دودھ کی رکھوالی پر مامور بِلّوں کو مشورہ
کرپشن نہ صرف ملک و قوم سے غداری بلکہ معاشی تخریب کاری اور دہشتگردی سے زیادہ خطر ناک ایشو ہے۔
دودھ کی رکھوالی پر بلے مامور کر دیے جائیں تو بلی کے بھاگوں چھنیکا ٹوٹتا رہے گا اور بلوں کی لذت کام و دہن کے لیے دودھ وافر مقدار میں دستیاب ہوتا رہے گا۔ ہزاروں، لاکھوں بچے بے شک ایک بوند دودھ کو ترستے رہیں مگر خون آشام بلوں کو دودھ کی کمی نہیں ہوتی کہ عرصہ دراز سے اقتدار پر قابض طبقات نے قوانین ہی ایسے تشکیل دے رکھے ہیں جو عام شہری کو دو بوند دودھ دینے پر پابندیاں لگاتے ہیں جب کہ با اثر لوگ پوری کی پوری بھینس اڑا لے جاتے ہیں۔
ایک دلچسپ لطیفہ بھی سنتے چلیے، ایک تنظیم نے گزشتہ دنوں وزیراعظم کو کرپشن کے خاتمہ کے لیے تفصیلی حکمت عملی پیش کی ہے۔ تنظیم کا دعویٰ ہے کہ ان تجاویز پر عملدرآمد سے ایک ایسا میکنزم فعال ہو جائیگا جس کے ذریعے حکومتی معاملات میں شفافیت لا کر کرپشن کا راستہ روکا جا سکے گا۔ ''اے بسا آرزو کہ خاک شدہ''
اس حکمت عملی کے تحت کسی بھی سرکاری ملازم کے خلاف کرپشن کے الزام، اختیارات سے تجاوز، صوابدیدی اختیارات کے غلط استعمال کے بارے میں شکایات وصول کی جا سکیں گی۔ معلومات فراہم کرنے والے کو قانونی تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ کیے گئے انکشافات کی وجوہ معلوم کرنے کے علاوہ الزامات کی انکوائری بھی کی جا سکے گی۔
مسودہ میں حکومت سے معلومات تک رسائی کے حق کا مطالبہ کرنے کے ساتھ حکومت کو عوام کے روبرو زیادہ سے زیادہ قابل احتساب بنانے، کرپشن کے خاتمے، حکومتی عدم صلاحیت، طرز حکمرانی اور انسانی حقوق کے معاملات میں عوام کی شرکت کو فروغ دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ سب باتیں اچھی ہیں لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ نہ صرف کرپٹ افراد کے خلاف کارروائی کے لیے انسداد بد عنوانی کے نام سے ایک ادارہ عرصہ دراز سے قائم ہے لیکن بد عنوانی کی روک تھام کے لیے قائم یہ ادارہ خود کرپشن کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔
ایف آئی اے، قومی احتساب بیورو، سینٹ، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں، وفاقی، صوبائی پبلک اکاؤنٹس کمیٹیاں بھی موجود ہیں۔ یہ الگ بات کہ ایسے تمام ادارے کرپشن کی روک تھام کے حوالے سے آئینی کردار ادا کرنے سے قاصر رہے اور ''من ترا ملا بگوئم، تو مرا حاجی بگو'' کے مصداق ایک دوسرے کی کرپشن کی پردہ داری پر لگے ہوئے ہیں۔ بیوروکریسی 'حکمرانوں کے گناہوں کو جواز دیتی رہی اور حکمران طبقہ بیوروکریسی کو تحفظ فراہم کرتا رہا۔ لٰہذا کرپشن کی بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی فرصت کسی کو میسر نہ آئی۔
معلومات تک رسائی کو آئین کے آرٹیکل19 اے کے تحت پہلے سے ہی تحفظ حاصل ہے۔ وہ الگ بات کہ سرکاری عمال اتنے کاریگر ہیں کہ کسی شہری کو معلومات تک رسائی دینا تو دور کی بات معلومات کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتے۔ حکمران اور بیوروکریسی ان ہتھکنڈوں سے بے خبر نہیں۔ مگر اپنے مفادات کی وجہ سے خاموش تماشائی ہیں۔
بد عنوانی کے تدارک کے لیے قوانین اور ادارے پہلے سے موجود ہیں معلومات تک عوام کی رسائی کو آئینی تحفظ بھی حاصل ہے۔ سرکاری ملازمین کے احتساب کے لیے قوانین انگریز دور سے ہی نافذ العمل ہیں۔ اب ضرورت نئے قوانین کی نہیں بلکہ پہلے سے موجود قوانین کو موثر اور اداروں کو فعال بنانے کی ہے۔ قوانین کے انبار سے نہ تو اچھی حکمرانی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے نہ شہریوں کو ریلیف اور نہ ہی ایسے بے سروپا اقدامات سے کرپشن کا خاتمہ ممکن ہے۔
قانون اندھا ہوتا ہے۔ یہ بات صدیوں سے معلوم و معروف ہے لہٰذا لاقانونیت کے سدباب کے لیے قانون کو حکمران اور افسر شاہی کی طرف سے دی گئی بینائی واپس لے کر اندھا دھند اثر و نفوذ ہی ملک کو درست ڈگر پر لا سکتا ہے۔
فارسی میں کہاوت مشہور ہے ''گربہ کشتن روز اوّل'' یعنی بلی کو پہلے ہی دن مار ڈالو ورنہ اسے گھر میں پاؤں جمانے کا موقع مل جائے تو نکالنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔ مگر ہم نے بلوں سے نجات حاصل کرنے کی بجائے ان کو دودھ کی رکھوالی پر لگا دیا ہے اور پھر ان پر بھی نگران مقرر کر دیے۔
جو پیرہن میں کوئی تار محتسب سے بچا
دراز دستئی پیر مغاں کی نذر ہوا
اگر جراحت قاتل سے بخشوا لائے
تو دل سیاست چارہ گراں کی نذر ہوا
کرپشن نہ صرف ملک و قوم سے غداری بلکہ معاشی تخریب کاری اور دہشتگردی سے زیادہ خطر ناک ایشو ہے۔ مگر کسی بھی حکومت نے اس ناسور کے خاتمہ کی سنجیدہ اور موثر کوشش نہ کی۔ عوام کو الو بنانے کے لیے نئے نئے قانون متعارف کرائے گئے مگر چور راستہ کھلا چھوڑ دیا گیا اور اس راستے پر جن چوکیداروں کو بٹھایا گیا ان کی آنکھیں، کان بند، ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے۔
دنیا جانتی ہے کہ 83ء میں اقتدار کی سیڑھی پر پاؤں رکھنے والے ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد کا اس وقت ملک کے ایک سو امیر ترین لوگوں میں شمار نہ ہوتا تھا مگر آج وہ ملک کا چوتھا امیر ترین خاندان ہے ۔88ء میں ایوان اقتدار میں بسیرا کرنے والا دوسری بڑی جماعت کا سربراہ تب ایک ہزار امیر افراد کی فہرست سے باہر تھا مگر آج ملک کا دوسرا امیر ترین شخص ہے۔
یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مروجہ قوانین کے تحت اب تک کسی بد عنوان کو سزا ہوئی نہ لوٹی دولت واپس لی گئی۔ اس کی وجہ قوانین میں خامی نہیں بلکہ وہ سقم ہیں جن کے تحت ایک ہاتھ سے کرپٹ عناصر کو پکڑا جاتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے تھپکی دی جاتی ہے۔ پلی بارگین بھی اس نوعیت کی ایک رعائت ہے جو اربوں کے لٹیروں کو کروڑوں کی وصولی کے بعد دیانتداری کا سرٹیفکیٹ فراہم کر کے گنگا اشنان دیتا ہے۔
کرپشن کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے جب کہ کالے دھن کو سفید کرنے کے بے شمار قانونی راستے موجود ہوں۔ کسی بھی مرحلے پر نگرانی نہ ہو۔ احتساب کے نام پر مذاق ہو رہا ہو۔ قانون سازی اور قوانین کے نفاذ میں بد عنوان عناصر کا عمل دخل ہو۔ کوئی بھی شخص کسی بھی جگہ کسی بھی وقت کروڑوں روپے کی اراضی، بنگلہ، گاڑی، پلاٹ خرید سکتا ہو۔ فروخت کنندہ کو تو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ خریدار کا سرمایہ جائز ہے یا ناجائز لیکن اراضی، بنگلہ کے انتقال کے وقت محکمہ مال، موٹر رجسٹریشن کے وقت محکمہ ایکسائز والے تو یہ سوال اٹھا سکتے ہیں۔ وہ تو ذرائع آمدنی کی تفصیل طلب کر سکتے ہیں۔ مگر جب گنے کے کھیت کا رکھوالا ہاتھی ہو تو یہ سوال کون اٹھائے گا۔
کرپشن کی روک تھام پر مامور محکموں کے افسر اور عملہ صرف لوگوں کے طرز اور معیار زندگی کا سرسری جائزہ لینا شروع کر دیں تو تمام نہیں تو اکثر بد عنوان بے نقاب ہو جائیں گے۔50 ہزار ماہانہ تنخواہ لینے والوں کے شاہانہ اخراجات، عالیشان بنگلے، قیمتی گاڑیاں، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچے بد عنوانی کی از خود گواہی ہوں گے۔
پلی بارگیننگ ہی نہیں، پرائز بانڈز، اسٹاک مارکیٹ بھی کالے دھن کو تحفظ دیتے ہیں۔ اکثر بد عنوان انعام والا بانڈ زیادہ رقم دیکر خرید لیتے ہیں اور کالا دھن سفید کر لیتے ہیں۔ قومی بچت کے نام پر عرصہ دراز سے یہ قانونی طریقہ جاری ہے انعامی بانڈز در اصل ناجائز دولت کو جائز بنانے کا قانونی طریقہ ہے اگرچہ یہ ملک و قوم اور معیشت کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے مگر حکمران طبقہ نے اپنی بلیک منی اور ساتھیوں کے کالا دھن کو سفید کرنے کے لیے اس طریقہ کو ہمیشہ تحفظ فراہم کیا۔
اگر بانڈز نام اور شناختی کارڈ نمبر کے ساتھ جاری کیے جائیں تو یہ کھیل ختم ہو سکتا ہے مگر یہاں تو کچھ وزراء ہی انعامی بانڈ کے نام سے مشہور ہیں۔ پھر یہ چور راستہ بند کون کرے گا؟ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے بھی کوئی رکاوٹ نہیں۔ پیسہ پھینکو اور تماشا دیکھو۔
لہٰذا نئی قانون سازی کی نہیں کرپشن کے خاتمے کے لیے نیت، ادارے اور عزم کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے کسی راکٹ سائنس کی بھی حاجت نہیں۔ فقط قوانین پر دیانتداری سے عمل درآمد کو یقینی بنانا ہو گا۔ اور بس۔