عمران کی ایک دن کی ایڈیٹری
میں چپ رہا، یوں اخبار وطن سے وابستگی شروع ہوئی، اس سے قبل صرف مضمون دینے آتا تھا،
کرکٹ کمنٹیٹر منیر حسین کے حوالے سے پچھلے کالم میں جو باتیں شیئر کی گئیں انھیں قارئین نے اس فرمائش کے ساتھ جاری رکھنے کا مشورہ دیا کہ منیر حسین کی زندگی تجربات و مشاہدات کا دریا ہے، جس کے لیے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے اس لیے ان سے متعلق مزید واقعات اور یادیں قارئین تک پہنچائی جائیں۔
کچھ یادیں اور باتیں کپتان عمران خان کے بارے میں ہیں جنہیں منیر حسین اور رسالہ اخبار وطن کے قارئین پیار سے ''عمی''IMI کہتے تھے۔ میرا کرکٹ جریدہ ''اخبار وطن'' کو وقفہ وقفہ سے ایڈٹ کرنے کا واقعہ بھی دلچسپ تھا۔ یہ 1975ء تا 87ء کا ٹوٹتا جڑتا دورانیہ ہے۔ اخبار وطن ابتدا میں ادبی اور ثقافتی جریدہ تھا، آرٹ پیپر پر چھپتا تھا، نواب محی الدین، اثر نعمانی، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، مشتاق یوسفی، بانو قدسیہ، ایم اے راحت اور دیگر ممتاز ادیبوں، افسانہ نگاروں اور شاعروں کی تخلیقات اس میں شامل ہوتی تھیں۔ چند شماروں کے بعد اس کی اشاعت معطل ہوئی مگر اچانک منیر حسین نے یہ تدبیر سوچی کہ وسیم باری کی قیادت میں پاکستان کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے دورے پر جارہی ہے، اس موقع پر کیوں نہ اخبار وطن کا ایک غیر رسمی سووینیئر چھاپا جائے۔
چنانچہ میٹنگ ہوئی جس میں سراج الاسلام بخاری نے لیڈنگ رول ادا کیا اور وہ ایڈیٹر بن گئے، منیر حسین مینجنگ ایڈیٹر تھے۔ چند ہی روز میں اخبار وطن چھپ کر تقسیم بھی ہوگیا، ان دنوں ارشد حسین، منیر حسین کے منیجر تھے، بھاری بھرکم ہونے پر بھی سخت محنتی آدمی تھے۔ انھوں نے تجربہ کے طور پر کچھ کاپیاں ریگل چوک پر عرفان نامی بک ڈپو ہولڈر کے پاس رکھوا دیں۔ بس پھر کیا تھا کہ پورا پرچہ سولڈ آؤٹ ہوگیا اور عرفان دوڑے دوڑے اخبار وطن کے دفتر آئے اور مزید پرچے اٹھا کر لے گئے، یہ کتابت کا دور تھا، ٹریسنگ پیپر پر ساری کتابت ہوتی تھی، لیکن رفتہ رفتہ اخبار وطن کی سرکولیشن اور اس کی طباعت بہتر ہوتی گئی۔
کرکٹ کے تمام سپراسٹار اس کے دیوانے ہوگئے۔ کرکٹ کے اسٹار کھلاڑیوں کی کلر تصاویر اور ٹرانسپیرنسیوں اور آف دی فیلڈ مضامین سے اسے سجا دیا گیا۔ اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس سووینیئر کے اندر سے کرکٹ کا ایک سدابہار اور مقبول ترین جریدہ برآمد ہوگا۔ حیرت ناک بات یہ تھی کہ ریاض احمد منصوری کا ''کرکٹر'' کھیل اور کھلاڑیوں کی پرفارمنس، اسکور کارڈز اور عالمی شہرت یافتہ کرکٹ فوٹوگرافر پیٹرک ایگر کی منفرد ٹرانسپیرنسیوں کے باعث مقبول ترین سنجیدہ رسالہ تھا، پورے پاکستان میں پیٹرک ایگر صرف ''کرکٹر'' کو ٹرانسپیرنسیاں دیتے تھے، اخبار وطن کے فوٹوگرافر فاروق عثمان اور افضل حسین تھے۔
لٹل ماسٹر حنیف محمد ''کرکٹر'' کے چیف ایڈیٹر تھے۔ منیر حسین کشادہ دلی سے خود کہتے تھے کہ پیشہ ورانہ رقابت اور دو طرفہ نوک جھونک اپنی جگہ، مگر ریاض منصوری ان سے کہیں اچھے منتظم ہیں۔ وہاں احمد سلیم اور خان آصف جیسے قد آور ادیب بھی کنٹری بیوٹر تھے۔ میں منصوری کی بے حد عزت کرتا تھا اور مرحوم گل حمید بھٹی تو مجھے دل نواز مسکراہٹ کے ساتھ منیر حسین کا bonded غلام کہتے تھے، کیونکہ میں نے ان کے لیے کبھی کرکٹ پر کوئی مضمون نہیں لکھا۔ گل حمید بھٹی مایہ ناز صحافی رضیہ بھٹی کے شوہر تھے، کرکٹ انسائیکلوپیڈیا تھے، دوسرا کرکٹ معلومات کا ''ِجن'' عزیز رحمت اللہ ہیں۔ اسی اخبار وطن کے بطن سے کئی اسپورٹس رپورٹر نکلے جو آج بی بی سی، سی این
این، خلیج ٹائمز، گلف نیوز اور دیگر نشریاتی اداروں، انگریزی اور اردو روزناموں کے اسپورٹس رپورٹر، پیج کے نگراں اور اینکر پرسنز ہیں۔ اب اس دن کا ذکر جب منیر حسین نے پیش کش کی کہ اخبار وطن کی مستقل ادارت سنبھالیں، میں نے سادہ لوحی سے جواب دیا کہ لیاری کے رہنے والے بلوچ سے آپ فٹ بال اور باکسنگ رسالے کی ایڈیٹری کا کہہ سکتے ہیں، کرکٹ ایک بورژوائی اور جنٹلمینز کھیل ہے۔ مجھے تو اس کی اصطلاحات، گیم فارمیٹ اور قوانین کا کچھ زیادہ پتا نہیں، مگر مجھے انھوں نے یوں لاجواب کردیا کہ ''شاہ جی، کیا بات کرتے ہو، آپ نے پھر اے ایچ کاردار کے خلاف مجھے اتنا دھانسو مضمون کیسے لکھ کردیا۔
میں چپ رہا، یوں اخبار وطن سے وابستگی شروع ہوئی، اس سے قبل صرف مضمون دینے آتا تھا، احسان قریشی ، رشید شکور، سلیم خالق، ساجد علی ساجد، مشتاق احمد، ماجد بھٹی، مرزا اقبال بیگ، عالیہ رشید، شاہد اختر ہاشمی ، ریاض الدین ، سردار خان ، نعیم الدین ، انیلہ واحد سمیت کئی نوجوان اسپورٹس جرنلسٹ ، مبصر ، کمنٹیٹر اس ادارے سے کندن بن کر نکلے۔
1977ء میں آسٹریلیا کے ٹائیکون کیری پیکر نے زلزلہ برپا کردیا، ان کی رنگیلی، نرالی ورلڈ کرکٹ سیریزکے تجربے سے عالمی کرکٹ کا ڈھانچہ بدلا، کرکٹ کی پیشہ ورانہ تاریخ نے کروٹ لی اور آسٹریلیا سمیت پاکستان، انگلینڈ، ویسٹ انڈیز اور جنوبی افریقہ کے کرکٹرز نے اپنے کرکٹ بورڈ سے بغاوت کرلی، پیسہ سرچڑھ کر بول رہا تھا، کیری پیکر سیریز کی بنیاد اسی تصور پر تھی کہ کرکٹرز کو کم پیسہ ملتا ہے۔
یہ کیری پیکر کا طلسماتی ذہن اور اس کا احسان ہے کہ آج دنیا کے کرکٹرز دولت کے سوئمنگ پول میں نہا رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سینئر صحافی اور اسپورٹس مبصر سید محمد صوفی بھی اخبار وطن سے وابستگی کے وقت منیر حسین سے یہی کہتے رہے کہ وہ کرکٹ کی تکنیکی باریکیوں سے کماحقہ واقف نہیں، مگر جب منیر صاحب نے انھیں آزمائش کے لیے کرکٹ کے موضوع پر جان آرلٹ کے دو انگریزی آرٹیکل ترجمہ کرنے کو دیے، تو دوسرے دن ترجمہ دیکھ کربے انتہا خوش ہوئے اور کہا ''صوفی تو کرکٹ کے صوفی نکلے۔''
پھر سید محمد صوفی صاحب نے اخبار وطن کو جدت و ندرت کا بانکا سجیلا جریدہ بنا دیا، اور ساجد علی ساجد نے دلچسپ تراجم کے انبار لگا دیے۔ کافی عرصہ بعد ارشد حسین اور منیر حسین نے پلان بنایا کہ عمران خان سے اخبار وطن ایڈٹ کرایا جائے اور اس ماہ کے مدیر کے طور پر عمران خان کا نام چھاپا جائے۔ عمران نہ مانے، ضدی مزاج آج بھی ان کی شناخت ہے، اب معاملہ ہاتھی کو گھیر گھار کر کھائی میں گرانے کا تھا۔
لہٰذا وہ دن بھی آگیا جب لائٹ ہاؤس کے سامنے واقع سائیکل مارکیٹ میں عمران خان کی کار آکر رکی، وہ اپنے ایک دوست کے ہمراہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر دفتر آئے۔ ادارتی میٹنگ ہوئی، عمران نے اداریہ لکھا، تصویریں منتخب کیں، میٹر دیکھا، انھیں ادارتی صفحہ، سینٹر سپریڈ اور سرورق پر تصویر بھی منتخب کرنی تھی، یہ سارا کام شام تک جاری رہا اور کئی صفحات تیار ہوئے۔ وہ ایشو شایع ہوا اور خوب واہ واہ ہوئی۔
1982ء میں روزنامہ نوائے وقت کے اسپورٹس پیج پر میں نے ایک بے ضرر انشائیہ چھاپا، اس کا عنوان تھا ''ایک تھا شہزادہ''۔ اس میں عمران خان نیازی کی عمرانیات اور اس کی بے نیازی کا ذکر قدرے شگفتہ انداز میں کیا، مگر کپتان برہم ہوگئے، بزرگ اسپورٹس مبصر سلطان عارف اور منیر حسین نے مجھے فون کیا کہ ''کپتان سخت ناراض ہے، سنبھل جائیے وہ کراچی آرہے ہیں۔'' اسی رات عمران ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ویسٹ انڈیز کے اعزاز میں دیے گئے عشائیہ میں شریک تھے۔
اردو نیوز جدہ کے (اب مرحوم) اسپورٹس رپورٹر ظفر اقبال یوسف خان (مرحوم) کے متعارف کیے ہوئے رپورٹر تھے، یہ وہی رپورٹر ہیں جنہوں نے بے نظیر بھٹو اور زرداری کے پہلے بیٹے بلاول کی لیڈی ڈفرن اسپتال میں پیدائش کی خبر بریک کی تھی، عمران ان کے قریب تھے، مجھے لے کر ہوٹل پہنچے، جب عمران عشائیہ سے باہر راہداری میں نکلے تو ظفر اقبال نے انھیں روک کر کہا کہ نوائے وقت کے شاہ جی ملنا چاہتے ہیں، میں ان کے عقب میں تھا جب سامنے آیا تو عمران سخت غصہ میں آئے، دوچار سخت فقرے کہے اور ہمیں چھوڑ کر تیزی سے چل دیے۔
80ء کا اینڈ تھا۔ عمران کو کرکٹ ریٹائرمنٹ سے احساس تنہائی اور قدر ناشناسی کی اذیت کا سامنا تھا، وہ یوں کہ جب غیر ملکی دورے سے واپس ایئرپورٹ پر اترے تو کسی نے ان کی آمد کا نوٹس نہیں لیا، عمران کے اندر چاہے جانے کی دیوار گر گئی، اس موقع پر منیر حسین ہی ان کی مدد کو پہنچے، صدر جنرل ضیا الحق کراچی آنے والے تھے۔
سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں کے سی سی اے کے عہدیداروں اور دیگر ممتاز شہریوں سے انھیں خطاب کرنا تھا، منیر حسین نے بابائے کرکٹ بلند قامت عیسیٰ جعفر کو تیار کیا، عمران کی فوری واپسی کے حق میں ڈرامائی تقریر کروائی، جنرل صاحب اس قدر متاثر ہوئے کہ عمران پھر سے کپتان بنادیے گئے اور 1992ء کا عالمی کرکٹ کپ جتوا کر کپتان نے اس احسان کا بدلہ اتاردیا۔
یہ ورلڈ کپ 92ء کی جیت کے لمحوں کی بات ہے جب منیر حسین نے اپنے ذرایع سے ایک اردو روزنامہ میں فرنٹ باکس لگوا دیا کہ ''جیت خدا کا کرم اور قوم کی دعاؤں کا نتیجہ ہے''۔ اس بیان پر بھی سنا ہے عمران جلال میں آئے اور لندن سے منیر حسین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ''کیا میں نے اور لڑکوں نے جان نہیں ماری، یہ سب کچھ دعاؤں کا نتیجہ ہے؟''