ایک ہے مکان وہ کنبہ رنگوں کی بحث میں اُلجھا تھا
گہرے اندھے کنوئیں میں پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے آکسیجن کھینچتی پانچ زندگیوں میں یکایک روشنی اور جھونکے در آئے
PESHAWAR:
دیواروں سے اٹھتی سیمنٹ کے تازہ لیپ کی مہک، چارپائی کے نیچے رکھے اگال دان سے نکلتے جانے کب کی جمع پیک کے بھبکے اور سلگتی سگریٹ سے اگلتی پھیلتی بو، تینوں کی تینوں، دروازے سے آنے والے پسینے اور فٹ پاتھ پر لگی چھابڑی سے خریدے گئے پرفیوم کی اعصاب شکن خوش بوسے مغلوب ہوگئیں۔ ''آگیا سارا سامان''پرفیوم اور پسینے میں نہائی فرخندہ نے اطلاع دی۔ اس کی چنچناتی آواز کے عقب میں گیلری اور اس سے ملحق کمرے کے فرش کے ٹکراؤ کی دھپ، دھڑ، ٹھک گونج رہی تھی۔
''کچھ رہ تو نہیں گیا؟'' چارپائی پر بیٹھے ہاشم نے آخری پچکاری کے ساتھ پان کی باقیات اگال دان کے حوالے کرکے پوچھا۔
''جی نہیں بڑے بھیا، سب آگیا'' فرخندہ نے دوپٹے سے چہرے کا پسینہ صاف کرتے ہوئے جواب دیا۔
''چلو عالم! سامان رکھوائیں'' ہاشم اٹھ کھڑا ہوا۔
''ارے ہوجائے گا، اتنی جلدی کیا ہے'' عالم نے فلٹر تک سگریٹ پی کر پھینکی اور دوسری سلگالی۔ وہ شاید نئے، بڑے اور اپنے مکان کے احساس سے کچھ دیر اور مسرور رہنا چاہتا تھا۔
سامان کی آخری کھیپ کے ساتھ آنے والے عاصم اور رخشندہ گرد آلود چہروں کے ساتھ کمرے میں وارد ہوئے اور ہاشم کے پہلو میں چارپائی پر بیٹھ گئے۔
''اﷲ بھلا کرے افضل چچا کا، ہمیں ملیر کے اس دڑبے سے اٹھا کر گلشن اقبال میں لے آئے، اتنے اچھے بڑے مکان میں'' ،''ہاں بھئی''،''صحیح کہا''،''سچ ہے۔'' تینوں بھائیوں اور بہن نے رخشندہ کی تائید کی۔
اب پتا نہیں بہن بھائیوں پر مشتمل اس گھرانے کو امریکا پلٹ افضل حسین کی سیال کی سُرخی، گداز کی گلابی مائل سفیدی اور ریشم کے سنہرے پن سے رنگین زندگی کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا، کہ آخری عمر میں افضل چچا نے خود کو نامۂ اعمال اور قبر کی سیاہی میں گِھرا پایا اور امریکا میں کمائے ہوئے ڈالروں کو نیک اعمال کا ذریعہ بنانے لگے، یا ان کی لاولدی کا ممنونِ احسان ہونا چاہیے، جس نے انھیں اپنا سب کچھ لُٹا دینے پر مائل کیا۔
اس ''سب کچھ'' میں سے زیادہ تر فلاحی اداروں کو گیا، ایک بڑی رقم ایک خیراتی اسپتال کے حصے میں آئی، لاکھوں روپے معذور بچوں کے ایک اسکول کو ملے، خیریت گزری کے نیکی کا یہ دریا خشک ہونے ہی کو تھا کہ افضل حسین کو اپنے چچا زاد نعیم حسین مرحوم ومغفور کی اولاد کا خیال آگیا، جو ملیر کی تنگ گلیوں میں واقع ایک ٹوٹے پھوٹے ڈبیا سے مکان میں زندگی گزار رہی تھی۔ تھوڑی بہت تعلیم حاصل کر کے چھوٹی موٹی نوکریوں سے گھر چلانے والے تین بھائی اور خانہ داری کرتی دو بہنیں، کنبے کے افراد دو کمروں اور صحنچی پر مشتمل کرائے کے مکان میں ایک دوسرے سے ٹکراتے اور دوسرے پر اس ٹکراؤ کا الزام عاید کرتے ہوئے کبھی لڑپڑتے تو کبھی صرف بڑبڑا کر معاملہ ختم کر دیتے۔
نئے مکان میں داخل ہونے سے کچھ دن پہلے ہی چالیس کے ہونے والے ہاشم سے اکتیس روکھے پھیکے برس گزار دینے والی رخشندہ تک پانچوں بہن بھائی معروف معنوں میں کنوارے تھے۔ محلے کی تنگ و تاریک کوڑے سے بھری گندی گلیوں اور تعمیر ہوتے مکانوں میں ان سب کے رشتے تو کئی بنے، لیکن دستاویزات کے خانگی زندگی کے خانے میں کنوارپن ہی درج رہا۔
گہرے اندھے کنوئیں میں پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے آکسیجن کھینچتی پانچ زندگیوں میں یکایک روشنی اور جھونکے در آئے، افضل چچا کی صورت میں۔
دستک پر فرخندہ کے زوردار ''کو ووووون'' کے جواب میں ''میں ہوں، تمھارا افضل چچا'' سن کر پورا کنبہ حیران رہ گیا۔
اس گھر میں ان کا تذکرہ اکثر ہوتا تھا، لیکن ان سے ملاقات کو ایک مدت گزر چکی تھی۔ افضل چچا کا امریکا جانا، ان کے ہاں دولت کی ریل پیل، گوری سے شادی، اولاد کا نہ ہونا اور پھر ان کی واپسی، خاندان والوں کی زبانی ہر خبر اس کنبے تک پہنچتی رہی تھی۔ وہ کتنی ہی بار پاکستان آئے اور گئے، لیکن اس گھر کا دروازہ ان کی دستک سے محروم ہی رہا۔ اور آج وہ حیران کنبے کے بیچوں بیچ گھر کی واحد کرسی پر بیٹھے اپنی آمد کا مقصد بیان کر رہے تھے۔
''اگر نعیم بھائی اس وقت فیس نہ دیتے تو مجھے اسکول سے نکال دیا جاتا، پھر کہاں کی پڑھائی اور کیسا امریکا۔۔۔'' اپنے باپ کے احسان کا ذکر سُن کر پانچوں کی گردنیں تن گئیں۔
''میں اس احسان کا بدلہ تو نہیں چُکا سکتا، مگر جو کر سکتا ہوں کروں گا، میں کچھ دنوں بعد تم سے رابطہ کرتا ہوں'' انھوں نے کناروں سے جھڑا کپ آدھی چائے پی کر رکھا اور جھریوں بھرا ہاتھ سب کے سروں پر پھیر کر روانہ ہوگئے۔
چند ماہ بعد پانچ رکنی کنبے کو چچا افضل کے ''جو کرسکتا ہوں'' کی سکت نے پہلے ششدر پھر نہال کر دیا۔ یوں لگا جیسے وہ سب ایک ساتھ سولہویں سال کا کوئی میٹھا سپنا دیکھ رہے ہوں۔
''یہ مکان تمھارا ہے'' چچا افضل نے دروازہ کھول کر کہا تو لگا جیسے ان پر بہشت کا دروازہ کھل گیا ہو، حساب کتاب کے بغیر۔ شہر کے صاف ستھرے اور خوش حال طبقے کے علاقے میں پانچ کمروں کا کشادہ مکان۔ جو خواب دیکھا بھی نہ تھا اس کی تعبیر مل گئی۔
''جب یہ علاقہ آباد ہو رہا تھا، تو یہ پلاٹ خریدا تھا۔ میں تو بھول بھی چکا تھا۔ کاغذات دیکھنے بیٹھا، تو یہ فائل بھی نکل آئی۔ تم لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا، سوچا اس پر مکان بنا کر تمھارے حوالے کردوں۔ اب یہاں آرام سے رہو۔ ابھی صرف سیمنٹ کرائی ہے۔ یہ لو پیسے، رنگ روغن کراتے رہنا۔''
ہاشم کے ہاتھ پر رقم کا بھاری لفافہ رکھ کر چچا افضل اپنے چہرے پر جنت کی بشارت کا سکون لیے کلفٹن کو سدھارے، جہاں دور تک پھیلی خالی کوٹھی ان کی منتظر تھی۔
''رنگ ونگ ہوتا رہے گا بڑے بھیا، اب تو وہیں چل کر رہتے ہیں۔'' فرخندہ کا مطالبہ بغیر کسی جرح کے منظور کر لیا گیا۔
اور اب یہ بہن بھائی نئے مکان کو سامان سے آراستہ کرنے میں مصروف تھے۔ لوہے کی دو الماریاں، پانچ چارپائیاں، اَماں کے جہیز میں آنے والے سوراخوں سے بھرے دو بڑے بڑے بکس، اکلوتی کرسی، کمیٹیاں ڈال کر خریدے جانے والا فریج اور ٹی وی، برتنوں کا انبار، سب اشیاء موزوں جگہ پر رکھ دی گئیں، مکان بھی پھر بھی خالی کا خالی لگتا تھا۔
''اب رنگ ہو جانا چاہیے'' شام کی چائے طشتری میں پھونکیں مار کر پیتے ہوئے عالم نے صدا لگائی۔
''ہونہہ۔۔۔۔کل صبح چل کر رنگ کے ڈبے لے آئیں گے، وہیں سے مزدور بھی پکڑ لیں گے'' ہاشم نے بھاری لفافے کا تصور کرتے ہوئے شاہانہ انداز میں کہا۔
''ہر کمرے میں الگ رنگ کراتے ہیں'' فرخندہ کی تجویز آئی۔
''پورے گھر میں ایک ہی رنگ ہونا چاہیے، لال'' عالم نے گویا حتمی فیصلہ سنایا۔ اسے اماں کی بات یاد آئی تھی، ''لال خوشی کی علامت ہوتا ہے''
''اونہہ۔۔۔ لال۔۔۔ جیسے گھر خون سے رنگا ہو، پورا مکان ہرا ہونا چاہیے، سبزے کا رنگ، خدا کا پسندیدہ، اسی لیے تو پیڑوں، پودوں، جھاڑیوں سب پر یہی رنگ چڑھا نظر آتا ہے۔'' عاصم نے فتویٰ دیا۔ اس کے تصور میں ابا کے الفاظ گونج اٹھے تھے۔
''پورے مکان پر سفید رنگ ہونا چاہیے، پاکیزگی کی علامت'' ہاشم کوابا کے دوست حاجی مجیب اﷲ کا فقرہ یاد آیا جو انھوں نے اسے سفید کرتے شلوار میں دیکھ کر کہا تھا۔
''کیا بات کر رہے ہیں بڑے بھیا، آج کرائیں گے کل گندا۔'' اماں نے ابا سے کہا تھا ناں،''اے تم سفید کپڑے مت پہنا کرو، پل میں گندے کرلیتے ہو'' رخشندہ کو یاد آیا۔
''فرخندہ نے صحیح کہا ہے۔ سارے رنگ کرالیتے ہیں، ایک پٹی لال، ایک ہری، ایک سفید، ایک نیلی، بڑا خوب صورت لگے گا ایمان سے۔'' رخشندہ کے تصور میں وہ دھنک اتر آئی جس کے بارے میں اماں نے بتایا تھا، جب اس نے ریڈیو پر ایک ڈراما سنتے ہوئے پوچھا تھا، ''اماں یہ جو کہہ رہا ہے دھنک، یہ کیا ہوتا ہے؟''
''ارے بھائی خون بھی تو اﷲ ہی کی تخلیق ہے، خون کے بغیر کوئی زندہ رہ سکتا ہے؟ رنگ تو لال ہی ہوگا گھر پہ'' عالم نے ضد پکڑ لی۔
''اماں کیا بے تکی بات کر رہے ہو، ہرا ہی ٹھیک ہے، میں نے کہہ دیا بس'' عاصم اپنی بات پر جم گیا۔
''ارے سفید۔۔۔''،''سفید تو کسی قیمت پر نہیں'' ہاشم کی بات فرخندہ نے کاٹ دی۔
لال، ہرا، سفید، رنگ، نہیں، بکواس، فضول، احمقانہ، جہالت۔۔۔ نوتعمیر شدہ مکان کا کشادہ ٹی وی لاؤنج مخصوص لفظوں کی تکرار سے گونج رہا تھا۔ لفظ تیکھے، ترش اور نوکیلے ہوتے جا رہے تھے۔ جیسی تیسی دلیلیں بھی گھٹنے ٹیک چکی تھیں، اب صرف عاجز غصے آپس میں ٹکرا رہے تھے۔
آخر اس اتفاق پر محفل برخاست ہوئی کہ ابھی رنگ ونگ چھوڑو، بعد میں دیکھا جائے گا۔
سیمنٹ کی گیلاہٹ خشک ہو گئی، سیاہی مائل مٹیالا رنگ سفید دھوپ میں جھلستی مٹی کی سفیدی اختیار کر گیا۔ مکان کی چھتیں دیواریں رنگ سے بے نیاز رہیں۔
لال، ہرا، سفید، سارے رنگ کے الفاظ تقریباً ہر روز ہی دیواروں سے سر پٹختے اور رات تک بے سدھ ہو کر کہیں پڑ رہتے، آئندہ کی بحث کے لیے تازہ دم ہونے کی خاطر۔
پھر کنبے میں ایک نئی بحث نے جنم لیا۔
''میرے کمرے کی دیوار میں کھڑکی ہونی چاہیے، ادھر سے اتنی اچھی فراٹے بھرتی ہوا آتی ہے۔'' کنبے کی کم عمر ترین فرد رخشندہ نے افضل چچا کا لفافہ سوچتے ہوئے ہاشم سے فرمائش کی۔
''نہیں نہیں، ادھر میدان کے ساتھ چائے کا ہوٹل ہے، وہاں مسلسل بے ہودہ گانے چلتے رہتے ہیں تیز آواز میں'' ہاشم سے پہلے عاصم بول پڑا۔
مایوسی اور امکانات کے دوراہے پر کھڑی رخشندہ کی عمر کو ہوا کے کسی تند جھونکے نے لڑکھڑا دیا تو کیا ہوگا؟ کھڑکی خدشات کا گہرا گڑھا تھی عاصم کے لیے۔
''مجھے نہیں پتا، بس کھڑکی بنوائیں'' رخشندہ کے سانولے گال پھول گئے۔
''عجیب بات کرتے ہو، گانوں کی وجہ سے کیا سارے کھڑکیاں دروازے بند کر دیں'' عالم نے بہن کی حمایت کی۔
''کچھ ہوا تو تم ذمے دار ہو گے؟'' عاصم نے چھوٹے بھائی کو مخاطب کیا۔
''کچھ ہوا کیا مطلب؟'' رخشندہ جل بُھن گئی۔
''کچھ نہیں، کھڑکی کی کوئی ضرورت نہیں، جتنی ہوا آتی ہے وہ کافی ہے ہمارے پھیپھڑوں کے لیے'' عاصم کا لہجہ حتمی تھا۔
''کھڑکی کا بعد میں سوچیں گے، پہلے رنگ تو ہو جائے'' ہاشم نے معاملہ التوا میں ڈالنے کی کوشش کی، جس کا نتیجہ رنگ پر نئے سرے سے بحث کی صورت میں نکلا۔
اب مکان کی چار دیواری میں لال، ہرے، سفید اور اس مناقشے سے جُڑے دیگر الفاظ کے ساتھ کھڑکی، گانے، بے ہودگی اور اس تنازعے سے وابستہ لفظ منڈلا رہے تھے۔
چچا افضل کا عطا کردہ لفافہ لوہے کی الماری میں اسی جگہ بند رکھا تھا، جہاں ہاشم اپنے ضروری کاغذات رکھتا تھا۔
''چچا افضل نے جو پیسے دیے تھے، وہ سب میں برابر بانٹ لیتے ہیں'' عالم نے فرش پر بچھی چادر پر رات کا کھانا کھانے کے بعد پہلی ڈکار مارتے ہوئے نیا شوشہ چھوڑا۔
''ہاں، ان پیسوں سے نیا فریج اور ٹی وی خرید لیتے ہیں، باقی تقسیم ہو جائیں'' فرخندہ عالم کے ساتھ تھی۔
''نیا ٹی وی کس لیے۔۔۔ اس کی اسکرین چھوٹی ہے۔۔۔ صاف نظر نہیں آتا'' ہاشم کے لہجے میں طنز کی کاٹ درد کی چبھن لیے ہوئے تھی۔
خاموشی چھا گئی۔
''آپ لوگ خبریں، ٹاک شو سنتے رہتے ہیں، فضولیات، ہم دونوں کو ڈرامے سننا ہوتے ہیں'' رخشندہ نے بہن کی بات واضح کی۔
''ہونہہ۔۔۔ ٹھیک ہے'' ہاشم مان گیا۔ کسی طرف سے کوئی اعتراض نہیں آیا۔
''ریموٹ کہاں ہے، خبریں آرہی ہوں گی'' عاصم کے ہاتھ چادر سے ننگے فرش تک ریموٹ ٹٹولنے لگے۔
''ارے کہاں ہے ریموٹ'' ناکامی برہمی میں ڈھلنے لگی۔
''فرخندہ ڈراما دیکھ رہی تھی، اسی نے رکھا ہوگا'' عالم نے نشان دہی کی۔
''یہیں تو رکھا تھا'' فرخندہ نے ہاتھوں سے اپنے اردگرد کی چادر تھتھپائی۔
پانچوں پیدائشی اندھے دس ہاتھوں سے ریموٹ ڈھونڈنے لگے۔
دیواروں سے اٹھتی سیمنٹ کے تازہ لیپ کی مہک، چارپائی کے نیچے رکھے اگال دان سے نکلتے جانے کب کی جمع پیک کے بھبکے اور سلگتی سگریٹ سے اگلتی پھیلتی بو، تینوں کی تینوں، دروازے سے آنے والے پسینے اور فٹ پاتھ پر لگی چھابڑی سے خریدے گئے پرفیوم کی اعصاب شکن خوش بوسے مغلوب ہوگئیں۔ ''آگیا سارا سامان''پرفیوم اور پسینے میں نہائی فرخندہ نے اطلاع دی۔ اس کی چنچناتی آواز کے عقب میں گیلری اور اس سے ملحق کمرے کے فرش کے ٹکراؤ کی دھپ، دھڑ، ٹھک گونج رہی تھی۔
''کچھ رہ تو نہیں گیا؟'' چارپائی پر بیٹھے ہاشم نے آخری پچکاری کے ساتھ پان کی باقیات اگال دان کے حوالے کرکے پوچھا۔
''جی نہیں بڑے بھیا، سب آگیا'' فرخندہ نے دوپٹے سے چہرے کا پسینہ صاف کرتے ہوئے جواب دیا۔
''چلو عالم! سامان رکھوائیں'' ہاشم اٹھ کھڑا ہوا۔
''ارے ہوجائے گا، اتنی جلدی کیا ہے'' عالم نے فلٹر تک سگریٹ پی کر پھینکی اور دوسری سلگالی۔ وہ شاید نئے، بڑے اور اپنے مکان کے احساس سے کچھ دیر اور مسرور رہنا چاہتا تھا۔
سامان کی آخری کھیپ کے ساتھ آنے والے عاصم اور رخشندہ گرد آلود چہروں کے ساتھ کمرے میں وارد ہوئے اور ہاشم کے پہلو میں چارپائی پر بیٹھ گئے۔
''اﷲ بھلا کرے افضل چچا کا، ہمیں ملیر کے اس دڑبے سے اٹھا کر گلشن اقبال میں لے آئے، اتنے اچھے بڑے مکان میں'' ،''ہاں بھئی''،''صحیح کہا''،''سچ ہے۔'' تینوں بھائیوں اور بہن نے رخشندہ کی تائید کی۔
اب پتا نہیں بہن بھائیوں پر مشتمل اس گھرانے کو امریکا پلٹ افضل حسین کی سیال کی سُرخی، گداز کی گلابی مائل سفیدی اور ریشم کے سنہرے پن سے رنگین زندگی کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا، کہ آخری عمر میں افضل چچا نے خود کو نامۂ اعمال اور قبر کی سیاہی میں گِھرا پایا اور امریکا میں کمائے ہوئے ڈالروں کو نیک اعمال کا ذریعہ بنانے لگے، یا ان کی لاولدی کا ممنونِ احسان ہونا چاہیے، جس نے انھیں اپنا سب کچھ لُٹا دینے پر مائل کیا۔
اس ''سب کچھ'' میں سے زیادہ تر فلاحی اداروں کو گیا، ایک بڑی رقم ایک خیراتی اسپتال کے حصے میں آئی، لاکھوں روپے معذور بچوں کے ایک اسکول کو ملے، خیریت گزری کے نیکی کا یہ دریا خشک ہونے ہی کو تھا کہ افضل حسین کو اپنے چچا زاد نعیم حسین مرحوم ومغفور کی اولاد کا خیال آگیا، جو ملیر کی تنگ گلیوں میں واقع ایک ٹوٹے پھوٹے ڈبیا سے مکان میں زندگی گزار رہی تھی۔ تھوڑی بہت تعلیم حاصل کر کے چھوٹی موٹی نوکریوں سے گھر چلانے والے تین بھائی اور خانہ داری کرتی دو بہنیں، کنبے کے افراد دو کمروں اور صحنچی پر مشتمل کرائے کے مکان میں ایک دوسرے سے ٹکراتے اور دوسرے پر اس ٹکراؤ کا الزام عاید کرتے ہوئے کبھی لڑپڑتے تو کبھی صرف بڑبڑا کر معاملہ ختم کر دیتے۔
نئے مکان میں داخل ہونے سے کچھ دن پہلے ہی چالیس کے ہونے والے ہاشم سے اکتیس روکھے پھیکے برس گزار دینے والی رخشندہ تک پانچوں بہن بھائی معروف معنوں میں کنوارے تھے۔ محلے کی تنگ و تاریک کوڑے سے بھری گندی گلیوں اور تعمیر ہوتے مکانوں میں ان سب کے رشتے تو کئی بنے، لیکن دستاویزات کے خانگی زندگی کے خانے میں کنوارپن ہی درج رہا۔
گہرے اندھے کنوئیں میں پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے آکسیجن کھینچتی پانچ زندگیوں میں یکایک روشنی اور جھونکے در آئے، افضل چچا کی صورت میں۔
دستک پر فرخندہ کے زوردار ''کو ووووون'' کے جواب میں ''میں ہوں، تمھارا افضل چچا'' سن کر پورا کنبہ حیران رہ گیا۔
اس گھر میں ان کا تذکرہ اکثر ہوتا تھا، لیکن ان سے ملاقات کو ایک مدت گزر چکی تھی۔ افضل چچا کا امریکا جانا، ان کے ہاں دولت کی ریل پیل، گوری سے شادی، اولاد کا نہ ہونا اور پھر ان کی واپسی، خاندان والوں کی زبانی ہر خبر اس کنبے تک پہنچتی رہی تھی۔ وہ کتنی ہی بار پاکستان آئے اور گئے، لیکن اس گھر کا دروازہ ان کی دستک سے محروم ہی رہا۔ اور آج وہ حیران کنبے کے بیچوں بیچ گھر کی واحد کرسی پر بیٹھے اپنی آمد کا مقصد بیان کر رہے تھے۔
''اگر نعیم بھائی اس وقت فیس نہ دیتے تو مجھے اسکول سے نکال دیا جاتا، پھر کہاں کی پڑھائی اور کیسا امریکا۔۔۔'' اپنے باپ کے احسان کا ذکر سُن کر پانچوں کی گردنیں تن گئیں۔
''میں اس احسان کا بدلہ تو نہیں چُکا سکتا، مگر جو کر سکتا ہوں کروں گا، میں کچھ دنوں بعد تم سے رابطہ کرتا ہوں'' انھوں نے کناروں سے جھڑا کپ آدھی چائے پی کر رکھا اور جھریوں بھرا ہاتھ سب کے سروں پر پھیر کر روانہ ہوگئے۔
چند ماہ بعد پانچ رکنی کنبے کو چچا افضل کے ''جو کرسکتا ہوں'' کی سکت نے پہلے ششدر پھر نہال کر دیا۔ یوں لگا جیسے وہ سب ایک ساتھ سولہویں سال کا کوئی میٹھا سپنا دیکھ رہے ہوں۔
''یہ مکان تمھارا ہے'' چچا افضل نے دروازہ کھول کر کہا تو لگا جیسے ان پر بہشت کا دروازہ کھل گیا ہو، حساب کتاب کے بغیر۔ شہر کے صاف ستھرے اور خوش حال طبقے کے علاقے میں پانچ کمروں کا کشادہ مکان۔ جو خواب دیکھا بھی نہ تھا اس کی تعبیر مل گئی۔
''جب یہ علاقہ آباد ہو رہا تھا، تو یہ پلاٹ خریدا تھا۔ میں تو بھول بھی چکا تھا۔ کاغذات دیکھنے بیٹھا، تو یہ فائل بھی نکل آئی۔ تم لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا، سوچا اس پر مکان بنا کر تمھارے حوالے کردوں۔ اب یہاں آرام سے رہو۔ ابھی صرف سیمنٹ کرائی ہے۔ یہ لو پیسے، رنگ روغن کراتے رہنا۔''
ہاشم کے ہاتھ پر رقم کا بھاری لفافہ رکھ کر چچا افضل اپنے چہرے پر جنت کی بشارت کا سکون لیے کلفٹن کو سدھارے، جہاں دور تک پھیلی خالی کوٹھی ان کی منتظر تھی۔
''رنگ ونگ ہوتا رہے گا بڑے بھیا، اب تو وہیں چل کر رہتے ہیں۔'' فرخندہ کا مطالبہ بغیر کسی جرح کے منظور کر لیا گیا۔
اور اب یہ بہن بھائی نئے مکان کو سامان سے آراستہ کرنے میں مصروف تھے۔ لوہے کی دو الماریاں، پانچ چارپائیاں، اَماں کے جہیز میں آنے والے سوراخوں سے بھرے دو بڑے بڑے بکس، اکلوتی کرسی، کمیٹیاں ڈال کر خریدے جانے والا فریج اور ٹی وی، برتنوں کا انبار، سب اشیاء موزوں جگہ پر رکھ دی گئیں، مکان بھی پھر بھی خالی کا خالی لگتا تھا۔
''اب رنگ ہو جانا چاہیے'' شام کی چائے طشتری میں پھونکیں مار کر پیتے ہوئے عالم نے صدا لگائی۔
''ہونہہ۔۔۔۔کل صبح چل کر رنگ کے ڈبے لے آئیں گے، وہیں سے مزدور بھی پکڑ لیں گے'' ہاشم نے بھاری لفافے کا تصور کرتے ہوئے شاہانہ انداز میں کہا۔
''ہر کمرے میں الگ رنگ کراتے ہیں'' فرخندہ کی تجویز آئی۔
''پورے گھر میں ایک ہی رنگ ہونا چاہیے، لال'' عالم نے گویا حتمی فیصلہ سنایا۔ اسے اماں کی بات یاد آئی تھی، ''لال خوشی کی علامت ہوتا ہے''
''اونہہ۔۔۔ لال۔۔۔ جیسے گھر خون سے رنگا ہو، پورا مکان ہرا ہونا چاہیے، سبزے کا رنگ، خدا کا پسندیدہ، اسی لیے تو پیڑوں، پودوں، جھاڑیوں سب پر یہی رنگ چڑھا نظر آتا ہے۔'' عاصم نے فتویٰ دیا۔ اس کے تصور میں ابا کے الفاظ گونج اٹھے تھے۔
''پورے مکان پر سفید رنگ ہونا چاہیے، پاکیزگی کی علامت'' ہاشم کوابا کے دوست حاجی مجیب اﷲ کا فقرہ یاد آیا جو انھوں نے اسے سفید کرتے شلوار میں دیکھ کر کہا تھا۔
''کیا بات کر رہے ہیں بڑے بھیا، آج کرائیں گے کل گندا۔'' اماں نے ابا سے کہا تھا ناں،''اے تم سفید کپڑے مت پہنا کرو، پل میں گندے کرلیتے ہو'' رخشندہ کو یاد آیا۔
''فرخندہ نے صحیح کہا ہے۔ سارے رنگ کرالیتے ہیں، ایک پٹی لال، ایک ہری، ایک سفید، ایک نیلی، بڑا خوب صورت لگے گا ایمان سے۔'' رخشندہ کے تصور میں وہ دھنک اتر آئی جس کے بارے میں اماں نے بتایا تھا، جب اس نے ریڈیو پر ایک ڈراما سنتے ہوئے پوچھا تھا، ''اماں یہ جو کہہ رہا ہے دھنک، یہ کیا ہوتا ہے؟''
''ارے بھائی خون بھی تو اﷲ ہی کی تخلیق ہے، خون کے بغیر کوئی زندہ رہ سکتا ہے؟ رنگ تو لال ہی ہوگا گھر پہ'' عالم نے ضد پکڑ لی۔
''اماں کیا بے تکی بات کر رہے ہو، ہرا ہی ٹھیک ہے، میں نے کہہ دیا بس'' عاصم اپنی بات پر جم گیا۔
''ارے سفید۔۔۔''،''سفید تو کسی قیمت پر نہیں'' ہاشم کی بات فرخندہ نے کاٹ دی۔
لال، ہرا، سفید، رنگ، نہیں، بکواس، فضول، احمقانہ، جہالت۔۔۔ نوتعمیر شدہ مکان کا کشادہ ٹی وی لاؤنج مخصوص لفظوں کی تکرار سے گونج رہا تھا۔ لفظ تیکھے، ترش اور نوکیلے ہوتے جا رہے تھے۔ جیسی تیسی دلیلیں بھی گھٹنے ٹیک چکی تھیں، اب صرف عاجز غصے آپس میں ٹکرا رہے تھے۔
آخر اس اتفاق پر محفل برخاست ہوئی کہ ابھی رنگ ونگ چھوڑو، بعد میں دیکھا جائے گا۔
سیمنٹ کی گیلاہٹ خشک ہو گئی، سیاہی مائل مٹیالا رنگ سفید دھوپ میں جھلستی مٹی کی سفیدی اختیار کر گیا۔ مکان کی چھتیں دیواریں رنگ سے بے نیاز رہیں۔
لال، ہرا، سفید، سارے رنگ کے الفاظ تقریباً ہر روز ہی دیواروں سے سر پٹختے اور رات تک بے سدھ ہو کر کہیں پڑ رہتے، آئندہ کی بحث کے لیے تازہ دم ہونے کی خاطر۔
پھر کنبے میں ایک نئی بحث نے جنم لیا۔
''میرے کمرے کی دیوار میں کھڑکی ہونی چاہیے، ادھر سے اتنی اچھی فراٹے بھرتی ہوا آتی ہے۔'' کنبے کی کم عمر ترین فرد رخشندہ نے افضل چچا کا لفافہ سوچتے ہوئے ہاشم سے فرمائش کی۔
''نہیں نہیں، ادھر میدان کے ساتھ چائے کا ہوٹل ہے، وہاں مسلسل بے ہودہ گانے چلتے رہتے ہیں تیز آواز میں'' ہاشم سے پہلے عاصم بول پڑا۔
مایوسی اور امکانات کے دوراہے پر کھڑی رخشندہ کی عمر کو ہوا کے کسی تند جھونکے نے لڑکھڑا دیا تو کیا ہوگا؟ کھڑکی خدشات کا گہرا گڑھا تھی عاصم کے لیے۔
''مجھے نہیں پتا، بس کھڑکی بنوائیں'' رخشندہ کے سانولے گال پھول گئے۔
''عجیب بات کرتے ہو، گانوں کی وجہ سے کیا سارے کھڑکیاں دروازے بند کر دیں'' عالم نے بہن کی حمایت کی۔
''کچھ ہوا تو تم ذمے دار ہو گے؟'' عاصم نے چھوٹے بھائی کو مخاطب کیا۔
''کچھ ہوا کیا مطلب؟'' رخشندہ جل بُھن گئی۔
''کچھ نہیں، کھڑکی کی کوئی ضرورت نہیں، جتنی ہوا آتی ہے وہ کافی ہے ہمارے پھیپھڑوں کے لیے'' عاصم کا لہجہ حتمی تھا۔
''کھڑکی کا بعد میں سوچیں گے، پہلے رنگ تو ہو جائے'' ہاشم نے معاملہ التوا میں ڈالنے کی کوشش کی، جس کا نتیجہ رنگ پر نئے سرے سے بحث کی صورت میں نکلا۔
اب مکان کی چار دیواری میں لال، ہرے، سفید اور اس مناقشے سے جُڑے دیگر الفاظ کے ساتھ کھڑکی، گانے، بے ہودگی اور اس تنازعے سے وابستہ لفظ منڈلا رہے تھے۔
چچا افضل کا عطا کردہ لفافہ لوہے کی الماری میں اسی جگہ بند رکھا تھا، جہاں ہاشم اپنے ضروری کاغذات رکھتا تھا۔
''چچا افضل نے جو پیسے دیے تھے، وہ سب میں برابر بانٹ لیتے ہیں'' عالم نے فرش پر بچھی چادر پر رات کا کھانا کھانے کے بعد پہلی ڈکار مارتے ہوئے نیا شوشہ چھوڑا۔
''ہاں، ان پیسوں سے نیا فریج اور ٹی وی خرید لیتے ہیں، باقی تقسیم ہو جائیں'' فرخندہ عالم کے ساتھ تھی۔
''نیا ٹی وی کس لیے۔۔۔ اس کی اسکرین چھوٹی ہے۔۔۔ صاف نظر نہیں آتا'' ہاشم کے لہجے میں طنز کی کاٹ درد کی چبھن لیے ہوئے تھی۔
خاموشی چھا گئی۔
''آپ لوگ خبریں، ٹاک شو سنتے رہتے ہیں، فضولیات، ہم دونوں کو ڈرامے سننا ہوتے ہیں'' رخشندہ نے بہن کی بات واضح کی۔
''ہونہہ۔۔۔ ٹھیک ہے'' ہاشم مان گیا۔ کسی طرف سے کوئی اعتراض نہیں آیا۔
''ریموٹ کہاں ہے، خبریں آرہی ہوں گی'' عاصم کے ہاتھ چادر سے ننگے فرش تک ریموٹ ٹٹولنے لگے۔
''ارے کہاں ہے ریموٹ'' ناکامی برہمی میں ڈھلنے لگی۔
''فرخندہ ڈراما دیکھ رہی تھی، اسی نے رکھا ہوگا'' عالم نے نشان دہی کی۔
''یہیں تو رکھا تھا'' فرخندہ نے ہاتھوں سے اپنے اردگرد کی چادر تھتھپائی۔
پانچوں پیدائشی اندھے دس ہاتھوں سے ریموٹ ڈھونڈنے لگے۔