عورت کی نجات…
صدیوں سے پدرسری نظام نے عورتوں کے جانب ایک خاص رویہ روا رکھا ہوا ہے جو اس کا دہرا استحصال کرتی ہے۔
سیمون ڈی بور کے مطابق ''مرد نے عورت کو غلام بناکر خود بھی غلامی کی زنجیر پہن لی ہے لہٰذا مرد جب ہی آزاد ہوگا جب وہ عورت کو آزاد کرے گا''۔ سماج میں طبقات کی تقسیم سے ہی صنفی استحصال کی روایات نے جنم لینا شروع کیا۔ جب سماج طبقوں میں تقسیم نہیں ہوا تھا تب عورت کی حیثیت ایک کارکن کی تھی جہاں عورتوں کی عزت اور احترام زیادہ تھا، مگر جب سے سماج میں قدر زائد، ذاتی ملکیت نے جنم لیا عورت کی سماجی طور پر حیثیت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ یعنی عورت کی معاشی تباہی عورت کے اخلاقی، جسمانی اور سماجی تباہی کا باعث بنی۔ جہاں عورت کو ایک ریزرو آرمی کے طور پر منافع کمانے اور اس میں اضافے کے طور پر دیکھا جانے لگا۔
آج کے سرمایہ دارانہ دور میں سرمایہ دار عورت کو نہ صرف اپنے لیے منافع کمانے کا باعث سمجھتا ہے بلکہ ان کے لیے مزید غلام پیدا کرنے کا ایک قیمتی آلہ بھی سمجھتا ہے، جو اس کے سرمایے کو تاحیات بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے سرمایہ دار ہمیشہ ان جگہوں کا رخ کرتے ہیں جہاں اس کو سستا مزدور ملے۔ اسی طرح عقیدہ کے زندہ رہنے کا بھی انحصار اور بقا عورت پر ہی ڈال دی گئی ہے، ہر طبقے نے عورت کے حقوق سلب کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، یہ کہہ کر کہ کچھ بھی غلط کرنے سے خدا ان پر اور ان کے گھر والوں پر مصیبت نازل فرمائے گا۔
صدیوں سے پدرسری نظام نے عورتوں کے جانب ایک خاص رویہ روا رکھا ہوا ہے جو اس کا دہرا استحصال کرتی ہے، ایک بحیثیت عورت ہونے کے ناتے اور دوسرا عورت مزدور ہونے کے ناتے۔ سماج میں طبقات کی تقسیم سے ہی عورت کی سماجی حیثیت ایک کارکن سے تبدیل کرکے غلام میں تبدیل کردی گئی ہے۔ مگر تاریخ شاہد ہے کہ عورتوں نے ہر ظلم کے خلاف حق کا نعرہ بلند کیا اور اپنے اتحاد کی طاقت سے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو ختم کرنے کے لیے تحریکوں کا آغاز کیا۔ عورتوں کا عالمی دن اسی جدوجہد کی ایک کڑی ہے اور جب جب سماج میں بحرانی کیفیت پیدا ہوئی عورتوں نے اپنا بنیادی اور اہم کردار ادا کیا جس میں مظاہرے، احتجاج اور سیاسی طور پر اپنے آپ کو متحرک کرنا ایک روایت تھی۔ ان کی جدوجہد ایک خطے سے شروع ہوکر پوری دنیا تک پھیل گئی۔
دیکھا جائے تو تاریخ ہمیں عورت کی جدوجہد کے بارے میں بہت کم آگاہی فراہم کرتی ہے یا یوں کہا جائے کہ مردوں کی لکھی ہوئی تاریخ میں عورت کا کوئی کردار ہی نظر نہیں آتا مگر اس بددیانتی کے باوجود وہ عورتوں کی طاقت، بہادری اور جدوجہد کو وہ چاہ کر بھی نظر انداز نہ کرسکے۔ عمومی تاریخ دراصل مردوں ہی کی تاریخ ہے جس میں عورت نظر نہیں آتی۔ تاریخ میں ہمیں عورتوں کی تحریک کا آغاز 1789 میں انقلاب فرانس کے بعد خصوصاً صنعتی دور سے نظر آتا ہے جو انھوں نے اپنے کام کے حالات کار اور کم اجرتوں کے خلاف خود کو منظم کرکے کی۔ خواتین محنت کشوں نے سماج کی تبدیلی میں شروع سے ہی ایک اہم کردار ادا کیا مگر جب بھی مزدوروں کی جدوجہد کی بات کی جاتی ہے تو فوراً مرد ورکروں کا ذکر آتا ہے۔ مگر حقیقتاً عورت مزدور نے ہی دراصل اوقات کار میں کمی کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا۔
1820 میں نیو انگلستان میں گارمنٹس کی صنعت میں سلائی کا کام کرنے والی محنت کش عورتوں نے بہتر کام کے حالات، مناسب اجرتیں اور اوقات کار کے مطالبات کے لیے احتجاج کیا۔ جس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ہماری محنت کش بہنوں نے کام کے دوران پیش آنے والے مسائل کو بڑی سنجیدگی سے لیا کہ کس طرح سرمایہ داری نظام میں ان کی اپنی کوئی زندگی نہیں اور صرف ایک ایندھن کے طور پر بغیر مناسب اجرت کے سرمایہ دار کے منافع میں اضافے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔اسی دوران مانچسٹر Lowell روئی کی مل کی محنت کش خواتین نے بھی حقوق کے حصول کے لیے زبردست احتجاج کیا۔
یہ خواتین ہفتہ میں 81 گھنٹے صرف تین ڈالر اجرت میں کام کرتی تھیں جس میں سے آدھے سے زیادہ کمائی Lowell کے بورڈنگ ہاؤس کے کمرے کے کرایے میں چلی جاتی تھی۔ اس وقت فیکٹری کا اصل ٹائم 7 بجے کا تھا مگر اس فیکٹری کے فورمین کے مطابق عورتیں اگر کام کرنے سے پہلے کھا لیں تو ان کے کام کرنے کی رفتار کم ہوجاتی ہے، صرف اس لیے فیکٹری کے اوقات کار صبح 5 بجے سے کردیے گئے۔ 1834 میں اسی فیکٹری کی محنت کش خواتین نے اپنی اجرتوں میں مسلسل کٹوتی کی وجہ سے کام چھوڑ دیا مگر چونکہ یہ خواتین غریب اور غیر منظم تھیں اور سرمایہ دار طاقت ور تھا یہ خواتین کم اجرتوں پر دوبارہ فیکٹری میں کام کے لیے واپس آگئیں۔ ان کی جدوجہد حوصلہ افزا تھی مگر کمزور تھی۔
1836 میں یہ خواتین ایک بار پھر کام چھوڑ کر سڑکوں پر نعرے لگاتے ہوئے نکلیں۔ مگر تھوڑے دنوں بعد پھر انھیں کام پر لوٹنا پڑا۔ اپنے جائز حق کے لیے ان کی جدوجہد کسی بھی صورت کم نہ ہوئی۔ 1844 میں انھوں نے Lowell Female Labour Reform Association نامی تنظیم بنائی جس کا واحد اور اہم مطالبہ دس گھنٹے کام کے اوقات کار تھا اور یہی جدوجہد ٹیکسٹائل انڈسٹری میں چند اصلاحات کروانے میں کامیاب ہوئی۔ انھیں مختصر مگر مضبوط جدوجہد کے نتیجے میں ان خواتین محنت کشوں نے ٹریڈ یونین اور منظم ہونے کا سبق سیکھا۔پہلی عالمی جنگ کے زمانے کے دوران بہت سی خواتین لیبر فورس کا حصہ بنیں مگر ٹریڈ یونین میں ان کی شمولیت اس وقت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس وقت جوتا بنانے والی خواتین محنت کشوں نے اپنی یونین بنائی اور اسی دوران سگار Cigar بنانے والی، چھتری سینے والی، سلائی والی اور کپڑے دھونے والی محنت کش خواتین نے بھی یونینز بنائیں۔
اسی طرح امریکا کی تاریخ میں 1900 صدی میں گارمنٹ کی خواتین نے لیڈیز گارمنٹ یونین کے نام سے اپنی یونین بنائی۔ اس دور میں بھی فیکٹریوں کے حالات کار آج کی پاکستان کی فیکٹریوں سے کچھ مختلف نہ تھے۔ آگ سے بچاؤ کے نامناسب اقدامات، کم روشنی، مشینوں کی بہرہ کردینے والی آوازیں، آلودہ ماحول اور اوور ٹائم اس وقت بھی تمام ورکرز کو اسی طرح درپیش تھے جیسے کہ آج ہیں۔ مگر اس وقت کے محنت کشوں نے ان تمام مسائل کو سنجیدگی سے لیا اور اپنے کام کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے ایک مسلسل جدوجہد بھی کی اور اس مفروضے کو غلط ثابت کیا کہ خواتین لمبے عرصے تک احتجاج نہیں کرسکتیں۔
ایک اہم تاریخی تحریک جوکہ 1857 میں نیویارک کی گارمنٹ فیکٹری میں کام کرنے والی محنت کش خواتین نے اپنے کام کے بہتر حالات کار، دس گھنٹے اور عورتوں کے لیے برابر حقوق کے مطالبات سے شروع کی، جسے اس وقت کی پولیس انتظامیہ نے تشدد کے ذریعے ناکام بنانے کی کوشش کی۔ مگر پھر سوئی بنانے والی فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین محنت کشوں نے ٹیکسٹائل میں کام کرنے والی خواتین سے قوت لیتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے آپ کو منظم کیا اور 1908 میں ایک بڑی تحریک کا آغاز کیا جس میں ان کے تین بنیادی مطالبات تھے۔ ووٹ کا حق Sweat Shopsاور بچہ مزدوری کا خاتمہ تھا۔8 مارچ دراصل محنت کش خواتین کی اس لازوال تحریک کو خراج تحسین پیش کرنے اور مسلسل جدوجہد کے عزم کو دہرانے کا دن ہے جو انھوں نے سیاسی، معاشی و سماجی برابری اور سرمایے پر محنت کی فتح کے لیے شروع کی۔
اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا مطالبہ 1910 میں ہونے والی سوشلسٹ انٹرنیشنل کی دوسری کانفرنس میں پیش کیا گیا جسے سب نے منظور کیا اور پھر 1911 سے دنیا کے مختلف علاقوں میں اس دن کو منایا جانے لگا۔ مگر آج صورت حال یہ ہے کہ اب اس ساری تحریک نے اپنا سیاسی رنگ کھو دیا ہے اب یہ دن صرف ایک علامت کے طور پر منایا جاتا ہے نہ کہ حقیقی بنیادوں پر کسی تحریک کو آگے بڑھانے یا سماج میں تبدیلی کے لیے۔ 8 مارچ کی تحریک دراصل ان لاکھوں نامعلوم محنت کش عورتوں کی جدوجہد کا ہی ثمر ہے جس کی بدولت محنت کشوں کے مسائل پوری دنیا میں اجاگر ہوئے اور ان کے حقوق کو تسلیم بھی کیا گیا۔ سو آج کے تناظر میں حکمت عملیاں ترتیب دیتے ہوئے اس تحریک کو ازسر نو پوری شدت سے اٹھانے کی ضرورت ہے جس میں ماضی کی دقیانوسی روایات طبقاتی نظام جبر کے ساتھ خس و خاشاک کی مانند بہہ جائیں گی اور یوں محنت کی نجات عورت کی بھی نجات ثابت ہوگی۔