شادی سیزن

کارڈ پر آمد کے لیے وقت کچھ بھی درج ہو، مہمانوں کی آمد کا سلسلہ رات گئے ہی شروع ہوتا ہے۔


علی راج March 09, 2015
لالچی لڑکے والوں کے لیے کہتے ہیں کہ اگر آپ کو جہیز کی اشد ضرورت ہے تو آپ لڑکی کا ہاتھ نہیں، زکوۃ مانگیے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: ایک سوال جس نے مجھے ہمیشہ پریشان کیا ہے وہ یہ ہے کی آخر یہ شادی سیزن کس بلا کا نام ہے؟ ہم سارا سال یہی سنتے رہتے ہیں کہ آجکل شادی سیزن چل رہا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ ہمارا ایک پسندیدہ مشغلہ اگرماضی سے سبق حاصل نہ کرنا ہے تو دوسرا پسندیدہ مشغلہ شادیاں کرنا ہے۔

ہماری شادیاں بھی اتنے ہی لوازمات کی حامل ہوتی ہیں جتنے ہمارے رمضان کے دسترخوان۔ اگر خاندان میں کہیں شادی ہورہی ہو تو رشتہ دار زندگی اجیرن کردیتے ہیں اور اگر کوئی مشہور شخصیت رشتہ ازدواج میں بندھ رہی ہوتو ہمارا میڈیا ڈھنڈورچی کا کردار بخوبی نبھاتا ہے۔

لفظ شادی میں اگر کوئی دل فرشوری کا سامان ہے تو وہ یہ کہ وہ 'ہوتی' ہے۔ ویسے بھی اس لفظ کو آدمی سنجیدگی سے صرف اس وقت لیتا ہے جب اپنی ہورہی ہو۔ دوسروں کی شادیاں ہمیشہ وقت کا ضیاع اور تھکان کا باعث لگتی ہیں۔

دوسری جانب کسی بھی شادی کا بنا لڑائی جھگڑے کے ہوجانا ممکنات میں نہیں۔ جہاں پھوپیاں، خالائیں رنگ میں بھنگ کی آمیزش کی کوششیں کرتی ہیں وہیں تقریب سعید کے قریب آتے ہی کوئی نہ کوئی روٹھ بیٹھتا ہے۔ اس کے بعد روٹھنے منانے کا وہ عمل شروع ہوتا ہے کہ بھائی کے جانثار بھی شرما جائیں۔

پوری تقریب میں اگر کوئی خوش ہوتا ہے، وقتی طور پر ہی سہی، تو وہ ہے رشتہ ازدواج میں بندھنے والا جوڑا۔ دونوں اطراف کے والدیں گھبراہٹ کا شکار جبکہ دوست احباب کی توجہ کا محور صرف اور صرف کھانے کی میزیں ہوتی ہیں۔

کارڈ پر آمد کے لیے وقت کچھ بھی درج ہو، مہمانوں کی آمد کا سلسلہ رات گئے ہی شروع ہوتا ہے۔ بھلا اگر ہم وقت کی پابند ہوتے تو آج اس دوراہے پر کھڑے ہوتے؟

کھانے کے دوران دولہا دلہن کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو جمہوریت میں جمہور کے ساتھ، یعنی کوئی نہیں پوچھتا۔

تحفتاً لفافہ تھمانے کی رسم بھی خوب ہوتی ہے۔ صاحب تقریب آخری وقت تک اس تجسس میں مبتلا رہتا ہے کہ بند لفافے سے قارون کا کونسا خزانہ نکلے گا اور اس کے نقصان کا کچھ ازالہ ہوگا جبکہ ہر دینے والے کا مقصد حیات یہ ہوتا ہے کہ جتنا دیا ہے اس سے دگنے پیسوں کا کھانا ٹھوس لیا جائے اور تگنے کا ضائع کردیا جائے۔

کھانے کی میز پر سب سے کڑی نگاہ پھوپا خالو کی ہوتی ہے جو وقتاً فوقتاً نمک مرچ کی کمی زیادتی پر اپنی ماہرانہ رائے سے نوازتے رہتے ہیں۔ دسترخوان پر رزق ضائع ہونا باعث شرمندگی ہو نہ ہو، رائتے یا کولڈ ڈرنک کا کم پڑ جانا میزبان کے لیے باعث ندامت ضرور ہوتا ہے۔

کہاوت زبان زد عام ہے کہ پہلی مرتبہ کھانا ایسے نکالو کہ دوسری دفعہ نہیں ملے گا اور دوسری مرتبہ ایسے نکالو کہ پہلی دفعہ نہیں ملا تھا۔

اس پورے کھیل کے دوران وڈیو والے کا فقط ایک کام ہوتا ہے۔ کس نے کتنی بوتلیں اٹھائیں، کون مرغے کی ٹانگ مروڑ رہا ہے، کس نے کتنے قلچے چٹ کردیے، اس پوری واردات کو کیمرے کی آنکھ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلے تاکہ سند رہے۔ یہ سب اس لیے کیا جاتا ہے کہ کل کو اگر کوئی رشتہ دار ٹھیک سے کھانا نہ ملنے کی شکایت کرے تو وڈیو کے ذریعے اس کی مکاری کا پردہ فاش کیا جاسکے۔

شادیوں میں رسومات کی اتنی ہی افادیت ہے جتنی نئی آئینی ترامیم کے بعد ملک میں صدر کی رہ گئی ہے۔ پھر بھی مجال ہے کوئی بھولی بسری رسم یا شگون خاندان کی بڑی بوڑھیوں کے ذہن سے نکل جائے۔

آجکل مہندی کی تقریبات میں ڈانس فلور کا رواج بھی چل پڑا ہے جس میں خاندان کے سبھی منچلوں کو طوفان چھچھورپن برپا کرنے کا لائیسنس مل جاتا ہے۔ بیہودہ بھارتی گانوں کی تھاپ پر بدنما رقص کے وہ دور چلتے ہیں کہ پشتو فلموں کی اداکاراؤں کی روحیں کانپ جائیں۔ دوسری جانب سیلفیز کا جن بھی بوتل سے باہر آجاتا ہے۔ جون سے معذرت کے ساتھ۔
اس قدر سیلفیاں لینے کا
تجھ کو ہوتا نہ اختیار اے کاش!

غور طلب بات یہ ہے کہ جوانوں کے ساتھ ساتھ بوڑھے بھی اپنا حصہ بھرپور انداز میں ڈالتے ہیں۔ ہر ڈھولکی یا رتجگے کے دوران ایک دور ایسا ضرور آتا ہے جس کا آغاز اس شعر کے ساتھ ہوتا ہے۔
غزل کس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا!

ہماری ثقافتی روایات کی روشنی میں شادی خانہ آبادی لڑکی کے والدین کے دل اور جیب دونوں پر بھاری گزرتی ہے۔ چاہے اپنا راج دلارا کتنا ہی بدشکل، تاریک حال اور تاریک تر مستقبل کا حامل کیوں نہ ہو، ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ گھر میں آئے تو بس چاند جیسی بہو۔

ویسے تو جہیز سنت ہے لیکن لالچی لڑکے والوں کے لیے کہتے ہیں کہ اگر آپ کو جہیز کی اشد ضرورت ہے تو آپ لڑکی کا ہاتھ نہیں، زکوۃ مانگیے۔

ویسے میری ناقص رائے میں جس حساب سے ان دنوں شادیاں ہورہی ہیں، اس سال کے آخر تک ملک میں مردم شماری کا انعقاد ناگزیر ہوجائے گا اور یوں بھی شادیوں کا مسلسل ہوتے رہنا اچھا ہی ہے۔ آخر تقریب کچھ تو بحر ملاقات چاہیے!

[poll id="304"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں