گدھا گاڑیاں آج بھی سیکڑوں افراد کے روزگار کا ذریعہ ہیں
گدھا گاڑی کے کام میں محنت زیادہ اورمعاوضہ کم ہے
LONDON:
آج کے جدید دورمیں جہاں مال برداری کے لیے ٹرانسپورٹ کی جدید سہولتیں موجود ہیں وہاں آج بھی مال برداری کےلئے گدھا گاڑی کے استعمال کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے تاہم نئی نسل آب اپنے اس آبائی پیشے کو خیرآباد کہنے لگی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد شہرکی آبادی کم تھی اس لیے مال برداری کے لیے گدھا گاڑی، اونٹ گاڑی اور گھوڑا گاڑی کاہی استعمال کیاجاتا تھا تاہم جیسے جیسے وقت گزرتا اور شہر پھیلتا چلاگیااورکراچی کی آبادی تیزی سے بڑھتی گئی، جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ٹرانسپورٹ کی سہولتوں میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ گدھاگاڑی کے علاوہ مال برداری کےلئے مختلف اقسام کی سوزوکیاں، منی ٹرک اوردیگرگاڑیاں متعارف ہوئیں جس کے بعدتیزی سے مال برداری کےلئے ان گاڑیوں کا استعمال کیاجانے لگاتاہم مختلف بڑے بازاروں اور علاقائی سطح پر مال برداری کےلئے اب بھی گدھاگاڑیاں ہی استعمال ہورہی ہیں، ایکسپریس نے گدھا گاڑی چلانے کے کام سے منسلک افراد پر سروے کیا، سروے کے دوران اس کام سے منسلک لیاری کے رہائشی عبدالغنی نے ایکسپریس کو بتایا کہ گدھا گاڑی کا کام نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔
اس کام سے قدیم طور پر بلوچ اورکچھی برادری کے افراد وابستہ ہیں تاہم اب دیگر قومیتوں کے لوگ بھی وابستہ ہو گئے ہیں، خصوصاً کراچی میں موجود افغانی بھی بڑی تعداد میں گدھا گاڑی چلاتے ہیں، بلوچ اور کچھی برادری کے افراد تو زیادہ ترضلع غربی اور ضلع جنوبی کے علاقوں میں اس کام سے منسلک ہیں اور ان کی روزی روٹی کا ذریعہ اولڈ سٹی ایریا کا علاقہ ہے جہاں جوڑیا بازار اور دیگر اہم مارکیٹوں میں مال برداری کے لیے گدھا گاڑی استعمال کی جاتی ہے، انھوں نے بتایا کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے اس کام سے منسلک قدیم خاندانوں کی نئی نسل اپنے آبائی کام کو خیرآباد کہہ رہی ہے اور زیادہ تر نوجوان چنگچی رکشے اور سی این جی رکشوں کے ساتھ لوڈنگ گاڑیوںکے ڈرائیور اور سامان اٹھانے کے کام سے وابستہ ہو رہے ہیں کیونکہ گدھا گاڑی کے کام میں محنت زیادہ اور معاوضہ انتہائی کم ملتا ہے۔
کراچی کاعلاقہ لیاری ویسے توکھیلوں خاص طور پر فٹبال اورباکسنگ کے حوالے سے ملک بھر میں مشہورہے مگر لیاری کے لوگ گدھوں کی خریدوفروخت کے کاروبارسے بھی وابستہ ہیں،کئی خاندان قیمتی گدھوں کو خریدکر پالتے ہیں اور پھریہ گدھے ریس میں استعمال کیے جاتے ہیں،گدھے پالنے کے شوقین جبار کچھی نے بتایاکہ گدھوں کی ریس لگانا لیاری کے لوگوں کا پرانا مشغلہ ہے، گدھوں کی ریس اتوار کو مائی کلاچی میں ہوتی ہے، انھوں نے بتایا کہ لیاری میں گینگ وار کے باعث گدھوں کی خرید و فروخت، ریس اور مال برداری کے کام سے منسلک افراد معاشی طور پر اب پریشان ہیں کیونکہ بدامنی کے باعث لوگوں نے لیاری آنا کم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے مال برداری اور خرید و فروخت کا کام اب دیگر علاقوں میں منتقل ہونا شروع ہو گیا ہے، جس میں سہراب گوٹھ کا علاقہ سرفہرست ہے۔
کراچی میں ملک کے تین شہروں کے گدھوں کی نسلیں مال برداری کے لیے استعمال ہوتی ہیں، سروے کے دوران اس کام سے منسلک افراد نے بتایا کہ ملک میں بلوچستان کے ضلع مکران، سندھ کے ضلع حیدر آباد اور پنجاب کے ضلع رحیم یار خان گدھوں کی پرورش کے مراکزسمجھے جاتے ہیں اور تینوں اضلاع سے گدھے مال برداری کیلیے کراچی لائے جاتے ہیں، گدھوں کی سب سے اعلیٰ نسل مکران کی ہوتی ہے، یہ گدھے طویل العمر ہوتے ہیں اور ان کی زیادہ سے زیادہ عمر 40 سے 50 برس کے درمیان ہوتی ہے، دوسرے نمبر پر حیدرآباد میں پرورش پانے والے گدھے ہوتے ہیں جن کی عمر 35 سے 45 سال کے درمیان ہوتی ہیں، رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے گدھے 30 سے 45 سال تک زندہ رہتے ہیں، مکرانی اور حیدرآبادی گدھوں کی نسل انتہائی جاندار ہوتی ہے اور یہ مال برداری کے لیے طویل عرصے تک کام کرنے کے قابل رہتے ہیں، اعلیٰ نسل کے گدھے کی قیمت 50 ہزار سے لے کر 2 لاکھ ہے جبکہ عام نسل کے گدھے 15 سے 30 ہزار روپے تک مل جاتے ہیں۔
آج کے جدید دورمیں جہاں مال برداری کے لیے ٹرانسپورٹ کی جدید سہولتیں موجود ہیں وہاں آج بھی مال برداری کےلئے گدھا گاڑی کے استعمال کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے تاہم نئی نسل آب اپنے اس آبائی پیشے کو خیرآباد کہنے لگی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد شہرکی آبادی کم تھی اس لیے مال برداری کے لیے گدھا گاڑی، اونٹ گاڑی اور گھوڑا گاڑی کاہی استعمال کیاجاتا تھا تاہم جیسے جیسے وقت گزرتا اور شہر پھیلتا چلاگیااورکراچی کی آبادی تیزی سے بڑھتی گئی، جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ٹرانسپورٹ کی سہولتوں میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ گدھاگاڑی کے علاوہ مال برداری کےلئے مختلف اقسام کی سوزوکیاں، منی ٹرک اوردیگرگاڑیاں متعارف ہوئیں جس کے بعدتیزی سے مال برداری کےلئے ان گاڑیوں کا استعمال کیاجانے لگاتاہم مختلف بڑے بازاروں اور علاقائی سطح پر مال برداری کےلئے اب بھی گدھاگاڑیاں ہی استعمال ہورہی ہیں، ایکسپریس نے گدھا گاڑی چلانے کے کام سے منسلک افراد پر سروے کیا، سروے کے دوران اس کام سے منسلک لیاری کے رہائشی عبدالغنی نے ایکسپریس کو بتایا کہ گدھا گاڑی کا کام نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔
اس کام سے قدیم طور پر بلوچ اورکچھی برادری کے افراد وابستہ ہیں تاہم اب دیگر قومیتوں کے لوگ بھی وابستہ ہو گئے ہیں، خصوصاً کراچی میں موجود افغانی بھی بڑی تعداد میں گدھا گاڑی چلاتے ہیں، بلوچ اور کچھی برادری کے افراد تو زیادہ ترضلع غربی اور ضلع جنوبی کے علاقوں میں اس کام سے منسلک ہیں اور ان کی روزی روٹی کا ذریعہ اولڈ سٹی ایریا کا علاقہ ہے جہاں جوڑیا بازار اور دیگر اہم مارکیٹوں میں مال برداری کے لیے گدھا گاڑی استعمال کی جاتی ہے، انھوں نے بتایا کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے اس کام سے منسلک قدیم خاندانوں کی نئی نسل اپنے آبائی کام کو خیرآباد کہہ رہی ہے اور زیادہ تر نوجوان چنگچی رکشے اور سی این جی رکشوں کے ساتھ لوڈنگ گاڑیوںکے ڈرائیور اور سامان اٹھانے کے کام سے وابستہ ہو رہے ہیں کیونکہ گدھا گاڑی کے کام میں محنت زیادہ اور معاوضہ انتہائی کم ملتا ہے۔
کراچی کاعلاقہ لیاری ویسے توکھیلوں خاص طور پر فٹبال اورباکسنگ کے حوالے سے ملک بھر میں مشہورہے مگر لیاری کے لوگ گدھوں کی خریدوفروخت کے کاروبارسے بھی وابستہ ہیں،کئی خاندان قیمتی گدھوں کو خریدکر پالتے ہیں اور پھریہ گدھے ریس میں استعمال کیے جاتے ہیں،گدھے پالنے کے شوقین جبار کچھی نے بتایاکہ گدھوں کی ریس لگانا لیاری کے لوگوں کا پرانا مشغلہ ہے، گدھوں کی ریس اتوار کو مائی کلاچی میں ہوتی ہے، انھوں نے بتایا کہ لیاری میں گینگ وار کے باعث گدھوں کی خرید و فروخت، ریس اور مال برداری کے کام سے منسلک افراد معاشی طور پر اب پریشان ہیں کیونکہ بدامنی کے باعث لوگوں نے لیاری آنا کم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے مال برداری اور خرید و فروخت کا کام اب دیگر علاقوں میں منتقل ہونا شروع ہو گیا ہے، جس میں سہراب گوٹھ کا علاقہ سرفہرست ہے۔
کراچی میں ملک کے تین شہروں کے گدھوں کی نسلیں مال برداری کے لیے استعمال ہوتی ہیں، سروے کے دوران اس کام سے منسلک افراد نے بتایا کہ ملک میں بلوچستان کے ضلع مکران، سندھ کے ضلع حیدر آباد اور پنجاب کے ضلع رحیم یار خان گدھوں کی پرورش کے مراکزسمجھے جاتے ہیں اور تینوں اضلاع سے گدھے مال برداری کیلیے کراچی لائے جاتے ہیں، گدھوں کی سب سے اعلیٰ نسل مکران کی ہوتی ہے، یہ گدھے طویل العمر ہوتے ہیں اور ان کی زیادہ سے زیادہ عمر 40 سے 50 برس کے درمیان ہوتی ہے، دوسرے نمبر پر حیدرآباد میں پرورش پانے والے گدھے ہوتے ہیں جن کی عمر 35 سے 45 سال کے درمیان ہوتی ہیں، رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے گدھے 30 سے 45 سال تک زندہ رہتے ہیں، مکرانی اور حیدرآبادی گدھوں کی نسل انتہائی جاندار ہوتی ہے اور یہ مال برداری کے لیے طویل عرصے تک کام کرنے کے قابل رہتے ہیں، اعلیٰ نسل کے گدھے کی قیمت 50 ہزار سے لے کر 2 لاکھ ہے جبکہ عام نسل کے گدھے 15 سے 30 ہزار روپے تک مل جاتے ہیں۔