پچھتاوؤں کو بھلا کر۔۔۔

ناآسودگی کے خیالات نکال پھینکیے


Munira Adil March 09, 2015
ناآسودگی کے خیالات نکال پھینکیے۔ فوٹو: فائل

ہماری روز مرہ کی گفتگو سے لے کر ہماری سوچ تک ''کاش'' کے لفظ کا تناسب روزبہ روز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

زندگی میں بہت کچھ پا کر بھی ناآسودگی کا احساس پچھتاوؤں کو جنم دیتا ہے۔ نامکمل خواہشات، ارمان اور آرزوؤں کی دوڑ میں وقت گزرنے کے ساتھ جب پچھتاوا بن جائیں تو زندگی جینے کی امنگ باقی نہیں رہتی۔

٭ کاش میں خوامخواہ ہی بے کار کی چیزوں میں وقت برباد نہ کرتی۔

٭میں دنیا گھوم سکتی۔

٭میں اپنی تعلیمی قابلیت بڑھا لیتی۔

٭میں پیسہ فضول خرچ نہ کرتی۔

٭میں پرانی سہیلیوں سے رابطے میں رہتی۔

٭میں بہت عرصے تک فلاں ناپسندیدہ ملازمت نہ کرتی۔

٭میرا کوئی ایک خواب تو پورا ہو جاتا۔

٭میں اپنوں سے اختلافات نہ بڑھاتی۔

٭میں اپنے لیے وقت نکال سکتی۔

٭میں اپنے والدین کی خدمت کرتی۔

یہ اور ایسے بہت سارے ''کاش'' ہم سب کی زندگیوں میں شامل ہوتے ہیں، جو سوچ کے دھاروں کو پچھتاوے کی جانب لے جاتے ہیں۔ زندگی خدا کی عطا کردہ ایک حسین نعمت ہے۔ اس کو پچھتاوؤں کی نذر نہ کریں۔ ہر لمحہ خدا کی طرف سے عطا کردہ خوب صورت تحفہ ہے۔ لہٰذا زندگی کی ناآسودگی نامکمل خواہشات پر پچھتانے، جلنے، کڑھنے کے بہ جائے نئی زندگی کا آغاز کریں۔ صرف سوچنا چھوڑیں، عملیت پسندی پر کاربند ہوں۔ آج ہی کے دن کوزندگی کا پہلا دن قرار دیں۔ اپنی خواہشات اور عزائم سے پچھتاوؤں تک سب ضبط تحریر میں لے آئیں۔ وہ سب کچھ جو آپ کرنا چاہتے تھے، نہیں کر سکے، لکھ لیں۔ ایک فہرست تیار کر لیں۔ اب منصوبہ بندی کریں۔ فہرست کا بغور جائزہ لیں۔ کون سی ایسی خواہشات ہیں۔ ایسے عزائم ہیں جو اب پچھتاوے بن گئے ہیں، لیکن اب ان پر عمل درآمد ممکن نہیں رہا۔

مثال کے طور پر والدین کی خدمت کرنا چاہتے تھے، لیکن عمر بھر مصروف شب و روز یا غم روزگار نے فرصت نہ دی اور والدین انتقال کر گئے۔ اب صرف پچھتاوا رہ گیا، لیکن آپ ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں، آپ کی ہر نیکی ان کے لیے ایصال ثواب کا باعث ہوگی، ان کے لیے دعائے مغفرت کیجیے۔ ان کے عزیز و اقارب اور دوستوں سے رابطے میں رہیے کہ اس طرح ان کی روح خوش ہوگی۔

اسی طرح فہرست میں کچھ ایسی خواہشات بھی ہوں گی جن پر عملدرآمد ممکن ہوگا۔ چاہے مشکل سہی، لیکن ناممکن کچھ نہیں۔

مثال کے طور پر اپنے لیے وقت نکالنا۔ اگر دن بھر کے معمولات طے کر کے کام کیا جائے تو ہم بہ آسانی اپنے لیے وقت نکال سکتے ہیں۔ اسی طرح تعلیمی قابلیت بڑھانا۔ تعلیم کے لیے عمر کی قید نہیں۔ عمر کے کسی بھی حصے میں تعلیم کے سلسلے کا دوبارہ آغاز کیا جا سکتا ہے، اسی طرح پرانی سہیلیوں سے رابطہ۔ سوشل نیٹ ورکنگ نے یہ فاصلے بھی مٹا دیے۔ اپنی سہیلیوں کے نام لکھ کر تلاش کیجیے اور اپنی دوستی کے رشتے کو دوبارہ استوار کیجیے۔ اسی طرح اپنوں سے اختلافات ہو گئے ہیں، تو کوئی بات نہیں خود آگے بڑھ کر معذرت کر لیجیے۔ یقین جانیے اس عمل سے اپنوں کے درمیان پیدا ہونے والی دوریاں ہی ختم نہیں ہوں گی، بلکہ رب کی رضا بھی یہی ہے۔ اتنی مختصر سی زندگی میں جہاں مسائل و مصائب نے انسان کو الجھا رکھا ہے۔ وہاں دلوں میں نفرتیں اور حسد پالنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ دل تو خدا کا گھر ہے۔ اس کو ہمیشہ صاف رکھیے۔

اب فہرست میں موجود ان خواہشات و عزائم کے متعلق سوچیں جن کے لیے منصوبہ بندی درکار ہے۔

مثال کے طور پر فریضہ حج یا عمرے کی ادائیگی، گھومنا پھرنا اور سیاحت، گاڑی یا مکان خریدنا وغیرہ۔ اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کیجیے، پروردگار سے مدد مانگیے، محنت کیجیے اور اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لائیے۔ جلد ہی آپ کی خواہشات ضرور پوری ہوں گی۔

زندگی ایک ہی دفعہ ملتی ہے، اس لیے خواہشات کی تکمیل ہر انسان کا حق ہے۔ ملازمت پیشہ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد ایسے پچھتاوؤں کا زیادہ شکار ہو جاتے ہیں، تو خواتین کو بھی بڑھتی عمر کے ساتھ ان کی زندگی کی ناآسودہ آشائیں بیمار کر دیتی ہیں، جب کہ ایسے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کی زندگی ابھی بھی برقرار ہے، لہٰذا اپنی ذات سے جڑے تمام پچھتاوؤں کو اپنی حکمت و قابلیت سے بدل کر نئی زندگی کا آغاز کریں۔ ساتھ ہی اپنے رب کی رضا کو ہر لمحہ مدنظر رکھیں تو زندگی خوش گوار ہو جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں