عالمی یوم خواتین
ہر سال دنیا بھر میں 8مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
ہر سال دنیا بھر میں 8مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن ملکی اور بین الاقوامی خواتین تنظیمیں سیمینارمنعقد کراتی ہیں، جلسے بھی ہوتے ہیں، تاہم خواتین کے عالمی دن پر روایتی تقریبات صنف نازک کے مسائل کا حل نہیں، مگر سچ یہ بھی ہے کہ خواتین تحریکوں نے خواتین میں شعور بیدار کیا ہے۔
آج کوئی کچھ کہے، سچی بات یہی ہے کہ مردوں کے معاشرے میں خواتین نے اپنی اہمیت اس طرح تسلیم کرائی ہے کہ خود مرد حیران ہیں، پھر بھی وہ دبے دبے لفظوں میں اب بھی عورت کو کم زور، کم ترکہنے سے باز نہیں آتے، لیکن کسی کے کہنے یا سننے سے کیا ہوتا ہے۔
آج کی عورت خوابوں کو پورا کرنے کی صرف حسرت ہی نہیں رکھتی بلکہ ستاروں پرکمند ڈالنا بھی جانتی ہے، وہ چیلنجز سے گھبرانے والی نہیں، اسی لیے جہد مسلسل پر عمل پیرا ہے۔ وہ پرانی سماجی اقدار سے کھلی بغاوت کرکے ایک تحریک منظم کرنے کی کوشش کررہی ہے جو اس تصور پر استوار ہے کہ اب صنفی امتیازات کو ختم ہوجانا چاہیے۔
عورت کو بطور انسان وہی حقوق حاصل ہونے چاہئیں جو ایک مرد کو حاصل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو عورت اپنے لیے وضع کیے جانے والے روایتی کردار قبول کرنے سے انکار کرتی ہے اور اپنی دنیا آپ پیدا کرنی چاہتی ہے، اسے مردوں کا معاشرہ آسانی سے قبول نہیں کرتا، ایسی ہر عورت کو کھا جانیوالی نظروں سے دیکھا جاتا ہے، جو عورتیں اپنے وجود کو اولیت دیتی ہیں اور مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر صنفی تفریق ختم کرنا چاہتی ہیں انھیں عجیب و غریب القابات سے نوازا جاتا ہے۔
بدلتے دور میں نصف بہتر نے یہ جان لیا ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے باعث معاشی ترقی کے عمل میں جسمانی قوت سے زیادہ ذہن کی طاقت کی اہمیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جلد مردوں کی وہ سبقت ختم ہوجائے گی جو انھیں اب تک حاصل رہی ہے۔ معاشی خود مختاری عورتوں کی بالا دستی کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس وقت نصف بہتر دنیا کو بہتر بنانے کی تگ و دو کررہی ہے۔ ان میں گھریلو خواتین بھی ہیں اور دور افتادہ دیہات میں مقیم خواتین بھی۔ وہ کاروباری ادارے کھڑے کررہی ہیں، یہ بات بھی عیاں ہورہی ہے کہ جب کوئی لڑکی یا خاتون مضبوط اور بااختیار ہوتی ہے تو اس کے ارد گرد کا معاشرہ تیزی سے تبدیل ہونے لگتا ہے۔ اس کا اندازہ تیونس، مصر، یمن، بحرین، لیبیا اور اردن میں ہونیوالے مظاہروں کی جائزہ رپورٹوں سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔
خواتین خواہ مغرب کی ہوں یا مشرق کی، ہر میدان میں نہایت پراعتماد اور مضبوطی سے قدم جمارہی ہیں، اگر وہ آگے بڑھتی رہیں تو کیا ہوگا؟ متعدد ماہرین معاشیات نے دنیا میں عورت راج قائم ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ یعنی ایک ایسی دنیا معرض وجود میں آسکتی ہے جس میں بیرونی دنیا کے سارے کام عورتیں کررہی ہوں گی اور مرد گھر کا نظام سنبھال رہے ہوں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سب کچھ عورتوں کے ہاتھوں میں، ان کے اختیار میں ہو۔
برطانوی روزنامے کی ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ معاشی میدان میں خواتین کا بڑھتا ہوا کردار مختلف بڑی کمپنیوں کے مالکان کے شروع کیے گئے منصوبوں کا مرہون منت نہیں، دراصل یہ کامیابی ان معاشی حقائق کا نتیجہ ہے جو دنیا کی اہم معیشتوں میں خواتین کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو سمجھنے کے ضمن میں سامنے آئے ہیں۔ حالات اس بات کا واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ آنیوالی چند دہائیوں میں دنیا بھر میں نہ صرف خواتین کارکنان کی تعداد میں اضافہ ہوگا بلکہ وہ سرمایہ کاری کے ذریعے روزگار فراہم کرنے میں بھی مردوں سے آگے ہوں گی۔
اس کے باوجود ترقی پذیر ملکوں سمیت مغربی ممالک کی خواتین آج بھی اپنے حقوق اور آزادی کے لیے جدوجہد کررہی ہیں۔ عورت کے خود مختار ہونے کے باوجود مردوں کی بالا دستی اور حکمرانی آج بھی قائم ہے۔
جب کہ معاشرے میں خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دینے، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ان کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے دعوے اور مہذب دنیا صنفی امتیاز کے خاتمے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔
دوسری طرف قدامت پرست معاشروں میں عورت کو گھر کی چہار دیواری تک محدود رکھا جاتا ہے، پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں خواتین کو بھیڑ بکری کی مانند سمجھتے ہوئے ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے جاتے ہیں اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ وڈیروں، سرداروں، جاگیرداروں کی اجارہ داری کی وجہ سے خواتین کو ناکردہ گناہوں کی سزا دینا عام سی بات بن چکی ہے۔ شعور کی دہلیز سے کوسوں دور مردوں کا متعصب ذہن عورت کو اپنی جاگیر تصورکرتا ہے۔
وہ یہ بات بھول چکے ہیں کہ عورت بھی گوشت و پوست کی بنی، سمجھ بوجھ رکھنے والی ایک ذی روح ہے۔خواتین کا آئے روز اغوا، اجتماعی زیادتی، جنسی تشدد، غیرت کے نام پر قتل، جلائے جانے، تیزاب پھینکنے یا چولہا پھٹنے سے ہلاکت جیسے کسی نہ کسی ایک سنگین جرم کا نشانہ بننا لازمی امر ہے۔ مردوں نے جرگہ، پنچایت میں اپنی غلطیوں کی سزا کے لیے ونی جیسی قبیح وسوم کے ذریعے عورتوں کو تختہ مشق بناکر رکھا ہے۔ کبھی مذ ہب ، غربت ، پردے ،غیرت کے نام پر خواتین کو بلیک میل کیاجاتا ہے تو کبھی معاشی بدحالی ، قبائلی جھگڑے، زمین پر قبضہ جیسے واقعات میں خواتین کو قتل کردیا جاتا ہے۔
سن بلوغت سے قبل ہی معصوم بچیوں کو ایک دوسرے کے نکاح میں دیدینا یوں تو انسانیت کی بدترین توہین ہے مگر پسماندہ علاقوں میں اس طرح کے واقعات کوئی معنی نہیں رکھتے، معصوم بچیوں کو شعور کی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے ہی غلامی کی زنجیریں پہنادی جاتی ہیں اور معصوم ذہنوں میں تشدد اور وحشیانہ پن کے ایسے نقوش مرتب کیے جاتے ہیں کہ وہ کبھی غلامی کی زنجیر کو توڑنے کی ہمت نہیں کرپاتی۔ ان سب مظالم کی بڑی وجہ ناخواندگی ہے۔
بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ قدم ملاکر چلنے اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کو ان کا جائز حق اور انھیں زندگی کے مختلف شعبوں میں صلاحیتوں کے اظہار کے مواقعے دیے جائیں۔ خود کو منوانے والی بیشتر خواتین کی زندگی کا ابتدائی دور اپنے گھروں میں بے جا پابندیوں اور معاشرے کی ناانصافیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے گزرا۔ آج یہ باہمت اور بلند حوصلہ خواتین اپنے اپنے شعبوں میں اہم اورنمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔
لیکن سوال عورت کی عظمت کے ترانے گانے کا نہیں، بلکہ اسے مساوی حیثیت دینے کا ہے۔ یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ عورت، معاشی سرگرمیوں اور کچھ ایجاد کرنے کے لائق نہیں، جب کہ مرد تخلیقی سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے۔ تحقیق کی روشنی میں ایجادات کی راہ ہم وار کرتا ہے، مگر کوئی کچھ سمجھے یا کہے، اب صنفی بنیاد پر قائم کی جانیوالی تقسیم یا درجہ بندی کسی طور قبول نہیں کی جاسکتی۔
پاکستان سمیت دنیا بھر کی خواتین کو اپنے آپ کو منوانے کے لیے طویل جدوجہد کرنا پڑی، جیسے جیسے انھیں اپنی قوت اور اہمیت کا اندازہ ہوتا گیا، وہ اپنا دائرہ اثر وسیع کرتی گئیں، معمولی ملازمت کرتے کرتے آج وہ ذاتی کاروبار کررہی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں مرد و عورت میں برابری کی باتیں ہورہی ہیں، ہماری سوسائٹی کے وژن کے مطابق اگر عورتوں اور مردوں کو کام کرنے کے لیے یکساں مواقعے ملیں، تنخواہ اور دیگر مراعات میں صنفی تفریق نہ کی جائے تو اس میں سب کا بھلا ہوگا، مساوات ہر ایک کے فائدے میں ہے، اس سے معیشت مضبوط ہوگی، آجر کو مردوں ہی کی نہیں عورتوں کی بھی بہترین ورک فورس ملے گی۔
دنیا کی تاریخ بڑی زرخیز ہے یہ اور بھی زرخیز ہوسکتی ہے اگر مرد دنیا کو زیادہ بہتر جگہ بنانے کے لیے حقوق نسواں کی حمایت، مساوات کی ترویج اور خواتین کے تجربات کی قدر کریں۔ یہ فرضی کہانیاں کہ عورت صرف اولاد کی پرورش کرے۔
پیسے کے لیے شوہر کی طرف دیکھے، گھر کے کام کاج کرے، مشینوں سے دور رہے، دوسری طرف مرد طاقتور بنیں، گھروں میں حکمرانی کریں، مالی حالت خراب ہوں تو بیوی بچوں کو نظر انداز کرکے صرف اپنے بارے میں سوچیں۔ یہ سب باتیں مرد اور عورت کی حدود متعین کرتی ہیں۔
اگر ہم اپنے بچوں کا بھلا چاہتے ہیں تو ہمیں لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے لیے اس دنیا کو بہتر بنانا ہوگا۔ مساوات قانون کے ذریعے نہیں لائی جاتی ہے، اس کے لیے معاشی نظام کے ساتھ مردوں کے رویوں کو بدلنا ہوتا ہے۔
عورت دنیا کا وہ خوبصورت شاہکار ہے جو ماں کے روپ میں جنت، بہن کے روپ میں جاں نثار، بیٹی کی شکل میں رحمت اور بیوی ہو تو ہر دکھ و درد میں شریک ہے۔ ہم لوگوں کو زبردستی کوئی چیز محسوس نہیں کرواسکتے بلکہ انھیں تعلیم سے بہرہ مند کرکے یہ باور کراسکتے ہیں کہ خدا کی نظر میں سب انسان برابر ہیں۔جتنی جلد یہ حقیقت تسلیم کرلی جائے کہ عورت کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا اتنا ہی اچھا ہوگا۔ترقی اسی وقت ہوگی جب مساوات ہو، صنف کی بنیاد پر معاوضوں کے متعین میں اضافہ نہ کیا جائے۔