مشن ورلڈکپ شاہینوں کی بلند پرواز شروع
شاہینوں نے قوم کے چہروں پر خوشیاں بکھیر دیں
''نیت صاف مشکل آسان'' آپ نے اکثر یہ سنا ہو گا۔
بدقسمتی سے ورلڈکپ میں ہماری ٹیم مینجمنٹ نے ابتدا میں اس پر عمل نہ کیا، ذاتی انا کو ملکی مفاد پر ترجیح دی گئی جس کا خمیازہ بھارت اور ویسٹ انڈیز کیخلاف بدترین شکستوں کی صورت میں بھگتنا پڑا،زمبابوے اور یو اے ای پر حسب توقع فتوحات تو مل گئیں مگر اس دوران گرین شرٹس اپنے اصل رنگ میں دکھائی نہ دیے، کوئی کمی ایسی تھی جو سب ہی کو کھل رہی تھی، یقیناً قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا اشارہ وکٹ کیپر سرفراز احمد کی جانب ہے۔
ٹیم کے میڈیا منیجر لاکھ تردیدیں کرتے رہیں مگر میں اپنی بات پر قائم ہوں کہ سرفراز کی کوئی بات کپتان اور کوچ کو گراں گذری جس کے بعد انھیں نشان عبرت بنا دیا گیا، گوکہ وہ معافی بھی مانگ چکے تھے مگر گلوخاصی نہ ہو سکی۔ عمر اکمل نے بھارت اور پھر ویسٹ انڈیز سے میچ میں اہم کیچز چھوڑے، کوئی فرق نہ پڑا، مڈل آرڈر بیٹسمین یونس خان تک سے اوپننگ کرالی گئی مگر ٹیم کو سرفراز کی یاد نہ آئی، سابق کرکٹرز ، میڈیا حتاکہ بورڈ کے چیئرمین شہریارخان تک نے وکٹ کیپر کو کھلانے کا کہا مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، ایسے میں میڈیا میں سچائی سامنے آنے پر مینجمنٹ دباؤ میں آئی۔
پھر حارث سہیل بھی انجرڈ ہو گئے، اب تو سرفراز احمد کو بادل نخواستہ میدان میں اتارنا ہی پڑا، شاید مخالفین سمجھ رہے ہوں گے کہ وکٹ کیپر کا اعتماد باہر بیٹھ کرختم ہو چکا، مضبوط پروٹیز بولنگ کے سامنے وہ کچھ نہیں کر سکیںگے اور پھر وہ سینہ تان کر کہیں گے کہ ''دیکھا ہم کہتے تھے ناں کہ اس میں دم نہیں ہے'' مگر جسے عزت ملنی ہو اسے کوئی نہیں روک سکتا، سرفراز نے جاتے ہی جس بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اس پر شائقین دنگ رہ گئے۔
وہ ٹیم جو90تک پہنچتے پہنچتے6،7 وکٹیں گنوا دیتی تھی اس کا صرف ایک ہی پلیئر اس اسکور تک آؤٹ ہوا، سرفراز کے بارے میں کوچ کا کہنا تھا کہ ان کی تکنیک آسٹریلیا و نیوزی لینڈ کی پچز پر کھیلنے کیلیے درست نہیں، ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ''اچھا وہ اوپنر بھی ہے'' مگر اب کیا کہیں گے؟ کاش ٹیم کو ایسی کمزور تکنیک کے حامل چند اور بیٹسمین مل جائیں تو دیرینہ مسئلہ ہی حل ہو جائے گا، سرفراز کا کھیل دیکھ کر ایک بات ثابت ہو گی کہ اگر انھیں بھارت اور ویسٹ انڈیز کیخلاف بھی آزمایا جاتا تو شاید بدترین ناکامیاں مقدر نہ بنتیں۔
انھوں نے6کیچز لے کر ورلڈریکارڈ برابر کیا، ان میں سے2بھی اگر عمر اکمل گرا دیتے تو کیا ٹیم جیت سکتی تھی؟ عمر بُرے کھلاڑی نہیں مگر وکٹ کیپنگ ان کا شعبہ نہیں ہے، اس سے ان کی بیٹنگ پر بھی خراب اثر پڑنے لگا، اسی لیے اسپیشلسٹ کو کھلانا ہی درست ہے، وقار یونس اپنی غلطیاں افشا ہونے پر مایوس نظر آئے، اسی لیے میڈیا کانفرنس میں سرفراز کے بارے میں جب زیادہ سوالات ہوئے تو ناراض ہو کر چلے گئے۔
کوچ ہوں یا کپتان سب کو یہ سوچنا چاہیے کہ ٹیم اگر جیتے گی تو ان کا بھی نام ہو گا، ذاتی انا کو ملکی مفاد پر ترجیح دینا مناسب نہیں، گڈ بکس میں شامل ناصر جمشید کو کمزورٹیموں کیخلاف جان بوجھ کر کھلایا گیا تاکہ فارم واپس آ جائے مگر ایسا نہیں ہوا، اس سے ان کے کیریئر کو نقصان پہنچایا گیا،وہ بیچارہ سب کے مذاق کا نشانہ بن گیا، یوں مینجمنٹ 2کھلاڑیوں کے کیریئر سے کھیل گئی، سرفراز نے تو کم بیک کر لیا مگر ناصر کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔
پاکستان نے ورلڈکپ میں جنوبی افریقہ کو ہرا تو دیا مگر بیٹنگ کی خامیاں دور نہ ہوئیں، البتہ ہمارے معیار کے مطابق اس بار30رنز کا مناسب آغاز مل گیا، وہ تو اسٹین نے احمد شہزاد کا غیرمعمولی کیچ تھام لیا ورنہ وہ بھی بڑی اننگز کھیل سکتے تھے، سرفراز نے عمدہ بیٹنگ کی، انھوں نے ڈومنی کو ایک ہی اوور میں تین چھکے رسید کیے، اس دوران اعتماد دیکھنے کے قابل تھا مگر حد سے زیادہ خوداعتمادی انھیں لے ڈوبی،سرفرازکو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ عمر ایسوسی ایٹ کا کوئی لوکل میچ نہیں کھیل رہے، سامنے جنوبی افریقی ٹیم ہے جو ہاف چانسز سے بھی فائدہ اٹھا لیتی ہے۔
اسی لیے وہ دوسرا رن لیتے ہوئے وکٹ گنوا بیٹھے، یونس خان ایک اور موقع ملنے پر مثبت انداز سے کھیلتے دکھائی دیے مگر بدقسمتی سے نصف سنچری مکمل نہ کرپائے، مصباح نے گوکہ56رنز بنائے مگر اس دوران روایتی سستی سے رن ریٹ کم ہو گیا، ساتھ دیگر بیٹسمینوں پر بھی دباؤ پڑا، پھر جب جارحانہ بیٹنگ کا وقت آیا تو وہ چلتے بنے، کپتان کو اس بارے میں سوچنا ہو گا، اس میچ میں تو ان پر اتنا دباؤ نہ تھا ایسے میں کم از کم ہر گیند پر رن کا اسٹرائیک ریٹ تو رکھتے، صہیب مقصود اور عمر اکمل کی کارکردگی میں تسلسل کا فقدان لمحہ فکریہ ہے۔
شاہد آفریدی نے تیزی سے22رنز بنائے مگر دیگر لوئر آرڈر بیٹسمین فلاپ ثابت ہوئے،بارش کے سبب ڈی ایل سسٹم آزمایا گیا جس نے پروٹیز کا ہدف223 سے بڑھا کر 232کرا دیا،اس کا بھی پاکستان تو فائدہ ہوا،ابتدا میں ہی عرفان نے ڈی کاک کی وکٹ لے کر فتح کی بنیاد رکھ دی، بعد میں راحت علی اور وہاب ریاض نے بھی حریف بیٹنگ پر بجلیاں گرائیں، مجموعی طور پر 9 وکٹیں لینے والے پاکستانی لیفٹ آرم پیسرز کا جنوبی افریقہ کے پاس کوئی جواب نہ تھا، اسی لیے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
البتہ ڈی ویلیئرز خاصی دیر تک خطرے کی علامت بنے رہے،اگر کوئی ایک مستند بیٹسمین بھی ان کا ساتھ دیتا تو فتح کا پاکستانی خواب چکنا چور ہو سکتا تھا، بہرحال یہ جیت پاکستانی ٹیم کو عروج کی جانب لے آئی اور شائقین کا اعتماد بھی بحال ہو گیا، اب آئرلینڈ کو ہرا کر کوارٹر فائنل میں رسائی پہلا ہدف ہونا چاہیے، اس کے بعد بھی موجودہ کارکردگی کا سلسلہ برقرار رکھا تو قوم کو خوشیاں منانے کے مزید مواقع مل سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے ورلڈکپ میں ہماری ٹیم مینجمنٹ نے ابتدا میں اس پر عمل نہ کیا، ذاتی انا کو ملکی مفاد پر ترجیح دی گئی جس کا خمیازہ بھارت اور ویسٹ انڈیز کیخلاف بدترین شکستوں کی صورت میں بھگتنا پڑا،زمبابوے اور یو اے ای پر حسب توقع فتوحات تو مل گئیں مگر اس دوران گرین شرٹس اپنے اصل رنگ میں دکھائی نہ دیے، کوئی کمی ایسی تھی جو سب ہی کو کھل رہی تھی، یقیناً قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا اشارہ وکٹ کیپر سرفراز احمد کی جانب ہے۔
ٹیم کے میڈیا منیجر لاکھ تردیدیں کرتے رہیں مگر میں اپنی بات پر قائم ہوں کہ سرفراز کی کوئی بات کپتان اور کوچ کو گراں گذری جس کے بعد انھیں نشان عبرت بنا دیا گیا، گوکہ وہ معافی بھی مانگ چکے تھے مگر گلوخاصی نہ ہو سکی۔ عمر اکمل نے بھارت اور پھر ویسٹ انڈیز سے میچ میں اہم کیچز چھوڑے، کوئی فرق نہ پڑا، مڈل آرڈر بیٹسمین یونس خان تک سے اوپننگ کرالی گئی مگر ٹیم کو سرفراز کی یاد نہ آئی، سابق کرکٹرز ، میڈیا حتاکہ بورڈ کے چیئرمین شہریارخان تک نے وکٹ کیپر کو کھلانے کا کہا مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، ایسے میں میڈیا میں سچائی سامنے آنے پر مینجمنٹ دباؤ میں آئی۔
پھر حارث سہیل بھی انجرڈ ہو گئے، اب تو سرفراز احمد کو بادل نخواستہ میدان میں اتارنا ہی پڑا، شاید مخالفین سمجھ رہے ہوں گے کہ وکٹ کیپر کا اعتماد باہر بیٹھ کرختم ہو چکا، مضبوط پروٹیز بولنگ کے سامنے وہ کچھ نہیں کر سکیںگے اور پھر وہ سینہ تان کر کہیں گے کہ ''دیکھا ہم کہتے تھے ناں کہ اس میں دم نہیں ہے'' مگر جسے عزت ملنی ہو اسے کوئی نہیں روک سکتا، سرفراز نے جاتے ہی جس بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اس پر شائقین دنگ رہ گئے۔
وہ ٹیم جو90تک پہنچتے پہنچتے6،7 وکٹیں گنوا دیتی تھی اس کا صرف ایک ہی پلیئر اس اسکور تک آؤٹ ہوا، سرفراز کے بارے میں کوچ کا کہنا تھا کہ ان کی تکنیک آسٹریلیا و نیوزی لینڈ کی پچز پر کھیلنے کیلیے درست نہیں، ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ''اچھا وہ اوپنر بھی ہے'' مگر اب کیا کہیں گے؟ کاش ٹیم کو ایسی کمزور تکنیک کے حامل چند اور بیٹسمین مل جائیں تو دیرینہ مسئلہ ہی حل ہو جائے گا، سرفراز کا کھیل دیکھ کر ایک بات ثابت ہو گی کہ اگر انھیں بھارت اور ویسٹ انڈیز کیخلاف بھی آزمایا جاتا تو شاید بدترین ناکامیاں مقدر نہ بنتیں۔
انھوں نے6کیچز لے کر ورلڈریکارڈ برابر کیا، ان میں سے2بھی اگر عمر اکمل گرا دیتے تو کیا ٹیم جیت سکتی تھی؟ عمر بُرے کھلاڑی نہیں مگر وکٹ کیپنگ ان کا شعبہ نہیں ہے، اس سے ان کی بیٹنگ پر بھی خراب اثر پڑنے لگا، اسی لیے اسپیشلسٹ کو کھلانا ہی درست ہے، وقار یونس اپنی غلطیاں افشا ہونے پر مایوس نظر آئے، اسی لیے میڈیا کانفرنس میں سرفراز کے بارے میں جب زیادہ سوالات ہوئے تو ناراض ہو کر چلے گئے۔
کوچ ہوں یا کپتان سب کو یہ سوچنا چاہیے کہ ٹیم اگر جیتے گی تو ان کا بھی نام ہو گا، ذاتی انا کو ملکی مفاد پر ترجیح دینا مناسب نہیں، گڈ بکس میں شامل ناصر جمشید کو کمزورٹیموں کیخلاف جان بوجھ کر کھلایا گیا تاکہ فارم واپس آ جائے مگر ایسا نہیں ہوا، اس سے ان کے کیریئر کو نقصان پہنچایا گیا،وہ بیچارہ سب کے مذاق کا نشانہ بن گیا، یوں مینجمنٹ 2کھلاڑیوں کے کیریئر سے کھیل گئی، سرفراز نے تو کم بیک کر لیا مگر ناصر کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔
پاکستان نے ورلڈکپ میں جنوبی افریقہ کو ہرا تو دیا مگر بیٹنگ کی خامیاں دور نہ ہوئیں، البتہ ہمارے معیار کے مطابق اس بار30رنز کا مناسب آغاز مل گیا، وہ تو اسٹین نے احمد شہزاد کا غیرمعمولی کیچ تھام لیا ورنہ وہ بھی بڑی اننگز کھیل سکتے تھے، سرفراز نے عمدہ بیٹنگ کی، انھوں نے ڈومنی کو ایک ہی اوور میں تین چھکے رسید کیے، اس دوران اعتماد دیکھنے کے قابل تھا مگر حد سے زیادہ خوداعتمادی انھیں لے ڈوبی،سرفرازکو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ عمر ایسوسی ایٹ کا کوئی لوکل میچ نہیں کھیل رہے، سامنے جنوبی افریقی ٹیم ہے جو ہاف چانسز سے بھی فائدہ اٹھا لیتی ہے۔
اسی لیے وہ دوسرا رن لیتے ہوئے وکٹ گنوا بیٹھے، یونس خان ایک اور موقع ملنے پر مثبت انداز سے کھیلتے دکھائی دیے مگر بدقسمتی سے نصف سنچری مکمل نہ کرپائے، مصباح نے گوکہ56رنز بنائے مگر اس دوران روایتی سستی سے رن ریٹ کم ہو گیا، ساتھ دیگر بیٹسمینوں پر بھی دباؤ پڑا، پھر جب جارحانہ بیٹنگ کا وقت آیا تو وہ چلتے بنے، کپتان کو اس بارے میں سوچنا ہو گا، اس میچ میں تو ان پر اتنا دباؤ نہ تھا ایسے میں کم از کم ہر گیند پر رن کا اسٹرائیک ریٹ تو رکھتے، صہیب مقصود اور عمر اکمل کی کارکردگی میں تسلسل کا فقدان لمحہ فکریہ ہے۔
شاہد آفریدی نے تیزی سے22رنز بنائے مگر دیگر لوئر آرڈر بیٹسمین فلاپ ثابت ہوئے،بارش کے سبب ڈی ایل سسٹم آزمایا گیا جس نے پروٹیز کا ہدف223 سے بڑھا کر 232کرا دیا،اس کا بھی پاکستان تو فائدہ ہوا،ابتدا میں ہی عرفان نے ڈی کاک کی وکٹ لے کر فتح کی بنیاد رکھ دی، بعد میں راحت علی اور وہاب ریاض نے بھی حریف بیٹنگ پر بجلیاں گرائیں، مجموعی طور پر 9 وکٹیں لینے والے پاکستانی لیفٹ آرم پیسرز کا جنوبی افریقہ کے پاس کوئی جواب نہ تھا، اسی لیے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
البتہ ڈی ویلیئرز خاصی دیر تک خطرے کی علامت بنے رہے،اگر کوئی ایک مستند بیٹسمین بھی ان کا ساتھ دیتا تو فتح کا پاکستانی خواب چکنا چور ہو سکتا تھا، بہرحال یہ جیت پاکستانی ٹیم کو عروج کی جانب لے آئی اور شائقین کا اعتماد بھی بحال ہو گیا، اب آئرلینڈ کو ہرا کر کوارٹر فائنل میں رسائی پہلا ہدف ہونا چاہیے، اس کے بعد بھی موجودہ کارکردگی کا سلسلہ برقرار رکھا تو قوم کو خوشیاں منانے کے مزید مواقع مل سکتے ہیں۔