیارخلجی نے بنگال میں بہت سے مدرسے کھولے۔ سلطان التمش نے 1227 میں اچھ میں اور 1237 میں دہلی میں مدرسے قائم کیے۔ مغلوں کے دور میں ملتان، ٹھٹھہ، سیالکوٹ، جونپور، پٹنہ اور دہلی تعلیم کے بڑے مرکز تھے۔

شاید ہی کوئی شہر یا بستی ایسی تھی جہاں مدرسے اور مکتب موجو د نہ ہوں۔ مسلمانوں کے عہد میں ذریعہ تعلیم فارسی تھا۔ اکبر بادشاہ کے عہد میں جہاں اور بہت سی اصطلاحیں ہوئیں وہاں پرانے تعلیمی نظام کے پہلو بہ پہلو سیکولر تعلیم کو رواج دینے کی کوشش بھی کی گئی۔ اس نے بلا امتیاز عقیدہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے لیے یکساں اسکول کھولے جن میں طالب علموں کو ریاضی، اخلاقیات، زراعت، جیومیٹری، نجومیات، اصول حکومت، طب، منطق، کیمسٹری، طبیعیات اور تاریخ کی تعلیم دی جاتی تھی مگر سیکولر تعلیم کی پالیسی کو اکبر کے جانشینوں نے ترک کردیا اور روایتی تعلیم پھر سے رائج ہوگئی۔

مسلمانوں کی تعلیم میں دنیاوی علوم کی حیثیت گھٹا کر دینیات کی اہمیت بڑھا دی جس میں مذہبی جنونیت کا عنصر غالب تھا۔ ان ہی پالیسیوں کا نتیجہ تھا کہ مغل ریاست اور معاشر ہ تیزی سے زوال پذیر ہوئے۔ اسلامی فکر میں جمود کا بنیادی سبب تو یہ تھا کہ خود مسلم معاشرہ جمود کاشکار ہوگیا تھا، تلاش و تحقیق، تجر بہ اور مشاہدے کے شوق کی پرانی روایت کو علمائے دین اور صوفیا کرام نے نہ صرف ترک کردیا تھا بلکہ وہ قرون وسطیٰ کے روشن خیال مسلمان مفکروں کو کافر، ملحد کے لقب سے نوازتے تھے اور ان کی تصنیفات کا مطالعہ ممنوع کر دیاگیا تھا۔ بقول علامہ اقبال یہ امت خرافات میں کھوگئی۔

سیکولر خیالات کی نشرواشاعت روایت پسند ملائوں کو سخت ناگوار گزری۔ وہ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ عوام میں اچھے اور بر ے کا شعور پیدا ہو اور وہ عقل سے کام لیں۔ انھوں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ جدید علوم کی تعلیم کا مقصد لوگوں کو دراصل عیسائی بنانا ہے اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا ہے۔ علما اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ انسانی علم و حکمت 13 ویں صدی سے آگے نہیں بڑھی ہے مگر ہندو لڑکے انگریزی اسکولوں میں پڑھنے لگے، یہ تعلیم آگے چل کر ان کے بہت کام آئی اور وہ مسلمانوں پر سبقت لے گئے۔ مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور حکومت میں تعلیم کبھی بھی مربوط اور منصوبہ بند سرگرمی نہ رہی۔

ان کے بنائے قلعے، محل، باغات اور مقبرے تو آج بھی دکھائی دیتے ہیں لیکن اسکول، کالج، لائبریریاں، تحقیقی اداروں کا کہیں نشان نہیں ملتا۔ انھیں صرف اپنی ریاست کے پھیلائو اور سونے چاند ی کے انبار لگا نے سے دلچسپی تھی، یہاں ابھی تک الف لیلیٰ، سعدی وشیرازی، عربی، فارسی کی گردانیں رٹ کر مولو ی، منشی، فاضل تیار ہورہے تھے چنانچہ اس زمانے کے نظام تعلیم پر Alxander Duff نے تبصر ہ کیا کہ ''ہندوستانی تعلیم موشگافیوں پر مشتمل ایک بے کار مابعد الطبیعات کانام ہے۔''

ہندوستان کے مسلم عوام صدیوں تک علمی تاریکی میں ڈوبے رہے۔ اگر ہندوستان میں سرسید پیدا نہ ہوتے یا لارڈ میکالے ہندوستان نہ آتا تو آج ہم مسلمانوں میں تعلیم اور جدید علوم کی پڑھائی کا نشان مشکل سے ملتا۔ سرسید اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ جدید مغربی تعلیم و علوم کے بغیر بدحال ملت اسلامیہ کے سب دیگر نعرے بے معنی ہیں، صدیوں پرانے رسم و رواج، توہم پرستی اور عادات ان کے ایمان کا جزو بن چکے ہیں، وہ بے معنی تعصبات کے زیر اثر چل رہے ہیں، سماجی حیثیت، تعلیم اور معاشی خوشحالی میں نہایت خوفناک پستی میں گرچکے ہیں۔

انھوں نے محسوس کرلیا تھا کہ مسلمانوں کے تمام سیاسی اور سماجی امراض کا علاج جدید تعلیم میں مضمر ہے۔ سرسید نے علی گڑھ یونیورسٹی کا ماحول لبرل اورسیکولر رکھا، مذہبی شدت پسندی، فرقہ وارانہ تعصب اور عدم رواداری کا کوئی وجود نہ تھا، اس پر مذہبی جاہلوں نے سرسید کو کافر قرار دے دیا۔ علما کی اکثریت سرسید، علامہ اقبال اور قائد اعظم کے افکار کے خلاف کانگریس کی حامی رہی اور پاکستان بننے کے بعد انہی لوگوں نے پاکستان کو قوی ریاست بنانے کے بر عکس ایک اسلامی ریاست بنانے کا پراپیگنڈہ شروع کردیا۔ قیام پاکستان سے قبل نظریہ پاکستان کی اصطلاح کا کوئی وجود نہ تھا، مفاد پرستوں کا اصل کارنامہ ہی یہ تھا کہ انھوں نے انتہائی چابکدستی سے دو قومی نظریے کو نظریہ پاکستان کی اصطلاح میں تبدیل کردیا۔ دو قومی نظریہ قیام پاکستان سے قبل کا تھا جبکہ نظریہ پاکستان قیام پاکستان کے بعد ایجاد ہوا۔

اب ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ بحیثیت قوم ہم کیا چاہتے ہیں؟ کیا ہم ایک جدید مہذب ریاست کے زیر سایہ ترقی یافتہ، خوشحال، تعلیم یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں یا ہمیں اندھیرے زیادہ مرغو ب ہیں جہاں جہالت کو کھلی چھوٹ ہے اور علم پر ہزار پابندیاں ہیں۔ وقت بڑی تیزی سے ہم کو پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے، ہمارا کوئی مستقبل نہیں اور نہ کوئی منزل۔ ہم ماضی سے لپٹے آج میں زندہ ہیں، فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہمیں کس جانب جانا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں