فن نگارش کا طلسم کدہ اور ادبی خدمات
زندگی کے ہر میدان میں قابل قدر لوگ بھی موجود ہیں اور ایسے بھی ہیں جو نہ اپنا بھلا چاہتے ہیں
لاہور:
زندگی کے ہر میدان میں قابل قدر لوگ بھی موجود ہیں اور ایسے بھی ہیں جو نہ اپنا بھلا چاہتے ہیں اور نہ دوسروں کا، اپنے ساتھیوں کی بیخ کنی اور انھیں نیچا دکھانے کے مواقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں، علم وادب کے شعبے میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو نام ونمود کے لیے اوچھے ہتھکنڈے آزماتے ہیں اور روپے پیسوں کی بدولت نام کماتے ہیں لیکن وقت وہ آئینہ ہے جو سچ اور جھوٹ، کھوٹے اورکھرے کی پہچان کو آسانی کے ساتھ نمایاں کردیتا ہے۔
(بس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔)ادبی دنیا میں بہت اچھے لوگ بھی ہیں، جو کام اورکام کرنے کو ہی اپنا نصب العین سمجھتے ہیں اور پس منظر میں رہتے ہوئے علمی وادبی خدمات انجام دیتے ہیں۔ انھیں نام و نمود کی طلب نہیں ہوتی ہے، ایسے ہی لوگوں میں شاعر، ادیب اور معلم نور محمد شیخ بھی شامل ہیں وہ 1970 سے عوامی ادبی انجمن میں کارکن ،منتظم اور سیکریٹری کی حیثیت سے خوش اسلوبی و ذمے داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
نور محمد شیخ کا شمار فیض احمد فیض کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب فیض احمد فیض حاجی عبداللہ ہارون کالج لیاری کے پرنسپل تھے اسی کالج میں وائس پرنسپل کے عہدے پر ڈاکٹر حسان فائز تھے۔ ان ہی اہم لوگوں کی کاوشوں کے نتیجے میں عوامی ادبی انجمن 1968 وجود میں آئی۔
اس کے بانیوں میں فیض احمد فیض کے ساتھ ڈاکٹر محمد رکن الدین حسان، بلوچی زبان کے ممتاز شاعر گل خان نصیر، پشتو کے شاعر اجمل خٹک، اردو کے شاعر حسن حمیدی جن کا تعلق سکھر سے تھا سندھ کے دانشور محمد ابراہیم جویو ، شیخ ایاز اور دیگر اہم نام شامل تھے۔
1968 سے 1969 تک کوکب جمیل عوامی ادبی انجمن کے امور کو بخوبی احسن انجام دیتے رہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انجمن کے پہلے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر حسان تھے جو 1985 میں وفات پاگئے۔ ان کے بعد بابر ایاز نے سیکریٹری کا عہدہ سنبھالا لیکن اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باعث انھوں نے اپنی ذمے داریاں نور محمد شیخ کے سپرد کردیں، نور محمد شیخ تاحال انجمن کے سیکریٹری ہیں اور ہر ماہ پابندی کے ساتھ ادبی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔انجمن کی بزم میں قلمکار اور علم و ادب کے قدر دان پابندی سے شرکت کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں حسب روایت عوامی ادبی انجمن کی جانب سے ایک تنقیدی نشست منعقد کی گئی معتبرشاعراوسط جعفری نے برائے تنقید اپنی غزل پیش کی۔ تنقید کا فریضہ انجام دینے والوں میں ڈاکٹر مظہر حیدر،حامد علی سید، نصیر سومرو،دانش کاظمی اوردوسرے حضرات شامل تھے۔ روایت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مشاعرہ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا، شعرا کرام نے حالات حاضرہ اور اپنی دلی کیفیات کو شاعری کے پیکر میں خوبصورتی اور سلیقے سے ڈھالا تھا۔
سرور جاوید کی شاعری بھی ماضی کی حسین یادوں سے آراستہ تھی۔ جس میں غم کا احساس جاگزیں تھا، اوسط جعفری نے سانحہ پشاور کے دکھ کو لفظوں کا جامہ پہنایا، شعرائے کرام میں شفیق بسمل جن کے کلام میں گرمجوشی اور حالات زمانہ کے حادثات و واقعات پنہاں تھے، ڈاکٹر نثار احمد نثار، سیف الرحمن سیفی اور حامد علی سید جیسے منفرد لہجے کے شعرا نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ تقریب کی صدارت راقم نے کی اور مہمان خصوصی کے فرائض بیرون ملک سے آئی ہوئی شاعرہ شکیلہ رفیق نے انجام دیے۔
شکیلہ رفیق نے اپنا افسانہ ''یقین و گماں کے بیچ'' اور نظم ''انتظار مسلسل'' سنائی۔ حاضرین نے افسانے و نظم کو پسندیدہ قرار دیا۔شاعرہ و افسانہ نگار مسرت افزا روحی کا شعری مجموعہ بعنوان ''حرز جاں'' حال ہی میں آیا ہے۔مسرت افزا روحی افسانے لکھیں یا شاعری تخلیق کریں دونوں ہی اصناف میں وہ اپنے قارئین کو متاثر کرتی ہیں۔
قاری بہت دیر تک شعر وسخن کے طلسم میں اپنے آپ کو گم پاتا ہے ۔مسرت کی شاعری تلخی غم کی عکاس ہے، یہ غم اپنا بھی ہے اور پرایا بھی، انھوں نے دکھ درد کو شدت سے محسوس کیا ان کی شاعری احساس محرومی، ہجر و وصال کے رنگوں سے آراستہ ہے ۔
چشم تر دل سے کھینچ لائی ہے
وہ کہو جو چھپا کے رکھا تھا
مسرت افزا روحی کو اپنے لوگوں سے محبت ہے، اپنے وطن سے محبت ہے، وطن پر وہ اپنی جان قربان کرنے کا جذبہ بھی رکھتی ہیں اور اپنے وطن کی پاک مٹی اس کی عظمت و شان کے لیے قصیدہ خواں بھی ہیں ''پاک فوج کے جواں'' اس عنوان سے ان کی نظم افواج پاکستان کے لیے نذرانہ عقیدت و محبت ہے۔
مسرت کی زیادہ تر نظمیں مقصدی اور موضوعاتی ہیں انھوں نے کشمیر پر ہونے والے مظالم پر لکھا ہے اور ہندوستان کی بزدل حکومت اور فوجیوں کو بھی للکارا ہے۔ ''صیہونیت کی آگ''، ''امت مسلمہ''، ''اکیسویں صدی کے عذاب'' جیسی نظموں کی تخلیق نے مسرت افزا کی شاعری کو انفرادیت بخش دی ہے۔
حیات رضوی امروہوی کی ادارت میں نکلنے والا جریدہ ''عمارت کار'' جیساکہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ تعمیرات کے ہی حوالے سے معرض وجود میں آیا ہے، اس کے سر ورق پر بھی یہ تحریر درج ہے ''اردو میں عمارت کاری (آرکی ٹیکچر) کے موضوع پر ایک ادبی رسالہ ہے تو واقعی ادبی رسالہ، ادب بھی ہے اور اہم ترین عمارات کا مکمل تعارف کہ یہ عمارتیں کیونکر تعمیر ہوئیں، ان کا مقصد کیا تھا؟ اور انھیں شہرت دوام کیوں حاصل ہے، جیسے مضامین تازہ شمارے میں شامل ہیں مسجد بھونگ کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی گئی ہے شگفتہ بلوچ کی تحریر بے حد معلوماتی ہے انھوں نے ''مسجد بھونگ'' کی اہمیت اور اس کی شہرت دوام پر روشنی ڈالی ہے۔
مسجد بھونگ ضلع بہاول پور سے 220 کلومیٹر اور رحیم یار خان سے پچاس کلومیٹر پر واقع ہے، اور یہ مسجد فن تعمیر کا خوبصورت شاہکار ہے اس حقیقت میں کوئی شبہ باقی نہیں، چونکہ الحمداللہ اس مسجد کی زیارت ہم نے بھی کی ہے، خوبصورت اور قیمتی پتھروں اور دیدہ زیب رنگوں سے آراستہ یہ مسجد بے شک قابل دید ہے۔ 1923 میں سردار رئیس غازی محمد نے صادق آباد کے گاؤں بھونگ کے نام پر اپنے محل میں مسجد بنائی تو قصبہ بھونگ کا نام پہلی بار دنیا کے نقشے پر ابھرا۔
جناب مرزا شاہد برلاس کے دونوں مضامین قابل توجہ اور معلومات کے خزینے سے پر ہیں خاص طور پر ''غاروں کی مصوری اور انسان نما نینڈرتھل'' نینڈرتھل کی تصویریں اور اس کی پتھروں پر نقاشی اور غاروں میں زندگی گزارتے ہوئے نینڈرتھل کی تصاویر کی بھی اشاعت کی گئی ہے، ان غاروں کی چالیس ہزار آٹھ سو سال یا چالیس ہزار سال پرانی ڈرائنگ ایک دوسری انسان نما مخلوق کی تخلیق بتائی جاتی ہیں۔ اسمتھ سونین انسٹیٹیوٹ کے مطابق ان کے دماغ ہم سے 2 سو ملی میٹر بڑے تھے کیونکہ ان کی کھوپڑیاں بڑی تھیں یہ مخلوق انسانوں سے لاکھوں سال پہلے افریقہ سے ترک وطن کرکے یورپ منتقل ہوگئی تھی۔ بہرحال یہ ایک دلچسپ اور معلوماتی مضمون ہے۔عمارت کار ہر لحاظ سے ایک منفرد پرچہ ہے، جسے پڑھا جانا چاہیے۔
سہ ماہی ''ارتقا'' حیدرآباد کا جریدہ حال ہی میں موصول ہوا ہے،اس کے مدیر اعلیٰ شوکت علی شوکت ہیں جوکہ بہت اچھے شاعر بھی ہیں، نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گہری وابستگی اور عقیدت ہے ان کی نعت گوئی میں یہ خصوصیات پنہاں ہیں۔''ارتقا'' کئی سالوں سے نکل رہا ہے یقینا مدیر اعلیٰ کی محنت، ادب سے محبت اور لگن ہے،اس مہنگائی کے دور میں رسالوں کی اشاعت آسان کام نہیں ہے اور ہرکام وہی کرتے ہیں جو مشکلوں پرقابو پانا جانتے ہیں، ارتقا ادب کی تمام اصناف سے سجا اور سنورا ہوا ہے۔