جمہوری حکومت کا پہلا بلدیاتی نظام

پولیس، میئر اور چیئرمینوں کی ماتحت نہیں ہوگی۔

KARACHI:
پاکستان پیپلز پارٹی سے عوامی حلقوں کو یہ شکایت رہی ہے کہ اس نے اپنے گزشتہ تین ادوار میں کبھی بلدیاتی الیکشن نہیں کرایا۔

البتہ فوجی جنرلوں کے کرائے گئے چاروں بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصّہ لیا اور پی پی نے صرف 1983 کے جنرل ضیاء حکومت کے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ مگر اپنی کسی حکومت میں پیپلز پارٹی ملک تو کیا کسی اپنی صوبائی حکومت میں بھی بلدیاتی نظام نہیں دے سکی تھی اور اب یہ پہلا موقع ہے کہ سندھ میں پہلی بار پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت میں صوبے کو بلدیاتی نظام دیا ہے، جسے سندھ اسمبلی نے بھاری اکثریت سے متحدہ کے تعاون سے منظور کیا ہے جو سندھ اسمبلی کا ایک بہترین جمہوری فیصلہ ہے مگر حکومت کی جلد بازی نے ایک مناسب بلدیاتی نظام کو متنازع بنا کر رکھ دیا ہے جسے سابق حکومتی حلیف اور قوم پرست ایک ایشو بنائے بیٹھے ہیں ۔

سندھ اسمبلی میں پی پی اور متحدہ کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ اس لیے حکومت کو سندھ اسمبلی سے بلدیاتی بل اتنی جلدی میں منظور نہیں کرانا چاہیے تھا اور اپنی نام نہاد اپوزیشن کو موقع دینا چاہیے تھا کہ وہ بلدیاتی نظام پر اپنے تحفظات پیش کرتی جس کے دو چار روز بعد بحث کراکر اگر سندھ اسمبلی اس کی منظوری دیتی تو آج اس نظام کے مخالفین کو سندھ میں اپنی جلائو گھیرائو، احتجاجی ریلیوں کے ذریعے املاک جلانے کا موقع نہ ملتا اور نہ اس موقع پر دو افراد کی ہلاکتیں ہوتیں۔

حکومتی حلیف رہنے والی مسلم لیگ فنکشنل، این پی اے، اے این پی، مسلم لیگ بھی خود جنرل پرویز کے ضلعی نظام کا اہم حصّہ رہی ہیں۔ (ق) لیگ کے صوبائی وزیر شہریار مصر کے بڑے بھائی دو بار ضلعی ناظم رہے ہیں۔ ضلعی نظام میں سندھ میں کراچی کی واحد سٹی حکومت تھی جس میں 18 ٹائون تھے جب کہ سندھ کے باقی اضلاع میں ضلعی ناظمین اور تحصیل کونسلیں تھیں اور کراچی کا ضلعی نظام سندھ سے بالکل جدا اور بااختیار تھا۔ حکومتی حلیف پارٹیوں کے اپنے ناظمین تھے۔ کراچی کا پولیس نظام بھی الگ تھا۔ کراچی میں پولیس کا سربراہ سی سی پی او اور سندھ میں دو آر پی او ہوتے تھے۔


اس وقت کسی کو سندھ میں دو بلدیاتی نظاموں پر اعتراض نہیں تھا۔ اس وقت کسی کو سندھ کی تقسیم نظر نہیں آئی تھی۔ ضلعی نظام ایک ایسا بااختیار بلدیاتی نظام تھا جس میں صوبائی سیکریٹری، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر جیسے اہم عہدوں پر فائز افسران ضلعی ناظمین کی ماتحتی میں کام کرتے تھے۔ 2012 کا سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ نظام ایک کمزور اور وہ محکوم نظام ہے جو محکمہ بلدیات کے مکمل کنٹرول میں ہوگا اور وزیر اعلیٰ جب چاہے گا میئر اور ضلع کونسل کے چیئرمینوں کو فارغ کردے گا۔ سندھ کے تمام میئرز اور چیئرمین حکومت کے ہر غلط حکم کو ماننے کے پابند ہوں گے۔

وزیر اعلیٰ اور وزیر بلدیات جب صوبے کا دورہ کریں گے، وہاں کے منتخب چیئرمین اور کونسلر ہاتھوں میں ہار لیے ان کے استقبال کے لیے کھڑے ملیں گے۔ ان کی آمد پر شہر جھنڈیوں اور خوشامدی بینروں سے سجائے جائیں گے کیونکہ یہی کچھ 1979 کے جنرل ضیا کے بلدیاتی نظام میں ہوتا تھا اور یہی کچھ 2012 کے محدود اختیارات کے کمزور نظام میں ہوگا۔ جنرل پرویز کے بااختیار ضلعی نظام میں ایسا نہیں تھا۔ ضلعی ناظمین بیورو کریسی کی تو کیا وزیر بلدیات اور وزیر اعلیٰ کی بھی غلط بات نہیں سنتے تھے۔

وہ ارکان اسمبلی کے کہنے پر نہیں چلتے تھے۔ وزیروں کے احکام ماننے کے پابند نہیں تھے۔ بیورو کریسی کی غلامی نہیں کرتے تھے اور اپنے اضلاع میں قانون کے مطابق مالی و انتظامی اختیار رکھتے تھے مگر اب 2012 کے نظام میں کمشنر، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر سب ہوں گے مگر وہ بلدیاتی اداروں پر کنٹرولنگ اتھارٹی نہیں ہوں گے۔

پولیس، میئر اور چیئرمینوں کی ماتحت نہیں ہوگی۔ مالی وسائل محدود ہوں گے اور مالی وسائل محدود ہونے سے اب وہ تعمیر و ترقی نہیں ہوسکے گی جو ضلعی نظام میں ہوئی اور میونسپل کارپوریشن اور دیگر بلدیاتی ادارے صوبائی حکومت کے نہ صرف مکمل کنٹرول میں بلکہ محتاج ہوں گے۔ ضلعی نظام میں وفاقی حکومت بلدیاتی اداروں کے فنڈ میں اتنی کٹوتی نہیں کرتی تھی، جتنی کٹوتی موجودہ جمہوری حکومت میں کی جارہی ہے۔ ضلعی نظام میں افسروں اور انجینئروں کے تقرر و تبادلوں میں کبھی محکمہ بلدیات میں اتنی رشوت نہیں تھی، جتنی اب ہے کیونکہ محکمہ بلدیات بلدیاتی اداروں پر مکمل طور پر حاوی ہے اور نئے بلدیاتی نظام میں محکمہ بلدیات کی ان پر حکومت رہے گی۔

سندھ میں حکومت کی مخالف جماعتوں، سابق حلیفوں، قوم پرستوں اور بعض علاقوں میں وکلا کو ایک ایشو مل گیا ہے جسے وہ کیش کرا رہے ہیں اور سب سے زیادہ زور اس بات پر ہے کہ اس بلدیاتی نظام سے سندھ کی تقسیم کی بنیاد رکھ دی گئی ہے، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ پیپلز پارٹی خود ایسا نہ چاہے گی نہ ایسا ہونے دے گی، کیونکہ وہ خود سب سے بڑی قوم پرست ہے۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ کے مخالفین کو سندھ میں اپنی سیاست چمکانے کے لیے حکومتی جلدبازی سے بہترین موقع میسر آگیا ہے۔ اندرون سندھ لوگ روز کی ہڑتالوں، احتجاج اور ریلیوں سے تنگ ہیں مگر اسلحے کے زور پر اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہیں۔ حکومت مخالف حلقوں کو انتخابی ایشو میسر آگیا ہے، اس لیے مناسب یہی ہے کہ سندھ حکومت جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات کا اعلان کردے کیونکہ اب تک کسی نے بھی بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کی بات نہیں کی ہے۔ فوری انتخابات اس واویلے کا حل ہیں اور عوام کو حقائق پر فیصلے کا حق حاصل ہے۔
Load Next Story