پیکر عدل و انصاف جسٹس رانا بھگوان داس

موت سے کس کو رستگاری ہے۔ جسٹس رانا بھگوان داس بھی اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔


Shakeel Farooqi March 10, 2015
[email protected]

موت سے کس کو رستگاری ہے۔ جسٹس رانا بھگوان داس بھی اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ انھیں پرلوک سدھارے ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا مگر ان کے چرچے آج بھی جاری ہیں اور آیندہ بھی جاری رہیں گے۔

ایسے عظیم لوگ امر ہوتے ہیں اور عوام کے قلوب و اذہان میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔رانا صاحب واقعی اسم بامسمیٰ تھے۔ ایک مخلص اور سچے بندہ خدا۔ میرے مشاہدے میں وہ اس نام کے دوسرے شخص تھے۔ اسی نام کے ایک جج صاحب دلی کی ایک عدالت میں ہوا کرتے تھے جو کم و بیش ایسی ہی خوبیوں اورصفات کے مالک تھے۔ درویش صفت اور عدل و انصاف کے پیکر۔ نام بھی یہی اور کام بھی یہی۔ نہ کسی کی سفارش کو خاطر میں لانا اور نہ کسی کے دباؤ یا پریشر میں آکر اپنا فیصلہ تبدیل کرنا۔

جسٹس رانا بھگوان داس کا ذکرآتے ہی ہندوستان کے ایک اور نام ور جج جسٹس آنند نارائن کا نام ذہن کی اسکرین پر ابھر آتا ہے۔ رانا بھگوان داس ہی کی طرح نہ صرف عدل و انصاف کی درخشندہ علامت تسلیم کیے جاتے تھے بلکہ ایک انتہائی بلند پایہ سخن ور بھی تھے اور ملا تخلص فرمایا کرتے تھے۔ منصفی اور شاعری ان دونوں حضرات میں قدر مشترک کا درجہ رکھتی تھی۔

جسٹس (ر) رانا بھگوان داس ضلع لاڑکانہ کے شہر نصیر آباد کے ایک متمول ہندو گھرانے میں 20 دسمبر 1942 کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے وہیں حاصل کی۔

اس کے بعد انھوں نے ایل ایل بی اور ایل ایل ایم کی ڈگریاں حاصل کرکے قانون کے شعبے میں اپنا ایک مقام پیدا کیا اور 1965 میں باقاعدہ وکالت کا آغاز کردیا۔ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں والی کہاوت رانا بھگوان داس پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ ان کے خاندان میں اس سے قبل کوئی بھی شخص ایسا نہیں گزرا تھا جس کا قانون کے شعبے سے دور و پرے کا بھی کوئی واسطہ رہا ہو۔ اس اعتبار سے وہ قطعی طور پر ایک Self Made انسان تھے۔

ان کی اہلیت اور لیاقت کا اندازہ صرف اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وکالت کی شروعات کے صرف دو ہی برس کے انتہائی مختصر عرصے کے بعد وہ سول جج کے منصب پر فائز ہوگئے جب کہ 27 سال کی ملازمت کے بعد انھیں سندھ ہائی کورٹ کا جج مقرر کردیا گیا۔ ان کی ترقی کا یہ سفر زینہ بہ زینہ جاری رہا تاآ نکہ 4 فروری 2004 کو انھیں سپریم کورٹ کا جج تعینات کردیا گیا۔

وہ وطن عزیز کی تاریخ کے پہلے ہندو اور دوسرے غیر مسلم تھے جو سپریم کورٹ کے جج بنائے گئے۔ وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے قائم مقام چیف جسٹس بھی رہے اور اس حوالے سے بھی بڑا نام کمایا۔ ججز بحالی تحریک میں بھی انھوں نے بڑی پامردی اور غیر معمولی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور شدید سے شدید دباؤ کے باوجود انھوں نے آمریت کا ساتھ نہیں دیا۔

رانا بھگوان داس ان 60 ججوں میں شامل تھے جنھوں نے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے جاری کردہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے صاف انکار کردیا تھا جس کی پاداش میں انھیں ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔ اپنے اس جرأت مندانہ اقدام سے انھوں نے ہندوؤں کی مقدس کتاب رامائن کے اس قول کی یاد تازہ کردی کہ:

رَگُھو کُل رِیت سدا چلی آئی
پران جائیں پر وَچن نہ جائی

مطلب یہ کہ سچا انسان وہ ہوتا ہے جو حق کا پرچم بلند رکھنے کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ جسٹس (ر) رانا بھگوان داس کا ایک طرہ امتیاز یہ بھی تھا کہ انھیں سلام اور اسلامی تعلیمات سے بڑا گہرا لگاؤ تھا اور یہی وجہ تھی کہ انھوں نے ایم۔اے اسلامیات کا امتحان بھی پاس کیا۔ اس اعتبار سے وہ پاکستان سپریم کورٹ کے چوتھے غیر مسلم چیف جسٹس اے۔آر کارنیلیئس کے پیروکار تھے جنھیں Islamic Jurisprudence پر عبور حاصل تھا۔

72 سال کی عمر میں وفات پانے والے جسٹس (ر) رانا بھگوان داس ہمہ صفت اور ہمہ جہت انسان تھے۔ جس وقت پاکستان میں عدلیہ کا بحران اپنے نکتہ عروج پر تھا اس وقت وہ ذاتی دورے پر ہندوستان گئے ہوئے تھے۔

مصلحت کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ ہندوستان میں اپنے قیام کو توسیع دے دیتے اور ہر قسم کے مخمصے سے صاف بچ نکلنے کی تدبیر کرتے۔ مگر رانا صاحب نے حالات کے غیر معمولی چیلنج کو قبول کیا اور بے لوث حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے وطن عزیز کا رخ کیا۔ دراصل یہی پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کا Turning Point تھا۔ وہ 23 مارچ کو وطن واپس آگئے اور مرد آہن کا کردار ادا کرنے کے لیے نامساعد حالات کے آگے چٹان بن کر کھڑے ہوگئے۔

رانا بھگوان داس نے نومبر 2009 سے دسمبر 2012 تک فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ 2000 میں جب انھیں ترقی دے کر سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا تو تنگ نظری اور حسد کے شکار حلقوں کی جانب سے اس فیصلے کو چیلنج کرایا گیا اور دلیل یہ پیش کی گئی کہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے وہ اس عہدے پر فائز کیے جانے کی اہلیت کے حامل نہیں ہیں۔ لیکن سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اس دلیل کو سختی کے ساتھ مسترد کردیا۔

انسان دوستی اور دردمندی رانا بھگوان داس کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی تھی جو انھیں اپنے ہم منصبوں سے ممتاز کرتی تھی۔ وہ انسانی حقوق کے بہت بڑے علم بردار اور چیمپئن تھے۔

حقوق نسوں کے تحفظ میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے اور سندھ میں کاروکاری انسانیت سوز رسم و روایات کی انھوں نے شمشیر برہنہ کی صورت میں ڈٹ کر شدید مخالفت کی۔ ان کا شمار پاکستان کے ان ممتاز ججوں میں ہوتا ہے جو اپنے منہ سے نہیں بلکہ اپنے صادر کیے ہوئے عدالتی فیصلوں کی زبان سے بولتے ہیں۔

اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے بھی جسٹس رانا بھگوان داس کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ سینئر وکلا اور سابق جج صاحبان اس عظیم انسان کو بہ یک آواز خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں، جس کے آنجہانی رانا صاحب بجا طور پر مستحق ہیں۔ آئین پاکستان کے تقدس کا رانا صاحب نے تاحیات پورا خیال رکھا اور اس کی ہمیشہ بڑھ چڑھ کر پاسداری اور حمایت کی۔

شعر و شاعری سے بھی رانا بھگوان داس کو بڑا گہرا شغف تھا اور وہ خود بھی شعر کہتے تھے اور تسکین ذوق کی خاطر کبھی کبھار مشاعروں میں بھی شرکت کیا کرتے تھے۔ ''ادارہ ادبیات اردو'' کے قیام کے پس پشت ان کی ذاتی دلچسپی اور کاوش بھی کارفرما تھی۔ کشادہ دلی اور انتہائی تحمل و برداشت رانا بھگوان داس کی شخصیت کی نمایاں خصوصیات تھیں۔

تعصب اور تنگ نظری سے انھیں ہمیشہ ہی نفرت رہی۔ ان کے ہم مکتب و ہم جماعت اور ان کے تمام ہم عصر و ہم منصب ان کے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کے بہ یک زبان قائل اور معترف ہیں۔ اپنی کتاب میں رانا بھگوان داس کے ایک سینئر ہم پیشہ عبدالغفور بھرگڑی (مرحوم) رقم طراز ہیں کہ ''میں نے قانون کی پریکٹس میں 60سال گزارے ہیں لیکن میں نے اتنا جرأت مند اور ایماندار جج کہیں نہیں دیکھا۔''

رانا صاحب کے آخری ایام میں حکومت کی جانب سے انھیں چیف الیکشن کمشنر جیسے اہم عہدے کی نہ صرف پیش کش کی گئی تھی بلکہ ان سے اس سلسلے میں شدید اصرار بھی کیا گیا تھا لیکن انھوں نے انتہائی معذرت کرلی اور اپنی زندگی بھر کی کمائی ہوئی ساکھ کو داؤ پر لگانے سے انکار کردیا۔ ہمارے خیال میں ان کا یہ فیصلہ بالکل درست تھا کیونکہ فخرو بھائی کا انجام ہمارے سامنے ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ:

اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی

مرحوم کی آخری خواہش یہ تھی کہ خادم انسانیت عبدالستار ایدھی کے ساتھ شریک ہوکر خدمت خلق کے لیے خود کو وقت کردیں لیکن افسوس کہ زندگی نے مزید وفا نہ کی جس کے باعث ان کی یہ آخری خواہش پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔