کیا کیا جائے
تخلیق،خواہ کیسی ہی کم تر کیوں نہ ہو، تخلیقی عمل بہرحال خدائی وصف ہے۔
تخلیق،خواہ کیسی ہی کم تر کیوں نہ ہو، تخلیقی عمل بہرحال خدائی وصف ہے۔ تحریر اگر کسی تخلیقی عمل کا حصہ ہے، تو پھر اسے بھی خدائی وصف سے ہی متصف جانا جائے گا۔ یہ اور بات کہ بعض تحریریں پڑھ کر، اس کے شیطانی وصف ہونے کا گماں ہوتا ہے۔
قطع نظر اس جملہ معترضہ کے، تحریرکے تخلیقی عمل کو جاننا بہرحال خالی از دلچسپی نہیں ۔خیال کیا ہے؟ کہاں سے آتا ہے اور حرف کے سانچے میں کیسے ڈھلتا چلا جاتا ہے؟ اور ہر لکھنے والے کا سانچہ دیگر لکھنے والوں سے مختلف کیسے اورکیوں کر ہے؟ کیا خیال واقعی 'غیب' سے آتا ہے اور لکھنے والا محض صریرخامہ، نوائے سروش ہے؟ یا خیال پہ اُس کی دسترس ہے؟
اسی تجسس کی بنیاد پہ ایک سلسلہ کبھی یورپ میں چلا تھا، جس میں معروف لکھنے والوں سے ان کے تخلیقی عمل کی پُر اسراریت سے متعلق جانا جاتا تھا۔ صرف قاری کے لیے ہی نہیں، خود لکھنے والوں کے لیے بھی اس کا بیان دلچسپ تھا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ کمہار سے پوچھیں کہ وہ مٹی کے برتن کیسے بنا لیتا ہے؟ یا کیوں بناتا ہے؟ یا موچی جوتے کیوں اورکیسے بناتا ہے؟ درزی کپڑے کیسے تیارکرلیتا ہے؟
کوئی بھی تخلیق کار، تخلیقی عمل سے گزرتے وقت اس کی ماہیت پہ غور نہیں کرتا،اس لیے جب اُس سے اس کے متعلق پوچھ لیا جائے تو وہ اچھنبے میں پڑ جاتا ہے۔ ایسے میں اس کا کوئی بھی جواب خود اس کے لیے بھی تسلی بخش نہیں ہوتا۔ معدودے چند اہلِ قلم ہی تخلیقی عمل کی ماہیت کویوں بیان کر پائے، جو اس کی پُراسراریت کو عیاں کرسکے۔ اسی سے متاثرہ، ایک زمانے میں اردو میں بھی یہ سلسلہ چل نکلا۔ 'میں کیوں لکھتا ہوں؟' کے عنوان سے بیشتر اہلِ قلم نے اپنے تخلیقی عمل کی رُوداد بیان کی۔
کسی نے اسے سانس لینے کے عمل سے تعبیر کیا توکسی نے اسے جیون سے تشبہیہ دی۔ کسی کے لیے یہ ایک پُراسرار عمل تھا، تو کوئی خود کو اس کی نادیدہ گرفت میں پاتا تھا۔ اسی سے تحریک پا کر اردو، پنجابی کی مہان تخلیق کار امرتا پریتم نے اپنے مشہورِ زمانہ رسالہ' ناگ منی' میں ایک سلسلہ 'میرا کمرہ' کے نام سے شروع کیا۔ جس میں معروف لکھنے والوں کو تحریک دی گئی کہ وہ اپنے اُس کمرے کا احوال بتائیں، جہاں بیٹھ کر وہ تخلیق کے عمل سے گزرتے ہیں۔
یہ نہایت دلچسپ سلسلہ تھا۔ ان میں سے منتخب مضامین بعد ازاں اسی عنوان سے کتابی صورت میں بھی شایع ہوئے۔وہ لوگ جن کے لیے لکھنا پیشہ ہے، کسی حد تک سہولت میں رہتے ہیں۔ بالکل کسی ٹھیلے والے کی طرح، جسے بہرصورت ٹھیلا لگانا ہے۔ خواہ برسات پڑے، کہ ہڑتال کا سماں ہو۔ شہر میں کیسا ہی خوف طاری کیوں نہ ہو، وہ اپنی دکان بڑھانا جانتے ہیں۔ خسارے میں رہے وہ ، جنھوں نے تحریر کو کوئی مقدس مشن جان لیا۔ جو سمجھتے ہیں کہ 'لفظ مقدس ہوتے ہیں۔'
جو ،آج بھی تحریر کو تبدیلی کا محرک سمجھتے ہیں۔ حالانکہ کیسی کیسی مقدس تحریریں تک انسانوں کا مقدر نہ بدل سکیں۔ علم و دانش کے کیسے کیسے انبار، انسانی سماج کو انسانیت سے ہم کنار نہ کرپائے۔ مگر کچھ سادہ دل ہیں کہ امید کا دامن تھامے رکھنے کو ہی جیون کا سبب جان لیتے ہیں۔
رشک آمیز ہیں وہ لکھنے والے جو ہر طرح کے ظلم سے بھی تحریر کا کوئی نہ کوئی پہلو تراش لیتے ہیں۔ جو غم سے بھی حرف کشید کر لیتے ہیں۔ جن کی تحریر کے فولادی بدن پہ ظلم وستم کا کوئی سخت موسم اثرانداز نہیں ہوتا۔ بے گناہ مارے جانے والے بچوں کی چیخیں جن کے قلم کی آواز بن جاتی ہیں۔ گم شدہ افراد کی ماؤں کے اشک جن کے قلم میں روشنائی بھر دیتے ہیں۔
جو بے وقت بچھڑ جانے والے یاروں کی یاد میں بہتے اشکوں کو بھی فقروں کی لڑی میں پرو دیتے ہیں۔کامیاب ہیں وہی، جنھوں نے ہر خوشی، ہر غم، ہر دکھ و سکھ کو حرف کی زباں دینے کا فن سیکھ لیا۔جس دیس میں لہو کی ارزانی معمول کا واقعہ بن کر رہ جائے، وہاں کے اہلِ قلم کو بھی دل پہ پتھر رکھ کر 'پتھر دل' ہوجانا چاہیے، تبھی اس' لہو گیری' کی تصویر کشی ممکن ہے۔ وگرنہ بندہ دل بہلانے کے کوئی اور ہی بہانے ڈھونڈے۔
ہم ایسوں کے لیے لکھنا سدا خواب جیسا رہا۔ اس لیے سدا 'خواب نما' لکھا۔ اور جب خواب ہی ریزہ ریزہ ہو جائیں، تو پھر کیا لکھا جائے، کیسے لکھا جائے، کیوں کر لکھا جائے؟ احباب کا پوچھا ہوا سوال خود اپنے آپ سے دہراتا ہوں کہ 'میں کیوں نہیں لکھتا؟' تو سُن ہو جاتا ہوں۔ جس روز ملک میں معصوم بچوں کا خون بہا، اس کے بعد جب بھی لکھنے بیٹھا اپنے ہی ہاتھوں پہ لہو کے نشاں دیکھے۔ اور اہلِ وطن کو جب اس سانحے کا 'موازنہ' کرتے دیکھا تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔
ملالہ کو ایوارڈدینے والے فلاں بچی کو کیوں نہیں دیکھتے؟ ایسے سوالات اپنے آپ سے شرمندہ کردیتے ہیں۔ ہماری ہم عصر نسلوں کو اندھے جذبات کی دلدل کے حوالے کر کے، اردگرد سب کچھ بکاؤ ہوچکا ہے۔ محبوب بچھڑگئے،یار مرتے چلے جارہے ہیں۔ سماج، کہ جس کی بہتری کے خواب دیکھے تھے، ابتری کی اتھاہ گہرائیوں میں اترتا چلا جا رہا ہے۔
ہم کہ اپنے حصے کی شمع مشکل سے جلاپاتے ہیں کہ قاتل ہوائیں مخالف آندھیاں لیے چلی آتی ہیں۔ روشنی روشنی پکارتے ہمارے گلے سوکھ چلے،اندھیرا ہے کہ گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔ وصل کی تمنا لاکھ پُر امید سہی، ہجر ِ مسلسل ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ امید کے پودے کو جس قدر پانی دیتے ہیں، یاسیت کی آکاس بیل اسے کھا جاتی ہے۔
ایسے میں حب کے نوجوان ظہیر ظرف کی شعری کرب میں ڈوبی چیخ سنائی دیتی ہے؛
کیا کیا جائے سخت وحشت میں
سخت وحشت میں کیا کیا جائے
اس کا اگلا شعر دیکھیں، اور اس میں بلوچستان کی نئی نسل کا شعری میلان ہی نہیں، اس کا سماجی المیہ بھی ملاحظہ کریں۔
آج مجھ کو عجیب فرصت ہے
ایسی فرصت میں کیا کیا جائے
ایک ہم ہی نہیں، ہماری پوری نسل ایسی ہی 'سخت وحشت' اور ایک 'عجیب فرصت' کو جھیل رہی ہے۔ ایسے میں نہ ہم کچھ لکھ پاتے ہیں، نہ کچھ پڑھ پاتے ہیں، نہ کوئی مکالمہ ہے، نہ کوئی بحث ہے، نہ کوئی دوستانہ ہے، نہ ان وحشتوں کو کوئی ٹھکانہ ہے۔ ہم روز اپنی ہی آنکھوں میں 'کیا کیا جائے؟' کا سوال لیے،آئینے میں خود سے دوچار ہوتے ہیں، اور کوئی راہ نہ پاکر خود کو المیوں کے اژدھوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔
ہمیں ظلم کے محض ایک رخ کو پہچاننے والے'افتادگانِ خاک' کا درس تو ملا، مگر اس سے نمٹنے والے مینوئل اوراصل شاہکار 'کیا کیا جائے' سے آشنائی نہ دی گئی۔ سو، ہماری نسل اپنے خواب (جوانی بھرے خواب)، نیم انقلابی اور نیم سیاسی رہنماؤں کے ہاں رہن رکھنے کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔