عوام میں نیک نامی بڑھانے کی خاطرشہزادہ چارلس نے بیٹوں کو بدنام کر دیا

برطانوی بڑے جمہوریت پسند بنتے ہیں مگر ساتھ ساتھ شاہی خاندان کو بھی پالتے ہیں۔عجیب تضاد ہے!

مستقبل کے برطانوی بادشاہ اپنے دامن پہ لگے دھبے مٹانے کے لیے کیا خودغرض ہو گئے؟…حیرت انگیز انکشافات۔ فوٹو: فائل

برطانیہ کی اٹھاسی سالہ ملکہ ایلزبتھ گور کنارے بیٹھی ہیں۔ کسی بھی وقت فرشتہ اجل ان کے سر پر آپہنچے گا۔ ان کی موت کے بعد 66 سالہ ولی عہد، شہزادہ چارلس دنیا میں سب سے اہم شاہی تخت پہ براجمان ہوں گے۔شہزادہ چارلس بظاہر ایک دانش ور، مدبر، فلسفی اور مخیر ہستی نظرآتے ہیں۔ لیکن ان کی ذات سے وابستہ تنازعات بھی کم نہیں اور حال ہی میں منظر عام پر آنے والے ایک سکینڈل نے ان کی شخصیت کو خاصا داغ دار کر ڈالا۔

ماہ فروری کے اوائل میں بی بی سی سے دو اقساط پر مشتمل دستاویزی پروگرام''Reinventing the Royals'' نشر ہوا۔ اس پروگرام نے انکشاف کیا کہ شہزادی ڈیانا کی موت کے بعد جب شہزادہ چارلس میڈیا میں شدید تنقید کا نشانہ بنے، تو انہوں نے اپنے دفاع میں ایسا قدم اٹھایا جس کی توقع ایک مہذب، شائستہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان سے ہرگز نہیں ہوتی۔

ہوا یہ کہ شہزادہ چارلس ملازمین کے ذریعے اخبارات میں اپنے ہی بچوں کو بدنام کرنے والی خبریں چھپوانے لگے۔مگر برطانوی عوام پر وہ خبریں یہ تاثر چھوڑتیں کہ ''ہمدرد اور شفیق'' باپ بن ماں کے بچوں کی عمدہ خبر گیری کررہا ہے۔ ان خبروں کا مقصد یہ تھا کہ برطانیہ میں شہزادہ چارلس کا ''مثبت امیج'' ابھارا جائے۔نیز دوسری شادی کی راہ ہموار ہو جائے۔

یہ انہونی ہی ہے کہ ایک باپ اپنے دفاع میں بچوں کو بطور چارہ استعمال کرے۔ ورنہ عام طور پر مشاہدہ یہ ہے کہ معصوم سے چڑیا چڑے اپنے بچوں کی حفاظت کیلئے بلی یا چیل سے بھی جابھڑتے ہیں۔ انسان ہو یا حیوان، وہ اپنے بچوں کی خاطر بیش بہا قربانیاں دیتا اور انہیں ہر دکھ و ستم سے محفوظ رکھنے کی جدوجہد کرتا ہے۔

البتہ خود غرض اور سنگ دل لوگ ہی اس کلیّے سے مستثنیٰ ہیں۔ ایک بار ایک بدو نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ننھے بچے کو چوم رہے ہیں۔ وہ بدو بہت حیران ہوا۔ آپؐ سے کہنے لگا ''میرے آٹھ بچے ہیں اور میں نے آج تک کسی کا بوسہ نہیں لیا۔''



حضور اکرمﷺ نے سرد آہ بھری اور فرمایا: ''اگر تم محبت اور رحم سے عاری ہو تو اس کا کوئی علاج نہیں۔''

یہ خود غرضی ہی ہے جو انسان میں بھلائی کے جذبات ختم کرتی اور اسے بدی کرنے پر اکساتی ہے۔ مشہور برطانوی مدبر و سابق وزیراعظم ولیم گلیڈ سٹون کا قول ہے: ''انسان کے لیے سب سے بڑی لعنت خود غرض ہونا ہے۔'' گلیڈسٹون کو علم نہ تھا کہ ایک دن اس کا آقا بھی اسی بیماری کا نشانہ بننے والا ہے۔

شہزادہ چارلس کی خود غرضانہ داستان کا آغاز 1971ء میں ہوتا ہے جب کامیلا نامی ایک خوبصورت لڑکی سے ان کی ملاقات ہوئی۔ دونوں محبت میں گرفتار ہوگئے اور ملنے جلنے لگے۔ ان کا معاشقہ تقریباً ڈیڑھ سال چلا۔دلچسپ بات یہ کہ کامیلا اسی دوران ایک اور جوان، اینڈریو پارکر سے بھی عشق لڑا رہی تھی۔ جب ملکہ ایلزبتھ نے کامیلا کو بطور بہو قبول کرنے سے انکار کیا، تو اس نے اینڈریو سے شادی کرلی۔ تاہم شہزادہ چارلس اور کامیلا ملتے جلتے رہے۔

1981ء میں شہزادے نے حسین و جمیل شہزادی ڈیانا سے شادی کرلی۔ تاہم شادی کے بعد بھی شہزادے نے کامیلا سے ملنا جلنا جاری رکھا۔ شہزادی ڈیانا اپنی دلچسپیوں میں مگن رہنے والی لڑکی تھی اور وہ سنجیدہ مزاج شہزادے سے ذہنی مطابقت نہ کرسکی۔ چناں چہ شہزادہ چارلس اپنی محبوبہ کی سمت جھکتا چلا گیا۔

1992ء میں آخر کار انکشاف ہوا کہ شہزادہ چارلس اور کامیلا نے شادی شدہ اور بال بچے ہونے کے باوجود ناجائز تعلقات استوار کررکھے ہیں۔ اس انکشاف نے برطانیہ بھر میں شہزادے اور کامیلا کو بدنام کردیا۔ شہزادے کو ''دھوکے باز شوہر'' اور بُرے باپ'' کے القابات سے یاد کیا جانے لگا۔ اسی سکینڈل کے باعث دسمبر 1992ء میں ناراض شہزادی ڈیانا نے شاہی محل کو خیر باد کہہ دیا۔



بیگم کے ساتھ بے وفائی نے نہ صرف شہزادہ چارلس کی نیک نامی کو نقصان پہنچایا بلکہ برطانوی شاہی خاندان بھی متاثرہوا۔ برطانیہ میں عام لوگ سوال کرنے لگے کہ ان کا پیسہ آوارہ مزاج اور بگڑے شہزادوں کے اللّے تللّوں پر کیوں خرچ ہوتا ہے؟

1996ء میں شہزادہ چارلس نے برطانوی عوام میں اپنا امیج بہتر بنانے کی خاطر ایک پبلک ریلیشنگ آفیسر، مارک بولینڈ کی خدمات حاصل کرلیں۔ شہزادے نے اسے اپنا پرائیویٹ سیکرٹری بنایا اور یہ مشن سونپا کہ وہ عام برطانویوں میں اس کے لیے محبت و ہمدردی کے جذبات پروان چڑھائے۔مارک بولینڈ ایک چالاک و مکار شخص تھا۔ وہ اپنے تعلقات کے بل پر برطانوی و یورپی میڈیا میں شہزادی ڈیانا کے خلاف افواہیں پھیلانے لگا۔ اس نے سعی کی کہ شہزادی کو ایک کھلنڈری اور آوارہ مزاج لڑکی کے روپ میں پیش کیا جائے۔ شہزادی کے خلاف یہ میڈیا مہم جاری تھی کہ اگست 1997ء میں لیڈی ڈیانا کار حادثے میں ہلاک ہوگئی۔ (برطانیہ میں یہ خیال عام ہے کہ شاہی خاندان ہی نے شہزادی کو قتل کرایا)۔

اب مقتولہ کو بدنام کرنے کے لیے مارک بولینڈ کو کھلی چھٹی مل گئی۔ اس نے پینی جو نور ( Penny Junor) نامی برطانوی ادیبہ کی خدمات حاصل کیں اور 1998ء میں اس سے ایک کتاب''چارلس:ستم رسیدہ یا ولن''( Charles: Victim or Villain )لکھوا ئی۔ اس کتاب میں شہزادہ چارلس تقریباً فرشتے کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ جبکہ لیڈی ڈیانا کو بطور حرافہ پیش کیا گیا۔کتاب لکھنے کیلئے مارک بولینڈ ہی نے پینی جونور کو مواد مہیا کیا۔ کتاب کی رو سے لیڈی ڈیانا نے پہلے شوہر کو دھوکہ دیا اور پھر دوسرے مردوں سے ناجائز تعلقات قائم کرنے لگی۔


جب 1998ء میں یہ کتاب شائع ہوئی تو برطانوی عوام نے اس کے خلاف جلوس نکالے اور غم و غصّے کا اظہار کیا۔ انہیں یقین تھا کہ کتاب کے ذریعے ان کی چہیتی شہزادی کو بدنام کیا جارہا ہے۔ راتوں رات پینی جونور برطانیہ کی قابل نفرت ادیبہ بن گئی۔ مگر بولینڈ بذریعہ کتاب کئی برطانوی مردوزن کے دلوں میں لیڈی ڈیانا سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کامیاب رہا۔ وہ یہی سمجھنے لگے کہ بچارہ شہزادہ چارلس ایک عیار و مکار لڑکی کے جال میں پھنس گیا۔ بولینڈ برطانویوں میں اسی قسم کے جذبات و خیالات پیدا کرنا چاہتا تھا۔1998ء ہی میں باپ کے دباؤ پر 16 سالہ شہزادہ ولیم نے اس کی محبوبہ، کامیلا سے پہلی ملاقات کی۔ یہ بہت حساس معاملہ تھا، اسی لیے ملاقات کو خفیہ رکھا گیا۔ شہزادہ ولیم جانتا تھا کہ اس کی ماں کامیلا سے نفرت کرتی تھی۔ اسی باعث شہزادہ طوعاً کراہاً ہی کامیلا سے ملاقات کرنے پر آمادہ ہوا۔

لیکن مارک بولینڈ نے اس ملاقات کی تفصیل مشہور برطانوی اخبار، دی سن کو فراہم کردیں۔ لہٰذا اخبارنے خوب دھوم دھڑکے سے یہ خبر شائع کی۔ شہزادہ چارلس دراصل یہ خبر دے کر برطانوی عوام پر یہ تاثر چھوڑنا چاہتے تھے کہ ان کے بیٹوں نے کا میلا کو قبول کرلیا ہے۔



اُدھر شہزادہ ولیم کا مارے غصّے کے برا حال ہو گیا۔ اسے سمجھ نہیں آئی کہ ایک خفیہ ملاقات کی تفصیل اخبار تک کیسے پہنچ گئی۔ وہ اپنے ملازمین سے یہی پوچھتا رہا ''یہ کیسے ہوا؟ یہ کیسے ہوا؟'' شہزادے کو بہت دیر بعد احساس ہوا کہ یہ خبر اس کے باپ نے ''لیک'' کرائی۔ مدعا یہ تھا کہ برطانوی عوام میں شہزادہ چارلس کے لیے مثبت جذبات ابھارے جاسکیں۔

ظاہر ہے، جب بیٹے ماں کی سوکن کو قبول کرلیتے تو شہزادہ چارلس کا دامن صاف ہوجاتا۔ اس امر سے یہی عیاں ہوتا کہ دوران شادی شہزادے نے کامیلا سے ناجائز تعلقات نہیں رکھے اور یہ محض لیڈی ڈیانا کی غلط فہمی تھی۔ مارک بولینڈ کے مشورے سے شہزادہ چارلس برطانوی عوام میں یہی تاثر پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ ولی عہد کو پوتر و پاک ثابت کرنے کی مہم کا اگلا مرحلہ 2000ء میں سامنے آیا۔ مارک بولینڈ نے بدنام زمانہ برطانوی اخبار، نیوز آف دی ورلڈ کو یہ چشم کشا خبر فراہم کی کہ شہزادہ ہیری منشیات استعمال کررہا ہے۔ اس خبر کے بدلے نیوز آف دی ورلڈ سے کہا گیا کہ وہ شہزادہ چارلس کی تعریف و توصیف میں اداریہ لکھے۔ اور ایسا ہی ہوا۔

نیوز آف دی ورلڈ نے شہزادہ ہیری کی نشے بازی کو شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا۔ اسے بگڑا ہوا شہزادہ بتایا گیا ۔ خبر کے مطابق جب شہزادہ چارلس کو اس بابت علم ہوا، تو وہ بیٹے کو فوراً ہسپتال لے گئے۔ اس کا علاج کرایا اور یوں اپنی پدرانہ ذمے داری بخوبی انجام دی۔ اسی موضوع پر اخبار نے اداریہ بھی لکھا اور شہزادہ چارلس کو ''بہترین اور مثالی'' باپ قرار دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ ماں کی موت سے دل برداشتہ ہوکر شہزادہ ہیری نے نشے میں پناہ ڈھونڈی۔ وہ دنیا مافیا سے ماورا ہوکر غم غلط کرنے لگا۔ شہزادہ چارلس کو شروع ہی میں پتا چل گیا کہ بیٹا نشے باز ہوگیا ہے لیکن وہ بے توجہی برتتے رہے۔ آخر ملکہ برطانیہ کی سرزنش پر وہ شہزادہ ہیری کو منشیات کی علاج گاہ لے کر گئے۔یوں شہزادہ چارلس نے میڈیا کے ذریعے اپنی شخصیت پاک باز ثابت کرنے کی خاطر دوسرے بیٹے کو بھی استعمال کیا اور کامیاب رہے۔ یہ واقعہ شہزادہ چارلس کو ایک خودغرض اور شہرت طلب انسان کے روپ میں پیش کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے دامن پر لگے گندگی کے چھینٹے دھونے کی خاطر اپنے ہی بچوں پر کیچڑ اچھال دیا۔

مارک بولینڈ 2002ء تک شہزادہ چارلس کا قریب ترین مشیر رہا۔ ان سات برس میں بولینڈ کی یہی سعی رہی کہ میڈیا میں جھوٹی سچی خبریں دے کر نہ صرف شہزادے بلکہ شاہی خاندان کا متاثرہ امیج بہتر بنایا جائے۔ اسی کی کوششوں سے برطانوی عوام رفتہ رفتہ ان زیادتیوں کو بھلا بیٹھے جو شہزادے اور ملکہ برطانیہ نے لیڈی ڈیانا پر روا رکھی تھیں۔

جب مطلع صاف ہوگیا اور بدنامی کے سبھی داغ مٹ چکے، تو 2005ء میں شہزادہ چارلس نے کامیلا سے شادی کرلی۔ یوں شہزادے صاحب اپنے مشیروں کے تعاون سے منزل مقصود پانے میں کامیاب رہے۔ مگر اس دوران انہوں نے خود غرضی کے مارے کئی اعلیٰ اقدار بھی پیروں تلے روند ڈالیں۔

برطانوی عوام نے کیا کہا!

بی بی سی کی دستاویزی فلمReinventing the Royalsسے افشا ہوا کہ برطانوی شاہی خاندان اندرون و بیرون ملک اپنی نیک نامی و شہرت بڑھانے کے لیے میڈیا سے بھر پور مدد لیتا ہے۔ گویا اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھنے کی خاطر میڈیا شاہی خاندان کے واسطے کارگر ہتھیار بن چکا۔ تاہم کبھی کبھی کچھ حقائق سامنے لے آتا ہے جیسے درج بالا پروگرام سے عیاں ہوئے۔ عام برطانوی اب کھلے عام کہنے لگے ہیں: ''ہم کیا خون پسینے کی اپنی کمائی شاہی خاندان پر اس لیے خرچ کرتے ہیں کہ شہزادے رنگ رلیاں مناسکیں؟ اب یہ دھوکے بازی نہیں چلے گی۔''

یاد رہے، برطانوی شاہی خاندان بنیادی طور پر عوام کے پیسوں سے اپنا شاہانہ کروفر برقرار رکھے ہوئے ہے۔ گو خاندان کی آمدن کے نجی ذرائع بھی ہیں مگر وہ کچھ خاص نہیں۔ اس سال بھی برطانوی عوام اپنے شاہی خاندان کو ''37.9 ملین پاؤنڈ'' تقریباً پونے چھ ارب روپے عطا کریں گے تاکہ وہ عالی شان محلات میں آرام و آسائش سے رہ سکے۔(یاد رہے،پاکستان کا موجودہ بجٹ چار کھرب روپے کا تھا۔)برطانوی بڑے جمہوریت پسند بنتے ہیں مگر ساتھ ساتھ شاہی خاندان کو بھی پالتے ہیں۔عجیب تضاد ہے!



شہزادہ اینڈریو کا اسکینڈل

لگتا ہے ،اسیکنڈل ہر دم برطانوی شاہی خاندان کے تعاقب میں رہتے ہیں۔ حال ہی میں انکشاف ہوا کہ ملکہ برطانیہ کا دوسرا بیٹا، شہزادہ اینڈریو اپنے امریکی دوستوں کے ساتھ رنگ رلیوں میں مصروف رہتا اور کمر عمر لڑکیوں سے لطف اٹھاتا تھا۔اس چشم کشا داستان کا مرکزی کردار امریکی سرمایہ کار، جیفرے اپسٹین ہے۔ جب اسکے پاس بے پناہ دولت آئی تو یہ عیش و عشرت میں پڑگیا۔ یہ نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کو ملازمت دیتا اور پھر ان کی بے حرمتی کرتا اور فحش حرکات کراتا۔یہی نہیں، وہ ملازم لڑکیوں کو مجبور کرتا کہ وہ اپنا آپ اسکے دوستوں کی خدمت میں پیش کردیں۔

ایک ایسی ہی لڑکی ورجینا رابرٹس بھی تھی۔اس نے امریکی عدالت میں بیان دیا کہ اپسٹین کے دوست، شہزادہ اینڈریو نے اس کیساتھ تین مختلف مواقع پر وقت گزارا۔ یہ عمل ورجینا کو مجبوراً کرنا پڑا کیونکہ اسے خوف تھا، انکار کی صورت میں اپسٹین اسے ملازمت سے نکال دیگا۔اس وقت ورجینا صرف 17 سال کی تھی۔ ایک نابالغ لڑکی سے تعلق قائم کرنے پر شہزادہ اینڈریو کو برطانوی عوام کی لعن و طعن کا سامنا کرنا پڑا۔
Load Next Story