دیر آید درست آید جرائم کی سنگینی مان لی گئی۔۔۔

ایوان بالا میں خواتین سے متعلق قوانین کی منظوری نیک شگون ہے

ایوان بالا میں خواتین سے متعلق قوانین کی منظوری نیک شگون ہے۔ فوٹو: فائل

ریاستیں اپنے شہریوں کے جان ومال کے تحفظ اور بہبود کے لیے مختلف قوانین وضع کرتی ہیں۔۔۔ پھر جب اس میں کوئی سقم سامنے آئے، تو اس میں ترامیم کر لی جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ دنیا بھر میں جاری رہتا ہے۔ کسی بھی قانون کو حرف آخر نہیں سمجھا جاتا۔

ریاستوں کے آئین میں بھی ترامیم کا راستہ کھلا رکھا جاتا ہے، کیوں کہ بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے یہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔ پھرعدالتوں میں جب ان قوانین کے تحت شنوائی ہوتی ہے، تو اس کے پوشیدہ اور کمزور پہلو سامنے آتے رہتے ہیں۔ جسے منتخب ایوان ترامیم کے ذریعے دور کر لیتا ہے، مگر اُس وقت شدید حیرت ہوتی ہے، جب واضح جرائم سے متعلق کچھ ایسی ترامیم کی بازگشت سنائی دیتی ہے، کہ حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے قوانین ابھی تک ان معاملات سے پہلو تہی کیے ہوئے تھے۔

یکم مارچ کو ایوان بالا (سینیٹ) میں غیرت کے نام پر قتل، زیر حراست تشدد اور عصمت دری کو سنگین جرم قرار دیتے ہوئے، خواتین کو ہراساں کرنے کو بھی تشدد میں شامل کر لیا گیا ہے۔

ایوان نے غیرت کے نام پر قتل، زیر حراست تشدد، عصمت دری اور گواہی کے قوانین میں ترامیم اتفاق رائے سے منظور دی۔ غیرت کے نام پر قتل کے ضابطہ فوج داری 1998ء اور قانون شہادت آرڈر 1984ء میں ترمیم کے بل سنیٹیر صغریٰ امام نے، جب کہ زیر حراست تشدد، زیر حراست ہلاکت اور عصمت دری کے عوامل کی روک تھام کا بل فرحت اللہ بابر نے پیش کیا۔ زیر حراست ہلاکت وعصمت دری پر 30 لاکھ روپے جرمانے اور عمر قید، زیر حراست تشدد پر پانچ سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی تجویز دی گئی ہے، ساتھ ہی تشدد کے ذریعے حاصل بیان کو بطور شہادت قبول نہ کرنے کے ساتھ کسی بھی ہنگامی حالت میں ان بلوں پر عمل درآمد سے احتراز نہ کیے جانے کی استدعا کی گئی ہے۔ یہ جرائم ناقابل ضمانت ہوں گے۔ کسی ملزم سے معلومات کے لیے کسی خاتون کو ایک خاتون ہی حراست میں لے سکے گی۔ تحقیقات 14 روز میں مکمل کی جائیں گی، اپیل کی میعاد 10 روز ہو گی، جس پر 30یوم کے اندر فیصلہ کیا جائے گا۔


''دیر آید، درست آید'' کے مصداق تو ان قوانین کا خیر مقدم کرنا چاہیے، لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ریاست اپنی عمر کے 68 ویں برس میں پہنچ چکی ہے، ہم نے اب تک ان جرائم کو سنگین ہی نہ سمجھا تھا۔ یہاں تک کہ ہم آج یہ طے کر رہے ہیں کہ ایک عورت کو عورت ہی حراست میں لے اور تشدد کے ذریعے لیا جانے والا بیان قبول نہ کیا جائے! ساتھ ہی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل، عصمت دری اور زیر حراست تشدد کی سنگینی ہم پر اب جا کر منکشف ہوئی ہے۔ بہرحال شہریوں بالخصوص خواتین کے تحفظ اور امان کی خاطر یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔

ہم جس معاشرے کے باسی ہیں، وہاں کے رکھ رکھاؤ اور ماحول کی مناسبت سے تو اس امر کے علاوہ کوئی گنجائش ہی نہ تھی کہ خواتین کے لیے خواتین پولیس رکھی جائے، سو یہ شعبہ ہماری پولیس میں ایک عرصے سے قائم ہے، تاکہ کبھی کسی خاتون سے کسی قسم کی کوئی تفتیش مطلوب ہو تو یہ کام خواتین پولیس اور خواتین اہلکار ہی انجام دے سکیں۔ جس طرح مرد مختلف غیر قانونی امور میں ملوث پائے جاتے ہیں، ایسے ہی بہت سی خواتین بھی ان کا ارتکاب کر بیٹھتی ہیں، شرح اگرچہ مردوں کے مقابلے میں بہت کم ہے، لیکن بہرحال یہ معاملات موجود ہیں۔

یہ کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں ہے، نیکی اور بدی کی قوتیں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں اور سماج میں مرد اور عورت ہی ایسی قوتوں کے آلۂ کار بنتے ہیں۔ یہ ضروری بھی نہیں کہ کسی خاتون نے کوئی جرم کیا ہو، تب ہی اسے حراست میں لیا جائے۔ بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں، جس میں اسے جرم سے متعلق اہم معلومات ہوتی ہیں، یا اس پر جرم میںملوث ہونے کے شبہات ہوتے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہوتا ہے کہ اسے باقاعدہ شامل تفتیش کیا جائے اور قانون کے مطابق پوچھ گچھ بھی کی جائے۔ پہلے قانونی طور پر یہ روک نہیں تھی کہ کسی خاتون کو خاتون ہی گرفتار کر سکتی ہے، تاہم اب یہ قدغن لگا دی گئی ہے کہ کوئی مرد اہلکار کسی صورت عورت کو حراست میں نہیں لے سکتا۔ یہ ایک بہت اہم ترمیم ہے۔ اس سے یقیناً ایک طرف قانون کی عمل داری میں اضافہ ہو گا، تو دوسری طرف شہری حقوق کی پاس داری بھی ممکن ہوگی۔

ہمارے معاشرے کی عام خاتون کے لیے یہ تصور بھی محال ہے کہ اسے کسی بھی وجہ سے خدانخواستہ مرد پولیس حراست میں لے کر جائے۔ اگرچہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا، اکثر وبیش تر خواتین ملزماؤں سے خواتین اہلکار ہی نبرد آزما ہوتی ہیں۔ تاہم قانون میں سقم ہونے کی بنا پر ایسے واقعات کا امکان موجود تھا، لیکن حالیہ ترمیم کے بعد اب ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے گی۔ جب خواتین کو خواتین اہلکار ہی حراست میں لیں گی، تو زیر حراست ہراساں کیے جانے جیسے سنگین واقعات کا بھی تدارک ہو گا۔

غیرت کے نام پر قتل اور عصمت دری جیسے جرائم تو روز اول سے ہی سنگین ترین تھے، اگرچہ ایوان بالا نے انہیں اب اس زمرے میں شامل کیا ہے۔ اسی طرح تشدد کے ذریعے کسی سے کوئی بات کہلوانا بھی مہذب معاشروں کا برتاؤ کسی طور پر نہیں ہے۔ ہمارے ہاں من چاہے بیان دلوانے کے لیے شدید تشدد جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ اب اس کی روک تھام کے لیے بھی توجہ کی جا رہی ہے، جو خوش آئند ہے۔ اپنے شہریوں کا تحفظ تو ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے بلکہ ریاست کے وجود اور بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ ہر نظریہ ریاست میں اس حوالے سے دو رائے موجود نہیں ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ریاستی سطح پر تمام شہریوں بالخصوص صنف نازک، بچوں، کمزوروں اور غریب طبقات کے حقوق کا بھرپور طریقے سے تحفظ کیا جائے۔
Load Next Story