عرب امارات کی ٹیم کا وجود پردیسیوں کے دم سے قائم

اس ورلڈ کپ سے ملکی نوجوانوں میں کرکٹ کا شوق بڑھے گا، کپتان کو یقین

اس ورلڈ کپ سے ملکی نوجوانوں میں کرکٹ کا شوق بڑھے گا، کپتان کو یقین۔ فوٹو: فائل

ورلڈ کپ میں دوسری مرتبہ شریک متحدہ عرب امارات کی ٹیم میں شامل بیشتر پلیئرز ایشیائی تارکین وطن ہیں۔

یو اے ای کی ٹیم میں شامل کھلاڑی ملازمتوں کے سلسلے میں خلیجی ریاستوں میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں، انھیں بھی اس بات کا احساس ہے کہ مستقبل اماراتی کرکٹ میں نہیں بلکہ ملازمتوں میں ہے، البتہ کپتان محمد توقیر کو یقین ہے کہ اس ورلڈ کپ سے امارات کے نوجوانوں میں کھیل کا شوق بڑھے گا.

ٹیم کی بین الاقوامی کرکٹ میں پہچان اپنی ٹیم سے زیادہ انٹرنیشنل میچزکی میزبانی سے رہی ہے، اس نے مشکل حالات سے دوچار پاکستانی ٹیم کو اپنے میدانوں پر ہوم سیریز کھیلنے کا موقع فراہم کیا ہوا ہے، امارات کے اپنے معاشرتی اور معاشی حالات میں اس کی اپنی کرکٹ شوقیہ بنیادوں پر چل رہی ہے۔


ٹیم منیجر مظہر خان نے برطانوی ویب سائٹ کو بتایا کہ کرکٹرز کو مالی طور پر ترغیبات دی گئیں اورکھیلنے کی سہولتیں بھی پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں، مگر ان تمام باتوں کے باوجود کھلاڑی اپنی ملازمتوں کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ کرکٹ میں نہیں بلکہ ملازمتوں میں ان کے لیے بہتر مستقبل موجود ہے۔ متحدہ عرب امارات کی ٹیم کو آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ جیسے ایسوسی ایٹ ممالک کی طرح بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کے زیادہ مواقع نہیں ملتے، پلیئرز کاؤنٹی کرکٹ کا تجربہ بھی نہیں رکھتے۔ کوچ عاقب جاوید کے خیال میں اس وقت بین الاقوامی کرکٹ میں چند ممالک کا غلبہ ہے جو کسی نئے ملک کو اوپر نہیں آنے دیتے، انھوں نے کہا کہ فٹبال اور ٹینس کی طرح انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی کارکردگی کی بنیاد پر ترقی اور تنزلی کا طریقہ کار اپنانا چاہیے۔

ایک عرصے تک یواے ای ٹیم کی قیادت کرنے والے خرم خان دبئی پہنچتے ہی فلائٹ پرسر کی یونیفارم اتار کر کرکٹ کٹ سنبھالے سیدھے اسٹیڈیم پہنچ جاتے ہیں جہاں کبھی پریکٹس اور کبھی میچ کھیلتے ہیں، ان کا یہ معمول کئی برسوں سے ہے، ایئرلائنز کی ملا زمت ان کا ذریعہ معاش اورکرکٹ شوق ہے. یہ شوق 43 سال کی عمر میں بھی خرم کو جوان رکھے ہوئے ہے، وہ اپنی عمدہ کارکردگی کے سبب متحدہ عرب امارات کی کرکٹ ٹیم کے سب سے اہم بیٹسمین ہیں۔ انھوں نے ون ڈے انٹرنیشنل میں سب سے زیادہ عمر میں سنچری بنانے کا عالمی ریکارڈ سنتھ جے سوریا سے چھین لیا۔ آل راؤنڈر امجد جاوید بھی ایئرلائنز میں ملازمت کرتے ہیں، ان کے خیال میں ملازمت کے ساتھ کرکٹ کو بین الاقوامی تقاضوں کے ساتھ کھیلنا کوئی آسان کام نہیں لیکن یہ پلیئرز کا ہی حوصلہ ہے کہ وہ دونوں کام بخوبی نبھا رہے ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں اس وقت شارجہ دبئی اور ابوظبی کی شکل میں انٹرنیشنل کرکٹ کے تین اہم مراکز موجود ہیں لیکن اس کا اپنا کوئی فرسٹ کلاس نظام نہیں، کرکٹ کلب کی سطح پر ہوتی ہے، یا آئی سی سی اور ایشین کرکٹ کونسل کے رکن ممالک کی ٹیمیں وہاں آکر امارات کی ٹیم سے فرسٹ کلاس یا محدود اوورز کے میچز کھیل لیتی ہیں۔
Load Next Story