پانی کا مذاق نہیں
ہوسکتا ہے یہ پانی کسی کی جان بچانے کے ذریعہ ہو، یا کسی کے لئے مہینے بھر کا پانی ہو۔
یونانی فلسفیوں نے کہا کہ پانی زندگی ہے۔ زندگی کی ابتداء پانی سے ہوئی ہے۔ وقت گزرا، پھر کہا گیا کہ آگ زندگی کی بنیاد ہے۔ لیکن ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ زندگی کی بنیاد پانی سے ہے یا آگ سے۔ بات یہ ہے کہ پانی کی اہمیت کا اندازہ تو انسان کی پیدائش سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ پانی اگر وافر مقدار میں میسر ہو تو ہم اِسے یوں ضائع کرتے ہیں جیسے وقت ہو، حالانکہ دونوں قیمتی ہیں اور اگر پانی نہ ہو تو ۔۔۔ بس نہ ہی پوچھیئے تو بہتر ہے، عالمی جنگ چھڑنے کا اندیشہ ہونے لگتا ہے۔
گاؤں دیہات میں تو پانی کے مسئلے پر وہ لڑائیاں چلتی ہیں کہ الامان الحفیظ۔ ۔۔۔۔۔ چند دن پہلے ہالی ووڈ کی ایک تھری ڈی فلم دیکھنے کا موقع ملا، فلم کا نام ''رینگو'' ہے۔ اِس فلم میں ایک چھپکلی ہوتی ہے، ارے نہیں نہیں بلکہ چھپکلا ہوتا ہے۔ ویسے ہم نے آج تک چھپکلا نہیں سنا، لیکن میرے خیال میں کہنے میں کوئی حرج نہیں، یقیناً ماہر لسانیات اس میں کوئی نقص نکالنے سے پہلے مذکر ایجاد کر ہی لیں گے۔
ایک واقعہ یاد آگیا۔ دو دوست ایک جگہ بیٹھے تھے۔ ایک دوست دیوار پربیٹھے کوے کو دیکھ کر کہتا ہے، ''یہ کوا ہے یا کوی؟''
دوسرے دوست نے جو جواب دیا اس کے آگے ساری راکٹ سائنس فیل ہوگئی۔ دوست نے جواب دیا، ''اگر یہ اُڑ گیا تو کوا اور اگراُڑ گئی تو کوی''۔
ہم اپنے قارئین کو زیادہ پریشان نہیں کریں گے۔ اس لئے چھپکلی کے شوہر کو چھپکلا کہہ سکتے ہیں۔ چھپکلا اپنے آپ کی تلاش میں ایک گاؤں میں پہنچتا ہے، جہاں پانی کی شدید قلت ہوتی ہے۔ لوگ پانی کے ایک ایک گھونٹ کے لیے ترس رہے ہوتے ہیں، وہ پانی کی عوض اپنی جائیدادیں تک فروخت کردیتے ہیں۔ دوسری جانب مافیا نے پانی روک کر لوگوں کی اِملاک پر تقریباً قبضہ کرلیا تھا۔ یہاں تک کہ بینک میں پیسوں کی جگہ پانی جمع ہوتا ہے۔ اس فلم کو دیکھ کر بے ساختہ پورا ملک اور خصوصاً تھر کے علاقے یاد آجاتے ہیں جہاں مافیا نے لوگوں کے لیے پانی کو نایاب بنا دیا ہے۔
ایک اشتہار دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک فرد صبح سویرے اُٹھ کر دانت برش کرنے کے لئے بیسن کے پاس آتا ہے۔ وہ برش پر پیسٹ لگاتا ہے اور برش کرنے لگتا ہے۔ برش کرتے ہوئے نلکا کھلا رہتا ہے۔ اس کھلے نلکے سے مختلف خیالی لوگ استفادہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی فرد کٹورا لے کر پانی حاصل کرتا ہے، ایک شخص پھل دھوتا ہے، ایک بچی اپنی پیاس بجھاتی ہے۔
دراصل اس اشتہار میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے آپ جب تک نلکا کھلا رکھتے ہیں پانی ضائع ہوتا رہتا ہے۔ شاید یہ آپ کے لیے اتنا اہم نہیں ہے، لیکن یہ پانی کسی کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے آپ کو اس کا ذرا بھی اندازہ نہیں۔ ہوسکتا ہے یہ پانی کسی کی جان بچانے کے ذریعہ ہو یا کسی کے لئے مہینے بھر کا پانی ہو۔
ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی زندگی میں پانی کی کمی کے تجزبےسے گزر چکے ہیں اور اندازہ ہے کہ جب پانی نہ ہو تو ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے زندگی مفلوج ہوگئی ہو۔ پانی کے بغیر لوگ ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ ممالک جنگوں کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ لیکن ہمارا حال اس تجربے سے گزرنے کے باوجود یہ ہوتا ہے کہ ہم بلا مبالغہ سیکڑوں گیلن پانی ضائع کر دیتے ہیں۔
کیوں بھائی ! کیامذاق کرنے کے لیے پانی ہی ملا ہے؟ کرلیں مذاق، جب پانی مذاق پر اتر آیا تو نوچتے رہنا ایک دوسرے کو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
گاؤں دیہات میں تو پانی کے مسئلے پر وہ لڑائیاں چلتی ہیں کہ الامان الحفیظ۔ ۔۔۔۔۔ چند دن پہلے ہالی ووڈ کی ایک تھری ڈی فلم دیکھنے کا موقع ملا، فلم کا نام ''رینگو'' ہے۔ اِس فلم میں ایک چھپکلی ہوتی ہے، ارے نہیں نہیں بلکہ چھپکلا ہوتا ہے۔ ویسے ہم نے آج تک چھپکلا نہیں سنا، لیکن میرے خیال میں کہنے میں کوئی حرج نہیں، یقیناً ماہر لسانیات اس میں کوئی نقص نکالنے سے پہلے مذکر ایجاد کر ہی لیں گے۔
ایک واقعہ یاد آگیا۔ دو دوست ایک جگہ بیٹھے تھے۔ ایک دوست دیوار پربیٹھے کوے کو دیکھ کر کہتا ہے، ''یہ کوا ہے یا کوی؟''
دوسرے دوست نے جو جواب دیا اس کے آگے ساری راکٹ سائنس فیل ہوگئی۔ دوست نے جواب دیا، ''اگر یہ اُڑ گیا تو کوا اور اگراُڑ گئی تو کوی''۔
ہم اپنے قارئین کو زیادہ پریشان نہیں کریں گے۔ اس لئے چھپکلی کے شوہر کو چھپکلا کہہ سکتے ہیں۔ چھپکلا اپنے آپ کی تلاش میں ایک گاؤں میں پہنچتا ہے، جہاں پانی کی شدید قلت ہوتی ہے۔ لوگ پانی کے ایک ایک گھونٹ کے لیے ترس رہے ہوتے ہیں، وہ پانی کی عوض اپنی جائیدادیں تک فروخت کردیتے ہیں۔ دوسری جانب مافیا نے پانی روک کر لوگوں کی اِملاک پر تقریباً قبضہ کرلیا تھا۔ یہاں تک کہ بینک میں پیسوں کی جگہ پانی جمع ہوتا ہے۔ اس فلم کو دیکھ کر بے ساختہ پورا ملک اور خصوصاً تھر کے علاقے یاد آجاتے ہیں جہاں مافیا نے لوگوں کے لیے پانی کو نایاب بنا دیا ہے۔
ایک اشتہار دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک فرد صبح سویرے اُٹھ کر دانت برش کرنے کے لئے بیسن کے پاس آتا ہے۔ وہ برش پر پیسٹ لگاتا ہے اور برش کرنے لگتا ہے۔ برش کرتے ہوئے نلکا کھلا رہتا ہے۔ اس کھلے نلکے سے مختلف خیالی لوگ استفادہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی فرد کٹورا لے کر پانی حاصل کرتا ہے، ایک شخص پھل دھوتا ہے، ایک بچی اپنی پیاس بجھاتی ہے۔
دراصل اس اشتہار میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے آپ جب تک نلکا کھلا رکھتے ہیں پانی ضائع ہوتا رہتا ہے۔ شاید یہ آپ کے لیے اتنا اہم نہیں ہے، لیکن یہ پانی کسی کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے آپ کو اس کا ذرا بھی اندازہ نہیں۔ ہوسکتا ہے یہ پانی کسی کی جان بچانے کے ذریعہ ہو یا کسی کے لئے مہینے بھر کا پانی ہو۔
ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی زندگی میں پانی کی کمی کے تجزبےسے گزر چکے ہیں اور اندازہ ہے کہ جب پانی نہ ہو تو ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے زندگی مفلوج ہوگئی ہو۔ پانی کے بغیر لوگ ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ ممالک جنگوں کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ لیکن ہمارا حال اس تجربے سے گزرنے کے باوجود یہ ہوتا ہے کہ ہم بلا مبالغہ سیکڑوں گیلن پانی ضائع کر دیتے ہیں۔
کیوں بھائی ! کیامذاق کرنے کے لیے پانی ہی ملا ہے؟ کرلیں مذاق، جب پانی مذاق پر اتر آیا تو نوچتے رہنا ایک دوسرے کو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔