وہ سڑک

انسان کی زندگی کا سفر کئی فیصلوں کی کش مکش سے گزرتا ہوا پورا ہوتا ہے

wabbasi@yahoo.com

انسان کی زندگی کا سفر کئی فیصلوں کی کش مکش سے گزرتا ہوا پورا ہوتا ہے، وہ فیصلے جو یہ طے کرتے ہیں کہ اس انسان کی زندگی کیسی گزرے گی، صحت، تعلیم، نوکری، شادی، بچوں کی پرورش وغیرہ وغیرہ، کچھ فیصلے درست اور کچھ غلط ثابت ہوتے ہیں لیکن یہ نتیجہ صرف گزرتا ہوا وقت ہی سامنے لاتا ہے جب کہ انسان اپنی سمجھ میں اس وقت جو فیصلہ کر رہا ہوتا ہے وہ صحیح کر رہا ہوتا ہے۔

انسان کی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ وہ خود نہیں کرتا بلکہ اسے تخلیق کرنے والا کرتا ہے۔ اور وہ یہ کہ انسان کس گھر میں پیدا ہوگا، اپنی ہی کہانی کے پہلے پنے انسان خود نہیں لکھتا، کہتے ہیں اچھی اولاد ہونا نعمت ہوتی ہے لیکن اچھے والدین کا ملنا بھی اتنی ہی بڑی نعمت ہے کیوں کہ ان کی سوچ اور نظریہ ان کی آنے والی نسلوں پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔

میری کہانی کے شروع کے وہ کچھ پنے جن پر میرا کوئی بس نہیں تھا ان سب پر میرے لیے صحیح فیصلے تھے، آنکھ کھلی تو ایسے گھر میں جہاں کئی دانشور موجود تھے، تعلیم و تربیت پر زور، صحیح اور غلط میں فرق کی تمیز، بڑوں کی عزت چھوٹوں سے پیار، یہ سب ہماری پرورش کا حصہ تھے۔

میرے والد قمر علی عباسی ریڈیو پاکستان میں افسر تھے اور ساتھ ہی سفر کا نہ صرف شوق رکھتے بلکہ اس سفر کے بعد اس ملک کا سفرنامہ لکھنے کے لیے بھی ہمیشہ پرجوش رہتے، اس کے علاوہ متعدد اخباروں میں کالم لکھتے اور سماجی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے، وہ سب کام جو انھیں احساس دلاتے کہ دن ختم ہوجاتا ہے کام نہیں، ایسے میں وہ اپنے بچوں کو بھی پورا پورا وقت دیتے، گھر آتے تو کام کی ٹینشن کو باہر ہی چھوڑ کر آتے، گھر کے دروازے سے دنیا کے مسائل کا اندر آنا منع تھا، گھر میں ہلکا پھلکا ماحول رکھتے جس کی وجہ سے وہ ہمیں اپنے دوست جیسے لگتے۔

میں اسکول، وین سے جاتا تھا لیکن روز صبح کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر اسکول وین مس کردیتا تاکہ ابو مجھے اسکول چھوڑیں، مجھے ان کے ساتھ جانا اچھا لگتا۔

ہم کراچی کے علاقے حسن اسکوائر کے قریب رہتے تھے، میرے اسکول کا راستہ پندرہ منٹ کا تھا، وہ پندرہ منٹ جو ابو کے ساتھ اکیلے گزارتے، آگے چل کر میری آنے والی زندگی کے لیے سب سے اہم ثابت ہوئے، ان پندرہ منٹ نے مجھے وہ انسان بنایا جو میں آج ہوں۔

ہمارے گھر سے نکلتے ہی نیشنل اسٹیڈیم سے ذرا پہلے ایک سڑک آتی تھی، نام مجھے اس کا نہیں پتہ تھا لیکن یہ ضرور پتہ ہے کہ وہاں سے گزرتے میں نے ابو سے بہت سی باتیں سیکھیں، زندگی کیا ہے؟ اسکول میں کم اور اس سڑک پر زیادہ سمجھ میں آیا۔


دنیا میں بیشتر لوگوں کا گلاس آدھا خالی ہوتا ہے ''کیا نہیں ہے'' پر زور زیادہ ہوتا ہے اور کیا چھوٹ گیا ہے ذہن پر طاری رہتا ہے لیکن کیا میرے پاس ہے اور کیا میں آگے حاصل کرسکتا ہوں۔ یہ سوچ ہم میں سے بیشتر لوگ نہیں رکھتے ہیں، ''تم زندگی کے اس وقت ایسے موڑ پر ہو جہاں تم اپنی سوچ بنا رہے ہو اسی لیے یاد رکھنا کہ گلاس کبھی آدھا خالی نہیں ہوتا بلکہ آدھا بھرا ہوتا ہے، ہر روز ایک نئی صبح ہوتی ہے ایک نیا آغاز ہوتا ہے'' ابو کی وہ باتیں جو بچپن میں گزرتے اس سڑک کی دھندلی سی یادوں میں دل میں ہمیشہ کے لیے گھر کر گئیں۔

اس سڑک سے گزرتے ابو نے سمجھایا کہ بڑا آدمی کیسے بنا جاتا ہے، انسان پیسے سے نہیں اپنے کرم سے بڑا بنتا ہے، دنیا اکثر ان لوگوں کو بڑا آدمی سمجھنے لگتی ہے جو کسی بزنس یا نوکری میں کامیاب ہوتے ہیں لیکن اصل میں بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو سوچتا ہے کہ اگر میں ایک ہزار روپے بھی کماتا ہوں تو اس میں سے میں دوسروں کی زیادہ سے زیادہ مدد کیسے کرسکتا ہوں، کیسے دنیا کے لیے بہتر کام کرسکتا ہوں، کیسے اپنی سوسائٹی کے لیے بہتر کام کروں، لوگوں کو کرم سے جانچو کمائی سے نہیں۔

قمر علی عباسی جہاں گئے خوشیاں بانٹیں، کراچی سے صوبہ بلوچستان کے علاقے خضدار ٹرانسفر ہوتا ہے تو ریڈیو کے بیشتر افسران واپس ٹرانسفر ہونے کا انتظار کرتے وقت گزارتے ہیں لیکن قمر علی عباسی نے ایسا نہیں کیا، خضدار میں کئی باغات لگوائے، بہت سی سوسائٹیاں قائم کیں اور ایک بڑی مسجد بنوائی، جہاں آج بھی باقاعدگی سے پانچ وقت نماز ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ خضدار اسٹیشن پر کئی ڈائریکٹرز آئے اور چلے گئے لیکن قمر علی عباسی کو وہاں کی زمین اور لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔

ابو جب کراچی ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر بنے تو انھوں نے اسے بھی پھولوں اور ہریالی سے بھر دیا، پہلی بار KMC سے عملہ اور اسنارکل آئے جس نے بلڈنگ کو دھو کر چمکا دیا۔ میڈیکل بلز سے لے کر پنشن کے معاملات تک ہر وہ چیز جو برسوں سے لیت و لعل میں پڑی تھی اسے درست کیا، ہر سال کسی ایسے شخص کو حج پر بھیجا جو آنے والے پانچ سال میں ریٹائر ہو رہا تھا اور حج کے اخراجات پورے نہیں کرسکتا تھا۔

وقت گزرتا رہا، میری گاڑی چلا پانے کی عمر آگئی، وہی سڑک جس پر گاڑی میں بیٹھ کر ان گنت بار ابو کے ساتھ اسکول گیا تھا اب اس سڑک پر اسٹیئرنگ میرے ہاتھ میں تھا، اکثر لڑکے جب گاڑی چلانا شروع کرتے ہیں تو تیز رفتاری ان کی اولیت ہوتی ہے جوکہ اکثر خطرناک ثابت ہوتی ہے لیکن میں اس سڑک پر اپنے والد کے ساتھ اتنی سمجھ لے چکا تھا کہ جانتا تھا کہ زندگی کا ہر قدم سمجھداری سے اٹھانا چاہیے، میں نے گاڑی فرسٹ گیئر میں ڈالی اور زندگی کا پہیہ چلنے لگا۔

زندگی بہت تیز چل رہی ہے لیکن ایک دن ایسا آتا ہے کہ ہمیشہ کے لیے آکر تھم جاتی ہے، سنا سمجھا سب ختم ہوجاتا ہے، رہ جاتی ہیں تو صرف وہ اچھی باتیں جو آپ نے دوسروں تک پہنچائی ہوں، قمر علی عباسی کے لیے ان کے جانے کے بعد سیکڑوں لوگوں نے آکر یہ بتایا کہ قمر علی عباسی ان کی زندگی میں بڑا اور بہتر بدلاؤ لائے ہیں۔

وہ میرے گھر کے پاس مشرق سینٹر کے ساتھ گزرنے والی سڑک جس کا نام میں نہیں جانتا تھا کچھ دن پہلے اس سڑک کو بلدیہ عظمیٰ کراچی نے قمر علی عباسی کے نام کردیا، یہ گواہی ہے اس بات کی کہ اس سڑک پر ابو نے جو کچھ مجھے سکھایا تھا وہ سب سچ تھا، انسان اپنے پیسے سے نہیں اپنے کرم سے یاد کیا جاتا ہے، عظیم ہوتے ہیں وہ لوگ جو کبھی ختم نہیں ہوتے ان کا سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ ''قمر علی عباسی روڈ'' پر قمر علی عباسی کا سفر جاری رہے گا، ان ہزاروں لوگوں کی شکل میں جو ہر دن وہاں سے گزریں گے۔
Load Next Story