نامعلوم کو معلوم کرنا کس کی ذمے داری
ملک میں طویل عرصے سے امن وامان کی صورتحال مخدوش چلی آرہی ہے۔
ملک میں طویل عرصے سے امن وامان کی صورتحال مخدوش چلی آرہی ہے۔ دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر نے تو شہریوں کی زندگیاں اجیرن کی ہوئی تھیں لیکن کچھ عرصے سے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں شہریوں پر تشدد اور ان کی ہلاکتوں کے واقعات بھی تواتر کے ساتھ سامنے آرہے ہیں جن کے ورثا میتیں لے کر احتجاجاً شاہراہوں پر دھرنے دے کر بیٹھ جاتے ہیں تو متعلقہ اہلکاروں کے خلاف رسمی سی کارروائی دیکھنے میں آجاتی ہے یا پھر عدالتیں خود نوٹس لیتی ہیں تو کچھ کارروائی آگے بڑھتی ہے۔
لفظ نامعلوم نہ جانے کب سے ہماری لغت اور معاشرتی زندگی کا حصہ بنا ہوا ہے، اب یہ لفظ ہماری زندگی کا اوڑھنا بچھونا اور خوف کی علامت بن چکا ہے جس کا استعمال جان خلاصی کے لیے انصاف و قانون نافذ کرنیوالے ادارے خوب کرتے ہیں۔ اس کے استعمال سے وہ کام کی مشقت اور خطرات سے بھی بچ جاتے ہیں اور مالی مفادات بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ پہلے لفظ نامعلوم شاذ و نادر اور صحیح معنوں میں سننے میں آتا تھا مثلاً گاڑی سے گر کر یا ٹرین کی زد میں آکر نامعلوم شخص ہلاک، ہائی وے پر نامعلوم گاڑی کسی شخص کو کچل گئی یا نامعلوم افراد نے کسی گاڑی کو آگ لگادی یا نقب زنی کی واردات کردی وغیرہ وغیرہ مگر اب تو نامعلوم افراد اجتماعی خوف و دہشت کی علامت بن چکے ہیں۔
روزانہ کئی بے گناہ شہری ان نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اغوا ہوتے اور تاوان ادا کرتے ہیں۔ ان کی تشدد زدہ لاشیں بھی ملتی ہیں، نامعلوم افراد کبھی ریلوے لائن اکھاڑ دیتے ہیں تو کبھی گیس لائن اڑا دیتے ہیں، ان کے ہاتھوں بھتے کی پرچیاں بھی ملتی ہیں۔ ٹریفک جام بھی صبح و شام کا مسئلہ بن گیا ہے اور اس دوران ٹریفک میں پھنسے شہریوں کا نامعلوم افراد کے ہاتھوں لٹنا بھی معمول کا حصہ بن گیا ہے۔ شہری تو انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں، بعضوں کی شناخت بھی رکھتے ہیں لیکن قانون نافذ کرنیو الے اداروں اور سی سی ٹی وی کیمروں کی نظر میں یہ جرائم پیشہ افراد نامعلوم ہی رہتے ہیں البتہ یہ ضرور دیکھنے میں آتا ہے کہ ان نامعلوم افراد کی آڑ اور شبہ میں امن پسند اور بیگناہ شہریوں کی درگت بنادی جاتی ہے۔
کچھ برسوں سے نامعلوم ایجنسی اہلکاروں کے ہاتھوں شہریوں کو اغوا و لاپتہ کرنے اور ان کے گھر والوں سے رشوتیں طلب کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے، ملک بھر میں ہزاروں شہری لاپتہ ہیں جن کے ورثا در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، جو عدالتوں، حکومتی ایوانوں، پریس کلبوں اور شاہراہوں پر مظاہرے کررہے ہیں، دھرنے دے رہے ہیں۔ ان سے متعلق سیکڑوں مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ جن پر عدالتیں ان کی بازیابی کے لیے سر پیٹ کر رہ گئی ہیں۔ ان کے اہل خانہ انصاف کے حصول اور اپنے پیاروں کی بازیابی یا ان کی گرفتاری ظاہر کرنے اور کسی جرم میں ملوث ہونے کی صورت میں جرم کی نوعیت سے آگاہ کرنے اور قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ایسے افراد کی بازیابی کی کوششیں کرنیوالے خواجہ خالد اور علی حسنین ایڈووکیٹ جیسے لوگ بھی اس جرم کی پاداش میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ہیں۔
اب ایک نئی وبا تیزی سے پھیلنا شروع ہوگئی ہے کہ پولیس کی وردیوں میں ملبوس نامعلوم افراد یا نامعلوم افراد کے بھیس میں پولیس اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکار شہریوں کے لیے خوف و دہشت کی علامت بن گئے ہیں جو گھروں میں چھاپے مار رہے ہیں، شہریوں کو اغوا اور لاپتہ کر رہے ہیں اور ان کی رہائی کے عوض بھاری رشوتیں اور تاوان بھی حاصل کررہے ہیں گھروں میں لوٹ مار بھی کررہے ہیں۔ اس قسم کی کارروائیاں بلا لحاظ رنگ و نسل اور معاشی مرتبہ و مقام کے ہو رہی ہیں۔ گزشتہ روز کراچی میں ضیا کالونی کچی آبادی کے ایک گھر میں پولیس موبائل میں سوار جدید اسلحہ سے لیس نقاب پوش نامعلوم افراد داخل ہوئے۔
گھر والوں کو یرغمال بناکر ایک گھنٹے تک لوٹ مار کرتے رہے اور گھر کا قیمتی سامان، کمپیوٹر، موبائل فونز، پرائز بانڈ، نقدی اور زیورات لے کر فرار ہوگئے۔ یہ نامعلوم افراد بغیر نمبر پلیٹ کی پولیس موبائل میں آئے تھے جنھوں نے شناخت چھپانے کے لیے چہروں پر نقاب پہنے ہوئے تھے۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ واقعے کی بروقت اطلاع پولیس کو دے دی گئی تھی۔ پولیس موبائل جائے واردات کے نزدیک گلی کے کونے پر کھڑی ہوئی تھی جو ملزمان کے نکل جانے کے بعد گلی میں داخل ہوئی جب مکینوں نے پولیس کی توجہ اس نقلی پولیس موبائل کی طرف دلوائی تو انھوں نے کہہ دیا کہ انھیں ایسی کوئی موبائل نظر نہیں آئی۔
کراچی شہر میں ایک جانب تو نامعلوم افراد نے شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے تو دوسری جانب نامعلوم پولیس اہلکاروں نے خوف و دہشت اور عدم تحفظ کے احساس کو مزید گہرا کردیا ہے۔ شہریوں کی شکایت ہے کہ سادہ اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی وردیوں میں ملبوس سرکاری گاڑیوں میں سوار نامعلوم افراد اپنے ساتھ سیڑھیاں لے کر آتے ہیں جن کے ذریعے مکان کی بالائی منزلوں یا صحن میں پہنچ کر لوٹ مار کرتے ہیں اور گھر کے بعض افراد کو حراست میں لے کر اغوا یا لاپتہ کردیتے ہیں۔ ان کی رہائی کے عوض رشوتیں اور تاوان بھی طلب کرتے ہیں۔ اکثر اوقات ان کی گاڑیوں پر نمبر پلیٹ یا کوئی اور نشانی بھی نہیں ہوتی جس سے ان کی شناخت یا شکایت کی جاسکے۔
مغویوں کے اہل خانہ متعلقہ تھانوں میں جاکر معلومات کردیتے ہیں تو وہ واقعے سے لاعلمی کا اظہار کردیتے ہیں۔ اس سلسلے میں نہ کوئی تعاون کرتے ہیں نہ ہی واقعے کی ایف آئی آر درج کرتے ہیں۔ اس قسم کے سادہ لباس اسلحہ بردار نامعلوم افراد شہریوں کو سرعام گھروں، بازاروں اور ہوٹلوں سے جب چاہیں اٹھالیتے ہیں جن سے کوئی شخص یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کرسکتا کہ وہ کون لوگ ہیں، کہاں سے آئے ہیں، کسی شخص کو اس طرح اٹھاکر کیوں لے جا رہے ہیں، بغیر وارنٹ، بغیر شناخت کرائے اور جرم بتائے بغیر اٹھالیے جانے والے افراد کے اہلخانہ اسے تھانوں اور سی آئی اے سینٹر میں تلاش کرنے کے بعد اسپتالوں اور مردہ خانوں میں بھی تلاش کرتے ہیں۔
ایجنسیوں کی تحویل میں ملزموں کی ہلاکتوں کے واقعات بھی معمول بن چکے ہیں۔ اس وقت کراچی شہر کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر لا تعداد ایجنسیاں کام کر رہی ہیں جنھیں جرائم کی بیخ کنی کے لیے بہت سے اختیارات سے نوازا گیا ہے، ان کے بعض اہلکار ان اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں جو خود بھی جرائم میں ملوث ہیں اور جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی بھی کر رہے ہیں، ان میں سے بعض قتل، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان اور اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کروانے کے الزام میں گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ ملک اور شہر کی موجودہ صورتحال کے تحت کیے گئے اقدامات کی وجہ سے کچھ لسانی اور مذہبی شناخت رکھنے والے طبقات خاص طور پر متاثر اور خوف و دہشت اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
پولیس اور نادرا جیسے محکمہ قانون پسند اور حقیقی پاکستانی شہریوں کے لیے خوف کی علامت بن چکے ہیں۔ اگر اس سلسلے پر قابو پاکر ان اداروں کو عوام دوست اور با اعتماد ادارہ نہیں بنایا گیا تو ملک کی امن و امان کی صورتحال اور ترقی دونوں متاثر ہوںگی۔ نامعلوم کو معلوم کرنا قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا کام ہے، اب اس لفظ کو ان کی ڈکشنری سے نکالنا ہوگا۔ اس وقت قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی حالت اصلاح طلب اور فوری اور ہنگامی نوعیت کے اقدامات کی متقاضی ہے۔ ان اداروں میں نگران اور احتساب کے موثر نظام سے ہی ان کی کارکردگی اور اہلیت کو بناکر عوام کا اعتماد بحال کرایاجاسکتا ہے ورنہ سیکیورٹی کے نام پر اربوں روپے کے اخراجات عجلتی و وقتی اقدامات اور قانون سازی محض نمائشی ہی رہیںگے جن سے اصلاح احوال کے بجائے عام شہریوں کی پریشانیوں میں ہی اضافہ ہوگا۔
لفظ نامعلوم نہ جانے کب سے ہماری لغت اور معاشرتی زندگی کا حصہ بنا ہوا ہے، اب یہ لفظ ہماری زندگی کا اوڑھنا بچھونا اور خوف کی علامت بن چکا ہے جس کا استعمال جان خلاصی کے لیے انصاف و قانون نافذ کرنیوالے ادارے خوب کرتے ہیں۔ اس کے استعمال سے وہ کام کی مشقت اور خطرات سے بھی بچ جاتے ہیں اور مالی مفادات بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ پہلے لفظ نامعلوم شاذ و نادر اور صحیح معنوں میں سننے میں آتا تھا مثلاً گاڑی سے گر کر یا ٹرین کی زد میں آکر نامعلوم شخص ہلاک، ہائی وے پر نامعلوم گاڑی کسی شخص کو کچل گئی یا نامعلوم افراد نے کسی گاڑی کو آگ لگادی یا نقب زنی کی واردات کردی وغیرہ وغیرہ مگر اب تو نامعلوم افراد اجتماعی خوف و دہشت کی علامت بن چکے ہیں۔
روزانہ کئی بے گناہ شہری ان نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اغوا ہوتے اور تاوان ادا کرتے ہیں۔ ان کی تشدد زدہ لاشیں بھی ملتی ہیں، نامعلوم افراد کبھی ریلوے لائن اکھاڑ دیتے ہیں تو کبھی گیس لائن اڑا دیتے ہیں، ان کے ہاتھوں بھتے کی پرچیاں بھی ملتی ہیں۔ ٹریفک جام بھی صبح و شام کا مسئلہ بن گیا ہے اور اس دوران ٹریفک میں پھنسے شہریوں کا نامعلوم افراد کے ہاتھوں لٹنا بھی معمول کا حصہ بن گیا ہے۔ شہری تو انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں، بعضوں کی شناخت بھی رکھتے ہیں لیکن قانون نافذ کرنیو الے اداروں اور سی سی ٹی وی کیمروں کی نظر میں یہ جرائم پیشہ افراد نامعلوم ہی رہتے ہیں البتہ یہ ضرور دیکھنے میں آتا ہے کہ ان نامعلوم افراد کی آڑ اور شبہ میں امن پسند اور بیگناہ شہریوں کی درگت بنادی جاتی ہے۔
کچھ برسوں سے نامعلوم ایجنسی اہلکاروں کے ہاتھوں شہریوں کو اغوا و لاپتہ کرنے اور ان کے گھر والوں سے رشوتیں طلب کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے، ملک بھر میں ہزاروں شہری لاپتہ ہیں جن کے ورثا در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، جو عدالتوں، حکومتی ایوانوں، پریس کلبوں اور شاہراہوں پر مظاہرے کررہے ہیں، دھرنے دے رہے ہیں۔ ان سے متعلق سیکڑوں مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ جن پر عدالتیں ان کی بازیابی کے لیے سر پیٹ کر رہ گئی ہیں۔ ان کے اہل خانہ انصاف کے حصول اور اپنے پیاروں کی بازیابی یا ان کی گرفتاری ظاہر کرنے اور کسی جرم میں ملوث ہونے کی صورت میں جرم کی نوعیت سے آگاہ کرنے اور قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ایسے افراد کی بازیابی کی کوششیں کرنیوالے خواجہ خالد اور علی حسنین ایڈووکیٹ جیسے لوگ بھی اس جرم کی پاداش میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ہیں۔
اب ایک نئی وبا تیزی سے پھیلنا شروع ہوگئی ہے کہ پولیس کی وردیوں میں ملبوس نامعلوم افراد یا نامعلوم افراد کے بھیس میں پولیس اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکار شہریوں کے لیے خوف و دہشت کی علامت بن گئے ہیں جو گھروں میں چھاپے مار رہے ہیں، شہریوں کو اغوا اور لاپتہ کر رہے ہیں اور ان کی رہائی کے عوض بھاری رشوتیں اور تاوان بھی حاصل کررہے ہیں گھروں میں لوٹ مار بھی کررہے ہیں۔ اس قسم کی کارروائیاں بلا لحاظ رنگ و نسل اور معاشی مرتبہ و مقام کے ہو رہی ہیں۔ گزشتہ روز کراچی میں ضیا کالونی کچی آبادی کے ایک گھر میں پولیس موبائل میں سوار جدید اسلحہ سے لیس نقاب پوش نامعلوم افراد داخل ہوئے۔
گھر والوں کو یرغمال بناکر ایک گھنٹے تک لوٹ مار کرتے رہے اور گھر کا قیمتی سامان، کمپیوٹر، موبائل فونز، پرائز بانڈ، نقدی اور زیورات لے کر فرار ہوگئے۔ یہ نامعلوم افراد بغیر نمبر پلیٹ کی پولیس موبائل میں آئے تھے جنھوں نے شناخت چھپانے کے لیے چہروں پر نقاب پہنے ہوئے تھے۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ واقعے کی بروقت اطلاع پولیس کو دے دی گئی تھی۔ پولیس موبائل جائے واردات کے نزدیک گلی کے کونے پر کھڑی ہوئی تھی جو ملزمان کے نکل جانے کے بعد گلی میں داخل ہوئی جب مکینوں نے پولیس کی توجہ اس نقلی پولیس موبائل کی طرف دلوائی تو انھوں نے کہہ دیا کہ انھیں ایسی کوئی موبائل نظر نہیں آئی۔
کراچی شہر میں ایک جانب تو نامعلوم افراد نے شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے تو دوسری جانب نامعلوم پولیس اہلکاروں نے خوف و دہشت اور عدم تحفظ کے احساس کو مزید گہرا کردیا ہے۔ شہریوں کی شکایت ہے کہ سادہ اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی وردیوں میں ملبوس سرکاری گاڑیوں میں سوار نامعلوم افراد اپنے ساتھ سیڑھیاں لے کر آتے ہیں جن کے ذریعے مکان کی بالائی منزلوں یا صحن میں پہنچ کر لوٹ مار کرتے ہیں اور گھر کے بعض افراد کو حراست میں لے کر اغوا یا لاپتہ کردیتے ہیں۔ ان کی رہائی کے عوض رشوتیں اور تاوان بھی طلب کرتے ہیں۔ اکثر اوقات ان کی گاڑیوں پر نمبر پلیٹ یا کوئی اور نشانی بھی نہیں ہوتی جس سے ان کی شناخت یا شکایت کی جاسکے۔
مغویوں کے اہل خانہ متعلقہ تھانوں میں جاکر معلومات کردیتے ہیں تو وہ واقعے سے لاعلمی کا اظہار کردیتے ہیں۔ اس سلسلے میں نہ کوئی تعاون کرتے ہیں نہ ہی واقعے کی ایف آئی آر درج کرتے ہیں۔ اس قسم کے سادہ لباس اسلحہ بردار نامعلوم افراد شہریوں کو سرعام گھروں، بازاروں اور ہوٹلوں سے جب چاہیں اٹھالیتے ہیں جن سے کوئی شخص یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کرسکتا کہ وہ کون لوگ ہیں، کہاں سے آئے ہیں، کسی شخص کو اس طرح اٹھاکر کیوں لے جا رہے ہیں، بغیر وارنٹ، بغیر شناخت کرائے اور جرم بتائے بغیر اٹھالیے جانے والے افراد کے اہلخانہ اسے تھانوں اور سی آئی اے سینٹر میں تلاش کرنے کے بعد اسپتالوں اور مردہ خانوں میں بھی تلاش کرتے ہیں۔
ایجنسیوں کی تحویل میں ملزموں کی ہلاکتوں کے واقعات بھی معمول بن چکے ہیں۔ اس وقت کراچی شہر کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر لا تعداد ایجنسیاں کام کر رہی ہیں جنھیں جرائم کی بیخ کنی کے لیے بہت سے اختیارات سے نوازا گیا ہے، ان کے بعض اہلکار ان اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں جو خود بھی جرائم میں ملوث ہیں اور جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی بھی کر رہے ہیں، ان میں سے بعض قتل، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان اور اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کروانے کے الزام میں گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ ملک اور شہر کی موجودہ صورتحال کے تحت کیے گئے اقدامات کی وجہ سے کچھ لسانی اور مذہبی شناخت رکھنے والے طبقات خاص طور پر متاثر اور خوف و دہشت اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
پولیس اور نادرا جیسے محکمہ قانون پسند اور حقیقی پاکستانی شہریوں کے لیے خوف کی علامت بن چکے ہیں۔ اگر اس سلسلے پر قابو پاکر ان اداروں کو عوام دوست اور با اعتماد ادارہ نہیں بنایا گیا تو ملک کی امن و امان کی صورتحال اور ترقی دونوں متاثر ہوںگی۔ نامعلوم کو معلوم کرنا قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا کام ہے، اب اس لفظ کو ان کی ڈکشنری سے نکالنا ہوگا۔ اس وقت قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی حالت اصلاح طلب اور فوری اور ہنگامی نوعیت کے اقدامات کی متقاضی ہے۔ ان اداروں میں نگران اور احتساب کے موثر نظام سے ہی ان کی کارکردگی اور اہلیت کو بناکر عوام کا اعتماد بحال کرایاجاسکتا ہے ورنہ سیکیورٹی کے نام پر اربوں روپے کے اخراجات عجلتی و وقتی اقدامات اور قانون سازی محض نمائشی ہی رہیںگے جن سے اصلاح احوال کے بجائے عام شہریوں کی پریشانیوں میں ہی اضافہ ہوگا۔