فُل ٹائم وزیرِخارجہ کا تقرر کیوں ناگزیر ہے
سچی بات یہ ہے کہ بھارت میں بھی، وزارتِ خارجہ کے افق پر، کوئی آئیڈیل صورتحال نہیں ہے۔
کیا پاکستان کے وزیراعظم بھی دو بھارتی وزرائے اعظم کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں؟ تقریباً دو سال کا عرصہ ہو چلا ہے لیکن ہنوذ پاکستان کے وزیرِ خارجہ کا قلم دان بھی نواز شریف کی تحویل میں ہے۔ ہمسایہ ملک کی خارجہ تاریخ بتاتی ہے کہ ایک زمانہ وہاں بھی ایسا آیا تھا جب بھارت کے ایک نہیں بلکہ یکے بعد دیگرے دو وزرائے اعظم نے وزیرخارجہ کا عہدہ بھی اپنے قبضے میں لے رکھا تھا۔ اور یہ تھے جواہر لال نہرو اور لال بہادر شاستری۔ ساٹھ کے عشرے میں پورے بھارت کے اہلِ دانش مسلسل یہ سوال اٹھاتے رہے کہ آیا بھارت اتنا بانجھ ہو گیا ہے کہ اس کی کوکھ سے اب کوئی وزیرخارجہ تولد نہیں ہو سکتا؟
نہرو صاحب اخبارات میں اٹھائے گئے ان سوالات کو سنتے اور پڑھتے لیکن اپنی جگہ سے ٹس سے مَس نہ ہوتے۔ ان کی موت کے بعد لال بہادر شاستری وزیراعظم ہند بنے تو انھوں نے بھی یہی وتیرہ اپنائے رکھا۔ جب سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بھارت کے کسی فل ٹائم وزیرخارجہ کے نہ ہونے کے بارے میں شدت سے سوالات و اعتراضات اٹھائے جانے لگے تو شاستری صاحب کی ضد ٹوٹنے لگی۔ انھوں نے انگریزی اخبار ''اسٹیٹسمین'' کے ایک مؤثر اور معروف اخبار نویس سے پوچھا: آپ کی نظر میں کونسا سیاستدان بھارت کے لیے بہتر وزیرخارجہ ثابت ہو سکتا ہے؟
انھیں جواباً مشورہ دیا گیا کہ نہرو کی بیٹی مسز اندرا گاندھی کو وزیرخارجہ کا قلمدان سونپ دیا جائے۔ شاستری جی بھنّا گئے۔ کہا: ''صحافی صاحب، آپ سیاست نہیں سمجھتے۔ وہ تو وزارتِ عظمیٰ کے خواب دیکھ رہی ہے۔ اگر اسے وزیرخارجہ بنایا گیا تو وہ زیادہ اہم اور طاقتور ہو جائے گی۔'' چنانچہ صلاح مشورے کے بعد، جب کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا، وزیراعظم لال بہادر شاستری نے ایم سی چھاگلہ کو اپنا وزیر خارجہ بنا دیا۔ چھاگلہ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ بھارت کے اُن گنے چنے سیاستدانوں میں سے ایک تھے جو پاکستان سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے خواہاں رہتے تھے۔
بلاشبہ صدر یا وزیراعظم کے بعد کسی بھی ملک میں دوسری اہم ترین شخصیت وزیرِخارجہ کی سمجھی جاتی ہے۔ وہ ملک کا چہرہ بھی ہوتا ہے اور آئی ڈی کارڈ بھی۔ پاکستان کی مقتدرانہ سیاست ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ یہاں تو ایک ایسے سیاستدان بھی وزیرخارجہ بنے جو اپنے قائد کو پیچھے چھوڑ گئے، اپنے صدر کو بدنام کیا اور بعد ازاں پاکستان کے صدر اور وزیراعظم بھی بن گئے۔ یہ تھے ذوالفقار علی بھٹو صاحب، خارجہ محاذ پر جن کی ذہانت اور فطانت کا سکّہ بیٹھا ہوا تھا اور خارجہ امور پر جنھیں کامل گرفت حاصل تھی۔ جناب نواز شریف کو مگر اپنے کسی سیاسی ساتھی سے، ایوب خان کی طرح، خوف محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے قرب و جوار میں کوئی ایسا سیاستدان سرے سے ہے ہی نہیں جو انھیں چیلنج کر سکے یا ان کے مدِ مقابل کھڑا ہونے کی سکت رکھتا ہو۔ اس لیے انھیں بلا خوف و خطر اپنی تحویل میں رکھا پاکستان کی وزراتِ خارجہ کا قلمدان کسی مناسب ساتھی کو سونپ دینا چاہیے۔
یہ اب ناگزیر ہو چکا ہے کہ فل ٹائم وزیرخارجہ نہ ہونے سے عالمی سطح پر پاکستان کو بہت سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نواز شریف کو ملک کی معاشی بدحالی کا بھی سامنا ہے، توانائی کا گہرا ہوتا ہوا بحران بھی آنکھیں دکھا رہا ہے اور دہشت گردی کے عفریت نے بہت سے گمبھیر اور سنگین مسائل کھڑے کر رکھے ہیں۔ ان سے نمٹنا اور ان کا اطمینان بخش پائیدار حل نکالنا وزیراعظم کی اہم ترین ذمے داریوں میں سرِ فہرست ہے۔ چنانچہ وزارتِ خارجہ کے بھاری بھرکم اور حساس معاملات کو اب انھیں کسی اور کے سپرد کر دینا چاہیے۔
سچی بات یہ ہے کہ بھارت میں بھی، وزارتِ خارجہ کے افق پر، کوئی آئیڈیل صورتحال نہیں ہے۔ وہاں وزیرخارجہ سشما سوراج اور وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان سرد جنگ جاری ہے لیکن اس کشاکش سے جن خامیوں اور کمیوں نے جنم لیا ہے، انھیں ''انڈین فارن سروس'' (IFS) کے بہترین دماغ دور کر رہے ہیں۔ تازہ مثال بھارت کے نئے سیکریٹری خارجہ سبرا مینیم جے شنکر کی ہے، جنہوں نے حال ہی میں پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کو جونہی اپنی خاتون سکھ سیکریٹری خارجہ، سجاتا سنگھ، میں پیشہ وارانہ کمزوریاں اور کجیاں نظر آئیں، انھوں نے اس محترمہ کو عہدے سے ہٹانے میں ذرا بھی تاخیر نہ کی اور فوراً سبرا مینیم جے شنکر کو ان کی جگہ فائز کر دیا گیا۔ شنکر صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھارتی وزارتِ خارجہ، آئی ایف ایس، کے نہایت لائق فائق، کہنہ مشق اور گہری کمٹمنٹ رکھنے والے افسر ہیں۔
روسی، چینی، کورین اور انگریزی زبانوں کے ماہر۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے عالمی تعلقاتِ عامہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے شنکر جی امریکا میں بھارت کے سفیر تھے۔ گزشتہ سال ستمبر میں بھارتی وزیراعظم کا نیویارک اور واشنگٹن میں جو شاندار استقبال ہوا، نریندر مودی امریکی صدر سے جس طرح ملاقاتیں کرنے میں کامیاب ہوئے اور اب بارک اوباما نے جس اسلوب میں خوشی خوشی دہلی کا سہ روزہ دورہ کر کے بھارت کو نیوکلیئر سپلائر گروپ کا رکن بنایا ہے، ان معاشی اور سفارتی کامیابیوں کے عقب میں انھی سبرا مینیم جے شنکر صاحب کی ذہانت اور محنت کارفرما تھی۔ انھوں نے وطن کے ساتھ اپنے وزیراعظم کا دل بھی جیت لیا تھا؛ چنانچہ نریندر مودی کے ہاتھوں ان کا سیکریٹری خارجہ نامزد ہونا از حد ضروری ہو گیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ شنکر صاحب چینی امور کے بھی ایکسپرٹ ہیں، اس لیے بھی انھیں اس عہدے سے نوازا گیا ہے کہ بھارت کو چینیوں سے کئی اہم عالمی معاملات (خصوصاً ہند چینی متنازعہ سرحدی معاملات) پر کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ مئی 2015ء میں نریندر مودی چین کا دورہ کرنے جا رہے ہیں۔ شنکر صاحب اس دورے میں کلیدی کردار ادا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو چکے ہیں۔ یہ صاحب طویل عرصہ تک چین میں بھارت کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔
ان حقائق کی موجودگی میں از بس ضروری ہے کہ جناب نواز شریف فوری طور پر اپنے کسی معتمد اور باصلاحیت ساتھی کو وزیرخارجہ مقرر فرمائیں۔ اگر عدالتی ضرورت کے تحت بہ امرِ مجبوری وزارتِ دفاع اور وزارتِ قانون سے دستکش ہوا جا سکتا تھا تو وزارتِ خارجہ کے بارے میں اپنی مرضی اور منشا کے مطابق فیصلہ کر کے ملکی مفادات کا تحفظ بھی کیا جا سکتا ہے اور اپنے امیج کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ فل ٹائم وزیرخارجہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو خارجہ محاذ پر آجکل جن مشکلات کا سامنا ہے (خصوصاً واشنگٹن میں فروکش فیصلہ سازوں کے درمیان)،ان کے پائیدار اور مؤثر حل کے لیے ضروری ہے کہ جناب وزیراعظم ایک ایسے تھنک ٹینک کی تشکیل کریں جس میں شمشاد احمد خان، ریاض کھوکھر، ریاض احمد خان، عبدالستار وغیرہ ایسے ریٹائرڈ خارجہ سیکریٹری صاحبان کو شامل کیا جائے تا کہ ان کے تعلقات اور تجربات سے استفادہ کیا جا سکے۔
خارجہ محاذ کے یہ جہاندیدہ اور سنجیدہ فکر اصحاب ہماری وزارتِ خارجہ کے لیے اب بھی مفید ثابت ہو سکتے ہیں اور وہ اپنی سفارشات براہ راست جناب وزیراعظم کو بھی بھجوا سکتے ہیں۔ اگر ممکن ہو تو ان تجربہ کار افراد سے وزیراعظم نواز شریف براہ راست ملاقاتیں کر کے وطن عزیز کو خارجہ امور میں درپیش بہت سے اشکالات دور کر سکتے ہیں۔ سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنے دور میں ایسے ہی ریٹائرڈ دانشمند لوگوں پر مشتمل ایک ''قومی مشاورتی کمیٹی'' تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی نے بھارت میں غیر ملکی سرمایہ کار لانے میں زبردست کردار ادا کیا۔ ہمارے وزیراعظم کو بھی اس کے تتبع میں کوئی قدم ضرور اٹھانا چاہیے۔
نہرو صاحب اخبارات میں اٹھائے گئے ان سوالات کو سنتے اور پڑھتے لیکن اپنی جگہ سے ٹس سے مَس نہ ہوتے۔ ان کی موت کے بعد لال بہادر شاستری وزیراعظم ہند بنے تو انھوں نے بھی یہی وتیرہ اپنائے رکھا۔ جب سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بھارت کے کسی فل ٹائم وزیرخارجہ کے نہ ہونے کے بارے میں شدت سے سوالات و اعتراضات اٹھائے جانے لگے تو شاستری صاحب کی ضد ٹوٹنے لگی۔ انھوں نے انگریزی اخبار ''اسٹیٹسمین'' کے ایک مؤثر اور معروف اخبار نویس سے پوچھا: آپ کی نظر میں کونسا سیاستدان بھارت کے لیے بہتر وزیرخارجہ ثابت ہو سکتا ہے؟
انھیں جواباً مشورہ دیا گیا کہ نہرو کی بیٹی مسز اندرا گاندھی کو وزیرخارجہ کا قلمدان سونپ دیا جائے۔ شاستری جی بھنّا گئے۔ کہا: ''صحافی صاحب، آپ سیاست نہیں سمجھتے۔ وہ تو وزارتِ عظمیٰ کے خواب دیکھ رہی ہے۔ اگر اسے وزیرخارجہ بنایا گیا تو وہ زیادہ اہم اور طاقتور ہو جائے گی۔'' چنانچہ صلاح مشورے کے بعد، جب کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا، وزیراعظم لال بہادر شاستری نے ایم سی چھاگلہ کو اپنا وزیر خارجہ بنا دیا۔ چھاگلہ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ بھارت کے اُن گنے چنے سیاستدانوں میں سے ایک تھے جو پاکستان سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے خواہاں رہتے تھے۔
بلاشبہ صدر یا وزیراعظم کے بعد کسی بھی ملک میں دوسری اہم ترین شخصیت وزیرِخارجہ کی سمجھی جاتی ہے۔ وہ ملک کا چہرہ بھی ہوتا ہے اور آئی ڈی کارڈ بھی۔ پاکستان کی مقتدرانہ سیاست ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ یہاں تو ایک ایسے سیاستدان بھی وزیرخارجہ بنے جو اپنے قائد کو پیچھے چھوڑ گئے، اپنے صدر کو بدنام کیا اور بعد ازاں پاکستان کے صدر اور وزیراعظم بھی بن گئے۔ یہ تھے ذوالفقار علی بھٹو صاحب، خارجہ محاذ پر جن کی ذہانت اور فطانت کا سکّہ بیٹھا ہوا تھا اور خارجہ امور پر جنھیں کامل گرفت حاصل تھی۔ جناب نواز شریف کو مگر اپنے کسی سیاسی ساتھی سے، ایوب خان کی طرح، خوف محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے قرب و جوار میں کوئی ایسا سیاستدان سرے سے ہے ہی نہیں جو انھیں چیلنج کر سکے یا ان کے مدِ مقابل کھڑا ہونے کی سکت رکھتا ہو۔ اس لیے انھیں بلا خوف و خطر اپنی تحویل میں رکھا پاکستان کی وزراتِ خارجہ کا قلمدان کسی مناسب ساتھی کو سونپ دینا چاہیے۔
یہ اب ناگزیر ہو چکا ہے کہ فل ٹائم وزیرخارجہ نہ ہونے سے عالمی سطح پر پاکستان کو بہت سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نواز شریف کو ملک کی معاشی بدحالی کا بھی سامنا ہے، توانائی کا گہرا ہوتا ہوا بحران بھی آنکھیں دکھا رہا ہے اور دہشت گردی کے عفریت نے بہت سے گمبھیر اور سنگین مسائل کھڑے کر رکھے ہیں۔ ان سے نمٹنا اور ان کا اطمینان بخش پائیدار حل نکالنا وزیراعظم کی اہم ترین ذمے داریوں میں سرِ فہرست ہے۔ چنانچہ وزارتِ خارجہ کے بھاری بھرکم اور حساس معاملات کو اب انھیں کسی اور کے سپرد کر دینا چاہیے۔
سچی بات یہ ہے کہ بھارت میں بھی، وزارتِ خارجہ کے افق پر، کوئی آئیڈیل صورتحال نہیں ہے۔ وہاں وزیرخارجہ سشما سوراج اور وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان سرد جنگ جاری ہے لیکن اس کشاکش سے جن خامیوں اور کمیوں نے جنم لیا ہے، انھیں ''انڈین فارن سروس'' (IFS) کے بہترین دماغ دور کر رہے ہیں۔ تازہ مثال بھارت کے نئے سیکریٹری خارجہ سبرا مینیم جے شنکر کی ہے، جنہوں نے حال ہی میں پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کو جونہی اپنی خاتون سکھ سیکریٹری خارجہ، سجاتا سنگھ، میں پیشہ وارانہ کمزوریاں اور کجیاں نظر آئیں، انھوں نے اس محترمہ کو عہدے سے ہٹانے میں ذرا بھی تاخیر نہ کی اور فوراً سبرا مینیم جے شنکر کو ان کی جگہ فائز کر دیا گیا۔ شنکر صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھارتی وزارتِ خارجہ، آئی ایف ایس، کے نہایت لائق فائق، کہنہ مشق اور گہری کمٹمنٹ رکھنے والے افسر ہیں۔
روسی، چینی، کورین اور انگریزی زبانوں کے ماہر۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے عالمی تعلقاتِ عامہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے شنکر جی امریکا میں بھارت کے سفیر تھے۔ گزشتہ سال ستمبر میں بھارتی وزیراعظم کا نیویارک اور واشنگٹن میں جو شاندار استقبال ہوا، نریندر مودی امریکی صدر سے جس طرح ملاقاتیں کرنے میں کامیاب ہوئے اور اب بارک اوباما نے جس اسلوب میں خوشی خوشی دہلی کا سہ روزہ دورہ کر کے بھارت کو نیوکلیئر سپلائر گروپ کا رکن بنایا ہے، ان معاشی اور سفارتی کامیابیوں کے عقب میں انھی سبرا مینیم جے شنکر صاحب کی ذہانت اور محنت کارفرما تھی۔ انھوں نے وطن کے ساتھ اپنے وزیراعظم کا دل بھی جیت لیا تھا؛ چنانچہ نریندر مودی کے ہاتھوں ان کا سیکریٹری خارجہ نامزد ہونا از حد ضروری ہو گیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ شنکر صاحب چینی امور کے بھی ایکسپرٹ ہیں، اس لیے بھی انھیں اس عہدے سے نوازا گیا ہے کہ بھارت کو چینیوں سے کئی اہم عالمی معاملات (خصوصاً ہند چینی متنازعہ سرحدی معاملات) پر کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ مئی 2015ء میں نریندر مودی چین کا دورہ کرنے جا رہے ہیں۔ شنکر صاحب اس دورے میں کلیدی کردار ادا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو چکے ہیں۔ یہ صاحب طویل عرصہ تک چین میں بھارت کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔
ان حقائق کی موجودگی میں از بس ضروری ہے کہ جناب نواز شریف فوری طور پر اپنے کسی معتمد اور باصلاحیت ساتھی کو وزیرخارجہ مقرر فرمائیں۔ اگر عدالتی ضرورت کے تحت بہ امرِ مجبوری وزارتِ دفاع اور وزارتِ قانون سے دستکش ہوا جا سکتا تھا تو وزارتِ خارجہ کے بارے میں اپنی مرضی اور منشا کے مطابق فیصلہ کر کے ملکی مفادات کا تحفظ بھی کیا جا سکتا ہے اور اپنے امیج کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ فل ٹائم وزیرخارجہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو خارجہ محاذ پر آجکل جن مشکلات کا سامنا ہے (خصوصاً واشنگٹن میں فروکش فیصلہ سازوں کے درمیان)،ان کے پائیدار اور مؤثر حل کے لیے ضروری ہے کہ جناب وزیراعظم ایک ایسے تھنک ٹینک کی تشکیل کریں جس میں شمشاد احمد خان، ریاض کھوکھر، ریاض احمد خان، عبدالستار وغیرہ ایسے ریٹائرڈ خارجہ سیکریٹری صاحبان کو شامل کیا جائے تا کہ ان کے تعلقات اور تجربات سے استفادہ کیا جا سکے۔
خارجہ محاذ کے یہ جہاندیدہ اور سنجیدہ فکر اصحاب ہماری وزارتِ خارجہ کے لیے اب بھی مفید ثابت ہو سکتے ہیں اور وہ اپنی سفارشات براہ راست جناب وزیراعظم کو بھی بھجوا سکتے ہیں۔ اگر ممکن ہو تو ان تجربہ کار افراد سے وزیراعظم نواز شریف براہ راست ملاقاتیں کر کے وطن عزیز کو خارجہ امور میں درپیش بہت سے اشکالات دور کر سکتے ہیں۔ سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنے دور میں ایسے ہی ریٹائرڈ دانشمند لوگوں پر مشتمل ایک ''قومی مشاورتی کمیٹی'' تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی نے بھارت میں غیر ملکی سرمایہ کار لانے میں زبردست کردار ادا کیا۔ ہمارے وزیراعظم کو بھی اس کے تتبع میں کوئی قدم ضرور اٹھانا چاہیے۔