ٹیکس نیٹ بڑھانے کےلئے ڈھائی لاکھ افراد کی نشاندہی بڑے نام نیٹ میں لانا مشکل ہوگیا

نوٹس جاری کردیے گئےہیں،14ارب روپے ریوینیو مل سکتا ہے


AFP March 09, 2015
سینٹرل ڈیٹا بیس بنا رہے ہیں جہاں تمام ٹیکس دہندگان کی معلومات ہوں گی، ترجمان ایف بی آر شاہد حسین کا انٹرویو۔ فوٹو: فائل

پاکستانی حکومت نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کےلئے ٹیکس نہ دینے والی ان دولت مند شخصیات کا تعاقب شروع کردیا ہے جو پرتعیش زندگی گزاررہے ہیں لیکن ریوینیو حکام کو اس بااثر لوگوں کوٹیکس نیٹ میں لانے میں شدید مشکلات درپیش ہیں اور کئی بڑے لوگ اب تک ٹیکس نیٹ سے باہرہیں۔

پاکستان کی ٹیکس ٹوجی ڈی پی کی شرح9.5ہے جو دنیا میں کم ترین ہے اوراسی وجہ سے پاکستانی حکومت کو عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ کا بھی سامنارہتا ہے۔ ریوینیو حکام کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک چوتھائی ملین(2لاکھ50ہزار)کے قریب ممکنہ نئے ٹیکس گزاروں کی نشاندہی کی ہے جو اگر پورا ٹیکس اداکریں تواس سے حکومت کو14ارب روپے مل سکتے ہیں ۔ ٹیکس نیٹ کا پھیلاؤ اورملکی معیشت کی بحالی نواز حکومت کی الیکشن مہم کے اہم نکات میں شامل تھا۔ موجودہ حالات میں ایک فیصد سے بھی کم پاکستانی انکم ٹیکس دیتے ہیں اورمالی سال 2013-14 میں حکومت انکم ٹیکس کی مدمیںصرف8ارب روپے جمع کرسکی۔

وزارت خزانہ رواں مالی سال کے اختتام (جون)تک ٹیکس ٹوجی ڈی پی کی شرح15 فیصدتک لانے کےلئے کوششیں کررہی ہے، اس مقصد کےلئے ایف بی آرشہریوں کا لائف اسٹائل اور گاڑیوں کا ڈیٹا جمع کررہاہے جس کی مددسے غیررجسٹرٹیکس دہندگان، لینڈ لارڈز، دولتمندوں اور تاجروں کی نشاندہی کی جائے گی۔ایف بی آر کے ترجمان شاہدحسین نے اے ایف پی کو بتایاکہ ہم گاڑیوں کی رجسٹریشن کے ادارے،گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں، یوٹیلیٹی اور ٹیلی کام کمپنیوں اورجائیدادیں رجسٹرڈکرنے والے دفاتر سے ان لوگوں کی معلومات حاصل کررہے ہیں جوٹیکس ادا نہیں کرتے۔ انھوں نے کہاکہ اس ڈیٹاسے ممکنہ ٹیکس دہندگان کی پروفائلز تیار کی جاتی ہیں اورانھیں ان کے ذمے واجب الادا ٹیکس کے بارے میں نوٹس دیاجاتاہے۔

شاہد حسین کا کہنا تھا کہ ایف بی آرنے پہلے ہی2 لاکھ61 ہزار250ممکنہ ٹیکس دہندگان کو نوٹس جاری کردیے ہیں۔ اس اقدام کے بعدنئے ٹیکس گزاروں نے 57 کروڑ روپے جمع کرائے ہیں۔ان کاکہنا تھاکہ نہ صرف تاجروں بلکہ کئی ارکان پارلیمنٹ کو بھی پکڑا گیا ہے جو یا کم ٹیکس ادا کرتے ہیں یاکوئی ٹیکس نہیں دیتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں