آؤ الیکشن الیکشن کھیلیں
چلیں ملک میں ہونے والے عام انتخابات ہی کو ذرا کھنگال دیکھتے ہیں۔
گزشتہ ہر جنرل الیکشن کے بعد اور خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف کے دھرنوں کے دوران الیکشن کے منصفانہ اور شفاف نہ ہونے پر اتنا واویلہ ہوا کہ ملک کا ہر پیر و جواں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ کیا ہم واقعی بددیانتی کو طرز زندگی کے طور پر اپنا چکے ہیں۔ اپنے روزمرہ کو اور حکمرانوں کے چلن کو دیکھئے تو شرمندگی سی محسوس ہونے لگتی ہے لیکن پھر حوصلہ پکڑ لیتے ہیں کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
چلیں ملک میں ہونے والے عام انتخابات ہی کو ذرا کھنگال دیکھتے ہیں۔ پچھلے دو سال کے دوران بلاشبہ لوگوں کے ضمیر اور شعور نے انگڑائی لی ہے اور اپنا محاسبہ کرنے کی سوچ خاص طور پر نوجوان نسل میں بیدار ہوئی ہے۔ دیے سے دیا جلتا ہے۔
شاید بہت سے دیے جل جائیں لیکن جنرل الیکشنوں کی بات بھی ہو جائے تو کوئی ہرج نہیں کیونکہ ان الیکشنوں میں چنے گئے نمائندوں نے اپنے علاقے اور ووٹروں کے لیے فلاح و بہبود اور ترقی کے منصوبے بنا کر ان کی صحت، تعلیم، روزگار، حقوق اور ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنے کے فرائض کی ذمے داریاں ادا کرنا ہوتی ہیں۔
ان نمائندوں کے چناؤ میں اکثریتی ووٹ فیصلہ کن ہوتا ہے لیکن اکثریت حاصل کرنے کے لیے بقول عمران خاں جو ہتھکنڈے استعمال کرنے کی ریت پڑ چکی ہے وہی آج کے کالم کا اصل موضوع ہے اور ان ھی کا پردہ چاک کرنا اس وقت مطلوب ہے۔ اگر الیکشن Fair & Free ہو رہے ہوتے تو اس تحریر کی ضرورت ہی نہ تھی لہٰذا سرسری طور پر ذکر ہو گا کہ ہمارے عام انتخابات عموماً کس طرح Conduct ہوتے ہیں۔ یہاں تنقید یا تنقیص نہیں طریق کار کا ذکر مقصود ہے۔
عام انتخابات کے انعقاد سے پہلے اولین کام حلقہ بندیاں یعنی Delimitation ہوتا ہے جو قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقے کی جغرافیائی حدود کا تعین کرتا ہے۔ اسی طرح مقامی حکومت کے انتخاب کے لیے بھی حلقہ بندی کی جاتی ہے۔ حکومت وقت کے آئندہ انتخاب کے امیدوار اپنے ووٹروں کی اکثریت والے علاقوں کی حلقہ بندیوں میں توڑ پھوڑ کر اپنی Constituncy کو مضبوط کرنے کا کھیل کھیلتے ہیں۔ اسے اولین دھاندلی کا نام دیا جا سکتا ہے یعنی دھاندلی کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے۔
دھاندلی کا دوسرا قدم حکومت کا اپنے امیدواروں کو مختلف مقامی منصوبوں کے لیے اور کچھ مال اڑانے کے لیے ایمرجنسی فنڈز جاری کرنا ہوتا ہے جو الیکشن کی تاریخوں سے چند ہفتے قبل عمل میں لایا جاتا ہے۔ الیکشن کے امیدوار یہ فنڈ دراصل بطور رشوت استعمال کرتے ہیں۔
خیر سے ہم نے ملک کو پولیس اسٹیٹ بنا رکھا ہے اس لیے الیکشن سے پہلے حکومت اپنے امیدواروں کی حسب خواہش پولیس ملازمین کی پوسٹنگز ٹرانسفرز کرتی ہے تا کہ وہ ان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ووٹروں اور مخالف عناصر کے خلاف خاطرخواہ کارروائی کریں جس کا سلسلہ الیکشن کے دن جاری رہتا ہے۔ دھاندلی کا یہ ایک موثر طریقہ ہے اور مجرب ہے۔
الیکشن کے مراحل میں پولنگ اسکیم کی تیاری اور تکمیل ایک اہم اور ابتدائی قدم ہے جس میں ریٹرننگ آفیسر پولنگ اسٹیشن کے مقامات کا تعین کر کے کسی سرکاری عمارت یا اسکول بلڈنگ کو پولنگ اسٹیشن نوٹیفائی کرتا ہے۔
کسی عمارت کو زبردستی پولنگ اسٹیشن بنوانا اور مخالف کی اکثریتی علاقے والی عمارت کو خارج کروانا ایک الیکشن ٹرِک ہے کیونکہ ووٹر نزدیک جا کر ووٹ ڈالنے میں آسانی پاتا ہے لیکن حزب اقتدار کا بااثر امیدوار مخالف کی اکثریت والے علاقے کو دشوار پولنگ اسٹیشن کی طرف پھینک کر مخالف کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا حربہ استعمال کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
عام انتخابات کرانے کی موقع یعنی پولنگ اسٹیشن پر ذمے داری پریذائیڈنگ آفیسر اور پولنگ اسٹاف کے کندھوں پر ہوتی ہے جب کہ ضلعی سطح پر ریٹرننگ آفیسر اپنے اس عملے کی تعیناتی کرنے کے علاوہ ان کے کام کا نگران اعلیٰ ہوتا ہے۔
ہمیشہ سے ایک ضلعی انتظامیہ آفیسر RO کے فرائض انجام دیتا چلا آتا ہے لیکن پھر اس خیال سے کہ انتظامیہ سے تعلق رکھنے والا ریٹرننگ آفیسر حکومت وقت کے نسبتاً زیادہ دباؤ میں آ جاتا ہے۔ ریٹرننگ افسروں کی تعیناتی عدلیہ سے ہونے لگی لیکن گزشتہ انتخابات نے تو عدلیہ کے ROS کو کچھ زیادہ ہی متنازعہ بنا دیا اور یہ الیکشن ہوئے دو سال گزر گئے دھاندلی کی تحقیقات کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
ریٹرننگ آفیسر کو مقامی انتظامیہ پولنگ اسٹاف کی طویل فہرستیں فراہم کرتی ہے۔ ان میں سے اکثریت اسکول ٹیچرز و سرکاری محکموں کے ماتحت عملہ کی ہوتی ہے۔ یہ عملہ دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ افراد جو اس ڈیوٹی سے جان چھڑانے کے لیے RO کو سفارشیں کرواتے ہیں، دوسرے وہ جنھیں الیکشن کے امیدواروں نے کوشش کے ساتھ تعینات کے لیے تجویز کروایا ہوتا ہے یا حکومت کے اہلکاروں نے دھاندلی کروانے کے لیے شامل کروایا ہوتا ہے۔
ہر پریذائیڈنگ آفیسر کو پولنگ بیگ الیکشن شروع ہونے سے قبل فراہم کیا جاتا ہے جس میں ووٹر فہرستیں، بیلٹ پیپر، اسٹیشنری، مہریں وغیرہ ہوتی ہیں۔ اگر فہرستیں نامکمل ہوں یا دوسرے پولنگ اسٹیشن کی فہرستوں کے ساتھ گڈمڈ ہوں تو اس کی وجہ غلطی کے علاوہ دانستہ بھی ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں اس پولنگ اسٹیشن کا حشر بخوبی تصور کیا جا سکتا ہے۔
الیکشن کا امیدوار اپنے حلقے کے ہر پولنگ اسٹیشن پر دو افراد جو اسی حلقے سے تعلق رکھتے ہوں، بطور پولنگ ایجنٹ رکھوا سکتا ہے تا کہ وہ جعلی ووٹر کو شناخت کر کے چیلنج کر سکے۔ پولنگ ایجنٹ کی ہوشیاری اور موجودگی سے غیرمتعلقہ شخص چیک ہو سکتا ہے لیکن اگر ایجنٹ ناواقف یا کمزور ہو تو جعلی ووٹ کے علاوہ مرحومین کے ووٹ بھی بیلٹ بکس میں پڑ سکتے ہیں۔
ووٹروں کو ٹرانسپورٹ کر کے پولنگ اسٹیشن پر لانے اور اپنے تمبو پر لا کر رہنمائی کرنے والے کینڈی ڈیٹ کے ورکر صبح سویرے اور یقینی ووٹ ڈلوانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بعض امیدواروں نے تو رستے میں چائے پانی کا انتظام بھی کیا ہوتا ہے۔ ٹرن اوور کو بڑھانے اور کامیابی حاصل کرنے کا یہ مجرب نسخہ ہے۔
سن 1977ء کے بھٹو صاحب والے الیکشن میں پولنگ سٹیشنوں کا راؤنڈ لگانے کے دوران دیکھا کہ ایک پریذائیڈنگ آفیسر ایک بوڑھی عورت کے انگوٹھے پر کاٹن گاز لپیٹے اس سے بیلٹ بک پر انگوٹھے لگوائے چلا جا رہا تھا۔ میں نے کچھ دیر اسے دیکھنے کے بعد پوچھا ''یہ کیا کر رہے ہو۔'' اس نے جواب دیا ''تمہیں نظر نہیں آ رہا۔'' اس پر میں نے دور کھڑے اپنے انسپکٹر پولیس کو بلایا اور PO صاحب سے اپنا تعارف کرایا کہ ''میں ریٹرننگ آفیسر ہوں اور تمہیں گرفتار کرتا ہوں۔''
اگرچہ اس کے اگلے ہی سال پاکستان دو لخت ہو گیا لیکن تاریخ میں لکھا گیا کہ جنرل یحییٰ خان کے دور والے 1970ء کے الیکشن اب تک ہونے والے تمام انتخابات کے مقابلے میں Fair تھے۔ اس کا ثبوت خود میرے پاس ہے کہ الیکشن ڈیوٹی کے دوران میں ویمن کالج راولپنڈی کا راؤنڈ لے کر عمارت کے عقبی دروازے سے باہر نکل رہا تھا کہ وہیں سے تین مردوں کو داخل ہوتے دیکھ کر میں نے انھیں روکا کہ آپ کدھر چلے یہ تو لیڈیز پولنگ اسٹیشن ہے۔
سیاہ سوٹ میں ملبوس شخص نے پوچھا کہ آ پ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ جواب دیا کہ ''ڈیوٹی۔'' جس پر انھوں نے کہا میں بھی ڈیوٹی پر ہوں۔ اب میں نے انھیں پہچان لیا کہ وہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس عبدالستار تھے پھر میں نے انھیں کنڈکٹ کیا۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
چلیں ملک میں ہونے والے عام انتخابات ہی کو ذرا کھنگال دیکھتے ہیں۔ پچھلے دو سال کے دوران بلاشبہ لوگوں کے ضمیر اور شعور نے انگڑائی لی ہے اور اپنا محاسبہ کرنے کی سوچ خاص طور پر نوجوان نسل میں بیدار ہوئی ہے۔ دیے سے دیا جلتا ہے۔
شاید بہت سے دیے جل جائیں لیکن جنرل الیکشنوں کی بات بھی ہو جائے تو کوئی ہرج نہیں کیونکہ ان الیکشنوں میں چنے گئے نمائندوں نے اپنے علاقے اور ووٹروں کے لیے فلاح و بہبود اور ترقی کے منصوبے بنا کر ان کی صحت، تعلیم، روزگار، حقوق اور ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنے کے فرائض کی ذمے داریاں ادا کرنا ہوتی ہیں۔
ان نمائندوں کے چناؤ میں اکثریتی ووٹ فیصلہ کن ہوتا ہے لیکن اکثریت حاصل کرنے کے لیے بقول عمران خاں جو ہتھکنڈے استعمال کرنے کی ریت پڑ چکی ہے وہی آج کے کالم کا اصل موضوع ہے اور ان ھی کا پردہ چاک کرنا اس وقت مطلوب ہے۔ اگر الیکشن Fair & Free ہو رہے ہوتے تو اس تحریر کی ضرورت ہی نہ تھی لہٰذا سرسری طور پر ذکر ہو گا کہ ہمارے عام انتخابات عموماً کس طرح Conduct ہوتے ہیں۔ یہاں تنقید یا تنقیص نہیں طریق کار کا ذکر مقصود ہے۔
عام انتخابات کے انعقاد سے پہلے اولین کام حلقہ بندیاں یعنی Delimitation ہوتا ہے جو قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقے کی جغرافیائی حدود کا تعین کرتا ہے۔ اسی طرح مقامی حکومت کے انتخاب کے لیے بھی حلقہ بندی کی جاتی ہے۔ حکومت وقت کے آئندہ انتخاب کے امیدوار اپنے ووٹروں کی اکثریت والے علاقوں کی حلقہ بندیوں میں توڑ پھوڑ کر اپنی Constituncy کو مضبوط کرنے کا کھیل کھیلتے ہیں۔ اسے اولین دھاندلی کا نام دیا جا سکتا ہے یعنی دھاندلی کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے۔
دھاندلی کا دوسرا قدم حکومت کا اپنے امیدواروں کو مختلف مقامی منصوبوں کے لیے اور کچھ مال اڑانے کے لیے ایمرجنسی فنڈز جاری کرنا ہوتا ہے جو الیکشن کی تاریخوں سے چند ہفتے قبل عمل میں لایا جاتا ہے۔ الیکشن کے امیدوار یہ فنڈ دراصل بطور رشوت استعمال کرتے ہیں۔
خیر سے ہم نے ملک کو پولیس اسٹیٹ بنا رکھا ہے اس لیے الیکشن سے پہلے حکومت اپنے امیدواروں کی حسب خواہش پولیس ملازمین کی پوسٹنگز ٹرانسفرز کرتی ہے تا کہ وہ ان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ووٹروں اور مخالف عناصر کے خلاف خاطرخواہ کارروائی کریں جس کا سلسلہ الیکشن کے دن جاری رہتا ہے۔ دھاندلی کا یہ ایک موثر طریقہ ہے اور مجرب ہے۔
الیکشن کے مراحل میں پولنگ اسکیم کی تیاری اور تکمیل ایک اہم اور ابتدائی قدم ہے جس میں ریٹرننگ آفیسر پولنگ اسٹیشن کے مقامات کا تعین کر کے کسی سرکاری عمارت یا اسکول بلڈنگ کو پولنگ اسٹیشن نوٹیفائی کرتا ہے۔
کسی عمارت کو زبردستی پولنگ اسٹیشن بنوانا اور مخالف کی اکثریتی علاقے والی عمارت کو خارج کروانا ایک الیکشن ٹرِک ہے کیونکہ ووٹر نزدیک جا کر ووٹ ڈالنے میں آسانی پاتا ہے لیکن حزب اقتدار کا بااثر امیدوار مخالف کی اکثریت والے علاقے کو دشوار پولنگ اسٹیشن کی طرف پھینک کر مخالف کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا حربہ استعمال کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
عام انتخابات کرانے کی موقع یعنی پولنگ اسٹیشن پر ذمے داری پریذائیڈنگ آفیسر اور پولنگ اسٹاف کے کندھوں پر ہوتی ہے جب کہ ضلعی سطح پر ریٹرننگ آفیسر اپنے اس عملے کی تعیناتی کرنے کے علاوہ ان کے کام کا نگران اعلیٰ ہوتا ہے۔
ہمیشہ سے ایک ضلعی انتظامیہ آفیسر RO کے فرائض انجام دیتا چلا آتا ہے لیکن پھر اس خیال سے کہ انتظامیہ سے تعلق رکھنے والا ریٹرننگ آفیسر حکومت وقت کے نسبتاً زیادہ دباؤ میں آ جاتا ہے۔ ریٹرننگ افسروں کی تعیناتی عدلیہ سے ہونے لگی لیکن گزشتہ انتخابات نے تو عدلیہ کے ROS کو کچھ زیادہ ہی متنازعہ بنا دیا اور یہ الیکشن ہوئے دو سال گزر گئے دھاندلی کی تحقیقات کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
ریٹرننگ آفیسر کو مقامی انتظامیہ پولنگ اسٹاف کی طویل فہرستیں فراہم کرتی ہے۔ ان میں سے اکثریت اسکول ٹیچرز و سرکاری محکموں کے ماتحت عملہ کی ہوتی ہے۔ یہ عملہ دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ افراد جو اس ڈیوٹی سے جان چھڑانے کے لیے RO کو سفارشیں کرواتے ہیں، دوسرے وہ جنھیں الیکشن کے امیدواروں نے کوشش کے ساتھ تعینات کے لیے تجویز کروایا ہوتا ہے یا حکومت کے اہلکاروں نے دھاندلی کروانے کے لیے شامل کروایا ہوتا ہے۔
ہر پریذائیڈنگ آفیسر کو پولنگ بیگ الیکشن شروع ہونے سے قبل فراہم کیا جاتا ہے جس میں ووٹر فہرستیں، بیلٹ پیپر، اسٹیشنری، مہریں وغیرہ ہوتی ہیں۔ اگر فہرستیں نامکمل ہوں یا دوسرے پولنگ اسٹیشن کی فہرستوں کے ساتھ گڈمڈ ہوں تو اس کی وجہ غلطی کے علاوہ دانستہ بھی ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں اس پولنگ اسٹیشن کا حشر بخوبی تصور کیا جا سکتا ہے۔
الیکشن کا امیدوار اپنے حلقے کے ہر پولنگ اسٹیشن پر دو افراد جو اسی حلقے سے تعلق رکھتے ہوں، بطور پولنگ ایجنٹ رکھوا سکتا ہے تا کہ وہ جعلی ووٹر کو شناخت کر کے چیلنج کر سکے۔ پولنگ ایجنٹ کی ہوشیاری اور موجودگی سے غیرمتعلقہ شخص چیک ہو سکتا ہے لیکن اگر ایجنٹ ناواقف یا کمزور ہو تو جعلی ووٹ کے علاوہ مرحومین کے ووٹ بھی بیلٹ بکس میں پڑ سکتے ہیں۔
ووٹروں کو ٹرانسپورٹ کر کے پولنگ اسٹیشن پر لانے اور اپنے تمبو پر لا کر رہنمائی کرنے والے کینڈی ڈیٹ کے ورکر صبح سویرے اور یقینی ووٹ ڈلوانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بعض امیدواروں نے تو رستے میں چائے پانی کا انتظام بھی کیا ہوتا ہے۔ ٹرن اوور کو بڑھانے اور کامیابی حاصل کرنے کا یہ مجرب نسخہ ہے۔
سن 1977ء کے بھٹو صاحب والے الیکشن میں پولنگ سٹیشنوں کا راؤنڈ لگانے کے دوران دیکھا کہ ایک پریذائیڈنگ آفیسر ایک بوڑھی عورت کے انگوٹھے پر کاٹن گاز لپیٹے اس سے بیلٹ بک پر انگوٹھے لگوائے چلا جا رہا تھا۔ میں نے کچھ دیر اسے دیکھنے کے بعد پوچھا ''یہ کیا کر رہے ہو۔'' اس نے جواب دیا ''تمہیں نظر نہیں آ رہا۔'' اس پر میں نے دور کھڑے اپنے انسپکٹر پولیس کو بلایا اور PO صاحب سے اپنا تعارف کرایا کہ ''میں ریٹرننگ آفیسر ہوں اور تمہیں گرفتار کرتا ہوں۔''
اگرچہ اس کے اگلے ہی سال پاکستان دو لخت ہو گیا لیکن تاریخ میں لکھا گیا کہ جنرل یحییٰ خان کے دور والے 1970ء کے الیکشن اب تک ہونے والے تمام انتخابات کے مقابلے میں Fair تھے۔ اس کا ثبوت خود میرے پاس ہے کہ الیکشن ڈیوٹی کے دوران میں ویمن کالج راولپنڈی کا راؤنڈ لے کر عمارت کے عقبی دروازے سے باہر نکل رہا تھا کہ وہیں سے تین مردوں کو داخل ہوتے دیکھ کر میں نے انھیں روکا کہ آپ کدھر چلے یہ تو لیڈیز پولنگ اسٹیشن ہے۔
سیاہ سوٹ میں ملبوس شخص نے پوچھا کہ آ پ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ جواب دیا کہ ''ڈیوٹی۔'' جس پر انھوں نے کہا میں بھی ڈیوٹی پر ہوں۔ اب میں نے انھیں پہچان لیا کہ وہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس عبدالستار تھے پھر میں نے انھیں کنڈکٹ کیا۔