پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر

خطے کا امن بہتر پاک بھارت تعلقات سے مشروط ہے ورنہ اسلحہ کی دوڑ شروع ہونے سے غربت ختم ہوگی اور نہ جہالت۔


Editorial March 09, 2015
اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان ترجیحات پر اتفاق پیداہو جائے تو پھر بھارت کے ساتھ مذاکرات کا عمل زیادہ سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ فوٹو : فائل

وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے اتوار کو اسلامی ممالک کے تھنک ٹینک فورم سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومتی پالیسی کے حوالے سے کہا کہ حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہیں، ایشوز کے حوالے سے ان میں بہت مطابقت اور تسلسل ہے۔

افغانستان کے بارے میں ہم نے مل کر ایک پالیسی بنائی ہے جس پر سیاسی حکومت اور فوج دونوں عمل کر رہے ہیں، چین کے بارے میں تو بہت زیادہ اتفاق ہے اور بھارت پر بھی ہم اسی طرح اتفاق رائے پیدا کر رہے ہیں، سول بالادستی کا لفظ کچھ زیادہ مناسب نہیں ہے تاہم یہ واضح ہے کہ ملک کی سول اور فوجی قیادت تمام اہم امور پر ایک ہی نقطے پر متفق ہے۔

کچھ عرصے سے بعض حلقے یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ملکی سلامتی کے امور کے حوالے سے حکومت اور فوج کے درمیان ہم آہنگی نہیں اور ان میں اختلافات موجود ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس پروپیگنڈا مہم کا مقصد حکومت اور فوج کے درمیان دوریاں پیدا کرکے حکومت کو کمزور کرنا ہے۔

اس منفی تاثر کو زائل کرنے کے لیے حکومت اور عسکری قیادت بھی بارہا اس امر کا اظہار کر چکی ہیں کہ ان دونوں کے درمیان کوئی اختلافات نہیں، ملکی سلامتی اور خارجہ امور کے حوالے سے دونوں ایک ہی صفحے پر ہیں۔

اب مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھی اس حوالے سے صورت حال واضح کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا ہے کہ سول اور فوجی قیادت تمام اہم امور پر ایک ہی نقطے پر متفق ہے تاہم سرتاج عزیز کی گفتگو سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ بھارت سے تعلقات کے حوالے سے حکومت اور فوج کے درمیان بعض امور پر ترجیحات کا فرق ہے۔

شاید اسی لیے جناب سرتاج عزیز نے اشارہ کیا ہے کہ حکومت فوج کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کر رہی ہے، یہ اچھی بات ہے کہ بھارت کے ساتھ جب مذاکرات ہوں تو حکومت اور فوج کی ترجیحات یکساں ہوں تاکہ مذاکراتی عمل خوش اسلوبی سے آگے بڑھ سکے۔بھارتی حکومت کو بھی انھی امور پر غور کرنا چاہیے اور اسے بھی اپنی فوج کو اعتماد میں لے کر پاکستان سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔اس طریقے سے ہی پاک بھارت مذاکرات کی کامیابی کا امکان ہو سکتا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے جب تک یہ حل نہیں ہوتا دوستانہ تعلقات کی کوئی بھی کوشش منڈھے نہیں چڑھ سکتی لہٰذا وقت کی ضرورت یہی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جب بھی مذاکرات ہوں تو تنازعہ کشمیر کو اولیت دی جائے۔پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بھی شاید یہی چاہتی ہے کہ سب سے پہلے کشمیر کے تنازع کے حل پر بات ہونی چاہیے۔

اگر یہ تنازعہ طے ہو جاتا ہے تو باقی کے معاملات حل ہونا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں۔منطقی لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں خاصا وزن نظر آتا ہے کیونکہ جب تک کور ایشو حل نہیں ہوتا دیگر معاملات پر مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے۔حالیہ دنوں میں بھارتی سیکریٹری خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس طرح بات چیت کی راہ ہموار ہوئی مگر اس دورے سے کوئی بریک تھرو نہیں ہوا اور معاملات ابھی تک جوں کے توں چل رہے ہیں البتہ اتنا ضرور ہوا کہ دونوں ممالک کے درمیان سیکریٹری خارجہ کی سطح پر پہلی بار باضابطہ بات چیت ہوئی جس سے یہ امید بندھی کہ بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھایا جائے گا۔

لیکن دونوں ممالک کے درمیان ابھی تک اعتماد بحال نہیں ہوا بھارتی سیکریٹری خارجہ کی جانب سے پاکستان کو ابھی تک دورے کی دعوت نہیں ملی اگر بھارتی سیکریٹری خارجہ پاکستان کو بھی دورے کی دعوت دیتے تو بات چیت کے فوری طور پر آگے بڑھنے کے امکانات واضح ہو جاتے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ بھارتی سیکریٹری خارجہ کے دورہ پاکستان کے بعد بھارت کی جانب سے کسی پیشرفت یا ردعمل کے منتظر ہیں جس کی روشنی میں یہ طے کیا جائے گا کہ اب پاکستان نے کیا اقدامات کرنے ہیں۔

سارک سربراہ کانفرنس آیندہ سال اسلام آباد میں منعقد ہو گی اگر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس کانفرنس میں شرکت کرتے ہیں تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں یہ ایک اہم پیش رفت ہو گی۔ پاکستان اور بھارت میں اعتماد کی بحالی کے لیے ناگزیر ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان رابطوں میں تسلسل رہے، کسی بھی وجہ سے تعلقات کا منقطع ہونا کشیدگی کا باعث بنتا ہے۔

بھارت اگر واقعی بہتر تعلقات کا خواہاں ہے تو اسے سرحدوں پر کشیدگی کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ بند کرنا ہو گا۔ جب بھی مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو تنازع کی اصل جڑ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے بجائے بھارت ممبئی واقعہ کو جواز بنا کر تعلقات کو خراب کرنے کی سوچی سمجھی کوشش کرتا ہے اور اس طرح شروع ہونے والا بات چیت کا سلسلہ تلخی کا شکار ہو کر منقطع ہو جاتا ہے۔

یہ خبریں بھی متعدد بار منظرعام پر آ چکی ہیں کہ بلوچستان میں ہونے والی گڑ بڑ کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ملوث ہے، پاکستان پر الزام تراشی کرنے کے بجائے بھارتی حکومت کو پہلے اپنے رویے پر غور کرنا چاہیے جب تک بھارت اپنے جارحانہ رویے کو ترک نہیں کرتا تب تک دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کے حوالے سے 68 سال سے جاری امیدیں بندھنے اور ٹوٹنے کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پاک بھارت تنازعات کے خاتمے میں ایک عرصہ درکار ہے۔

تاہم اس کے لیے جامع مذاکرات پہلی شرط ہے۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات میں بہتری آئی ہے اور افغان حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے آج تک اقوام متحدہ اور امریکا نے بھی کوئی سرگرم کردار ادا نہیں کیا، شاید ایسا کرنا ان کی کسی پالیسی کا حصہ ہو۔

خطے کا امن بہتر پاک بھارت تعلقات سے مشروط ہے ورنہ اسلحہ کی دوڑ شروع ہونے سے غربت ختم ہوگی اور نہ جہالت اور امن کی خواہش صرف ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔بہر حال جنوبی ایشیاء میں امن کی کنجی دونوں ملکوں کی قیادت کے پاس ہی ہے۔

بیرونی قوتوں کو اس تنازعے کے حل میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔یہ امر خوش آیند ہے کہ پاکستان اور بھارت میں یہ احساس بڑھ رہاہے کہ اس خطے میں موجود تنازعات کو حل ہونا چاہیے ۔اگر پاکستان میں اس معاملے پر پیش رفت ہوتی ہے تو بھارت میں بھی معاملات آگے بڑھیں گے۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتی ہے ۔اس کے لیے یہ زیادہ بہتر ہے کہ وفاقی حکومت بھارت کے ساتھ مذاکرات میں اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کو بھی سامنے رکھے ۔اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان ترجیحات پر اتفاق پیداہو جائے تو پھر بھارت کے ساتھ مذاکرات کا عمل زیادہ سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں