صرف حکمراں نہیں ہم بھی چور ہیں
اے مسلم اپنی حالت پر ترس کھاو۔ آخر کب تک ایک دوسرے پرہی ظلم کرتے رہوگے؟
حافظ آباد، گوجرانوالہ سڑک پر گہرے کھڈوں کے باعث ایک آئل ٹینکر الٹ جاتا ہے۔ آئل ٹینکر میں موجود 40 ہزار لیٹر ڈیزل سڑک پر بہنا شروع ہوتا ہے۔ لوگ کونے کھدروں سے نکلتے ہیں اور بالٹیاں، لوٹے اور گلاس پکڑے ڈیزل پر لپک پڑتے ہیں۔ سڑک کے ایک کونے پر پڑا زخموں سے نڈھال ڈرائیور دیکھتا ہے کہ شاید لوگ اُس کی مدد کے لیے جمع ہورہے ہیں، لیکن لوگ تو ڈیزل لوٹنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لیے جمع ہورہے تھے۔اور ڈیزل کی لوٹ مار گورنمنٹ اور ریسکیو عملے کے پہنچنے تک جاری رہتی ہے۔
یہ چھوٹا سا واقعہ بحیثیت قوم ہماری نقاب کشائی کے لیے کافی ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہوا، اگر آپ تھوڑی سی تحقیق کریں گے تو آپ کو ایسے واقعات کا ایک تسلسل ملے گا۔ آپ کو ہر آدمی اپنی رسائی اور پہنچ کے مطابق لوٹ مار کرتا اور کرپٹ ملے گا۔ کیا آپ نے سیاسی تقریبات میں کھانے پر لوگوں کو ٹوٹتے ہوئے مناظر نہیں دیکھے؟ ایمان سے بتائیے گا میرے الفاظ شاید سخت لگیں لیکن کیا ایسے کوئی انسان کھانے پر ٹوٹتے ہیں یا جانور؟
جن دنوں پاکستان میں سیلاب آیا تھا کیا آپ نے ایسے واقعات اخبارات میں نہیں پڑھے کہ کچھ لوگ پکڑے گئے ہیں جو ریسکیوعملے کے بھیس میں لوٹ مار کرتے رہے تھے۔ آپ جو دودھ پیتے ہیں وہ خالص ہے کیا؟ سنا ہے چین میں بچوں کی دودھ کی کمپنی میں ملاوٹ ثابت ہوگئی، اور پھر نہ صرف وہ کمپنی بند ہوئی بلکہ اُس کے مالکان کو سزائے موت ہوئی تھی۔
ارے سزائے موت سے یاد آیا ہم اپنے ملک میں انصاف کا بہت رونا روتے ہیں، ہم خود قانون کی کتنی پاسداری کرتے ہیں اِس بات کا حساب اِسی سے لگالیں کہ کوئی مائی کا لعل ٹریفک وارڈن ہمارا چالان نہیں کرسکتا۔ جب بھی کوئی ٹریفک وارڈن ایک معمولی موٹر سائیکل والے کو اشارے سے روکتا ہے تو وہ فوراً اپنی جیب سے موبائل نکال کر اپنے کسی مامے، چاچے غرض کسی بڑے افسر یا سیاستدان کا نمبر ملاتا ہے اور اِس وارڈن کو ایسی جھاڑ پڑتی ہے کہ وہ پھر سارا دن سڑک پر کھسیانا سا ہوکر خاک اپنے حلق میں انڈیلتا رہتا ہے مگر دوبارہ کسی موٹرسائیکل والے کو نہیں روکتا ہے۔ کوئی ٹریفک وارڈن ہمارا 100 روپے کا بھی چالان کردے تو ہم اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں، لیکن اگر ہمارا چھوٹا بھائی یا بیٹا گھر آکر یہ بتائے کہ وہ ٹریفک وارڈن کو چکما دے آیا ہے تو ہم اُس کو سمجھانے اور ایسا منع کرنے کے بجائے اُس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ جب ہم اپنے گھروں میں بچوں کی ایسی تربیت کرتے ہیں، تو پھر انصاف کے لئے رونا بے کار ہے۔
یہ بات ایسے ہی نہیں کہہ دی گئی کہ معاشرے کفر کے ساتھ تو چل سکتے ہیں لیکن ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ لیکن آفرین ہو ہم پر کہ ہم ظلم کے اِس معاشرے کو گھسیٹتے چلے جارہے ہیں اور ملک کو 18 کروڑ زندہ لاشوں کا قبرستان بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہم نے اپنے پاک وطن کو وہ خطہ بنادیا ہے جہاں عبادت گاہوں میں بم پھٹتے ہیں، جہاں اونچے محلات سے لے کر جھگیوں والے تک سب نوچنے والے ہیں، جسے جہاں موقع ملتا ہے وہ ہاتھ دکھاتا ہے، جس کی اوقات 10 روپے لوٹنے کی ہے وہ 10 روپے لوٹتا ہے، جس کی اوقات 10 کروڑ لوٹنے کی ہے وہ 10 کروڑ لوٹتا ہے ۔
سڑکوں پر ناجائز تجاوزات ظلم کی بدترین قسم ہے لیکن ہمارے ہاں اس برائی کو برائی ہی نہیں سمجھا جاتا۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے گا جب بھی آپ عید کی نماز پڑھنے جاتے ہیں آپکو نماز سے زیادہ اپنی جوتی کی فکر نہیں ہوتی؟ ہمارے ہاں آج بھی بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا، آج بھی بچوں کی شادیاں دیر سے کی جاتی ہیں۔ یہ بھی ظلم کی ایک بدترین مثال ہے جو صرف ہمارے معاشرے میں ملتی ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جہاں قبروں کی زمینوں تک پر قبضے کرکے پلازے بن جاتے ہیں۔ ہم فرقہ واریت کے نام پر ایک دوسرے کی گردنیں تک کاٹنے کو تیار ہوجاتے ہیں کیونکہ ہمیں لگتا ہے ہمارا ایمان خطرے میں پڑگیا ہے، لیکن محلے میں کوڑے کے ڈھیر لگے رہیں اور ہم خاموش رہتے ہیں کیونکہ ہم صفائی کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں، حالانکہ صفائی نصف ایمان ہے اور یہ آپ ﷺ کی واضح حدیث ہے لیکن محلوں چوکوں میں گندگی پھیلاتے ہوئے ہمارے ایمان کو ذرا بھی نقصان نہیں ہوتا۔
یہ ہمیں کیا ہوگیا؟ ہم ایسے تو نہ تھے؟ ہمارے بزرگوں اور اسلام کا یہ سبق تو ہرگز نہیں تھا۔تاریخ میں جن مسلمانوں کا تذکرہ پڑھا تھا ان لوگوں کی پناہ میں آکر تو غیر مسلم بھی خود کو محفوظ تصور کرتے تھے۔ لیکن ہمارے ہاں تو مسلمان خود کو مسلمان کی پناہ میں محفوظ نہیں سمجھتا۔ تاریخ کی کتابوں میں جن مسلمان حکومتوں کے بارے میں سُنا تھا اُن کے دور میں تو ایک عورت زیورات سے لدی تنہا سفر کرتی تھی، کوئی آنکھ اُٹھا کر اُس کی طرف نہیں دیکھتا تھا لیکن ہمارے ہاں تو تنہا عورت دور کی بات تنہا مرد رات کو سفر نہیں کرسکتا ہے۔ اے مسلم اپنی حالت پر ترس کھاو۔ آخر کب تک ایک دوسرے پرہی ظلم کرتے رہوگے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ چھوٹا سا واقعہ بحیثیت قوم ہماری نقاب کشائی کے لیے کافی ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہوا، اگر آپ تھوڑی سی تحقیق کریں گے تو آپ کو ایسے واقعات کا ایک تسلسل ملے گا۔ آپ کو ہر آدمی اپنی رسائی اور پہنچ کے مطابق لوٹ مار کرتا اور کرپٹ ملے گا۔ کیا آپ نے سیاسی تقریبات میں کھانے پر لوگوں کو ٹوٹتے ہوئے مناظر نہیں دیکھے؟ ایمان سے بتائیے گا میرے الفاظ شاید سخت لگیں لیکن کیا ایسے کوئی انسان کھانے پر ٹوٹتے ہیں یا جانور؟
جن دنوں پاکستان میں سیلاب آیا تھا کیا آپ نے ایسے واقعات اخبارات میں نہیں پڑھے کہ کچھ لوگ پکڑے گئے ہیں جو ریسکیوعملے کے بھیس میں لوٹ مار کرتے رہے تھے۔ آپ جو دودھ پیتے ہیں وہ خالص ہے کیا؟ سنا ہے چین میں بچوں کی دودھ کی کمپنی میں ملاوٹ ثابت ہوگئی، اور پھر نہ صرف وہ کمپنی بند ہوئی بلکہ اُس کے مالکان کو سزائے موت ہوئی تھی۔
ارے سزائے موت سے یاد آیا ہم اپنے ملک میں انصاف کا بہت رونا روتے ہیں، ہم خود قانون کی کتنی پاسداری کرتے ہیں اِس بات کا حساب اِسی سے لگالیں کہ کوئی مائی کا لعل ٹریفک وارڈن ہمارا چالان نہیں کرسکتا۔ جب بھی کوئی ٹریفک وارڈن ایک معمولی موٹر سائیکل والے کو اشارے سے روکتا ہے تو وہ فوراً اپنی جیب سے موبائل نکال کر اپنے کسی مامے، چاچے غرض کسی بڑے افسر یا سیاستدان کا نمبر ملاتا ہے اور اِس وارڈن کو ایسی جھاڑ پڑتی ہے کہ وہ پھر سارا دن سڑک پر کھسیانا سا ہوکر خاک اپنے حلق میں انڈیلتا رہتا ہے مگر دوبارہ کسی موٹرسائیکل والے کو نہیں روکتا ہے۔ کوئی ٹریفک وارڈن ہمارا 100 روپے کا بھی چالان کردے تو ہم اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں، لیکن اگر ہمارا چھوٹا بھائی یا بیٹا گھر آکر یہ بتائے کہ وہ ٹریفک وارڈن کو چکما دے آیا ہے تو ہم اُس کو سمجھانے اور ایسا منع کرنے کے بجائے اُس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ جب ہم اپنے گھروں میں بچوں کی ایسی تربیت کرتے ہیں، تو پھر انصاف کے لئے رونا بے کار ہے۔
یہ بات ایسے ہی نہیں کہہ دی گئی کہ معاشرے کفر کے ساتھ تو چل سکتے ہیں لیکن ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ لیکن آفرین ہو ہم پر کہ ہم ظلم کے اِس معاشرے کو گھسیٹتے چلے جارہے ہیں اور ملک کو 18 کروڑ زندہ لاشوں کا قبرستان بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہم نے اپنے پاک وطن کو وہ خطہ بنادیا ہے جہاں عبادت گاہوں میں بم پھٹتے ہیں، جہاں اونچے محلات سے لے کر جھگیوں والے تک سب نوچنے والے ہیں، جسے جہاں موقع ملتا ہے وہ ہاتھ دکھاتا ہے، جس کی اوقات 10 روپے لوٹنے کی ہے وہ 10 روپے لوٹتا ہے، جس کی اوقات 10 کروڑ لوٹنے کی ہے وہ 10 کروڑ لوٹتا ہے ۔
سڑکوں پر ناجائز تجاوزات ظلم کی بدترین قسم ہے لیکن ہمارے ہاں اس برائی کو برائی ہی نہیں سمجھا جاتا۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے گا جب بھی آپ عید کی نماز پڑھنے جاتے ہیں آپکو نماز سے زیادہ اپنی جوتی کی فکر نہیں ہوتی؟ ہمارے ہاں آج بھی بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا، آج بھی بچوں کی شادیاں دیر سے کی جاتی ہیں۔ یہ بھی ظلم کی ایک بدترین مثال ہے جو صرف ہمارے معاشرے میں ملتی ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جہاں قبروں کی زمینوں تک پر قبضے کرکے پلازے بن جاتے ہیں۔ ہم فرقہ واریت کے نام پر ایک دوسرے کی گردنیں تک کاٹنے کو تیار ہوجاتے ہیں کیونکہ ہمیں لگتا ہے ہمارا ایمان خطرے میں پڑگیا ہے، لیکن محلے میں کوڑے کے ڈھیر لگے رہیں اور ہم خاموش رہتے ہیں کیونکہ ہم صفائی کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں، حالانکہ صفائی نصف ایمان ہے اور یہ آپ ﷺ کی واضح حدیث ہے لیکن محلوں چوکوں میں گندگی پھیلاتے ہوئے ہمارے ایمان کو ذرا بھی نقصان نہیں ہوتا۔
یہ ہمیں کیا ہوگیا؟ ہم ایسے تو نہ تھے؟ ہمارے بزرگوں اور اسلام کا یہ سبق تو ہرگز نہیں تھا۔تاریخ میں جن مسلمانوں کا تذکرہ پڑھا تھا ان لوگوں کی پناہ میں آکر تو غیر مسلم بھی خود کو محفوظ تصور کرتے تھے۔ لیکن ہمارے ہاں تو مسلمان خود کو مسلمان کی پناہ میں محفوظ نہیں سمجھتا۔ تاریخ کی کتابوں میں جن مسلمان حکومتوں کے بارے میں سُنا تھا اُن کے دور میں تو ایک عورت زیورات سے لدی تنہا سفر کرتی تھی، کوئی آنکھ اُٹھا کر اُس کی طرف نہیں دیکھتا تھا لیکن ہمارے ہاں تو تنہا عورت دور کی بات تنہا مرد رات کو سفر نہیں کرسکتا ہے۔ اے مسلم اپنی حالت پر ترس کھاو۔ آخر کب تک ایک دوسرے پرہی ظلم کرتے رہوگے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔