یہ کیا ہو رہا ہے بھئی …
ورلڈ کپ 2015ء میں اب تک 33 میچز کھیلے جا چکے ہیں اور اس میں ریکارڈ 26 سنچریاں بن چکی ہیں،
ورلڈ کپ 2015ء میں اب تک 33 میچز کھیلے جا چکے ہیں اور اس میں ریکارڈ 26 سنچریاں بن چکی ہیں، کتنی؟ پوری 26۔ ویسے یہ ورلڈ کپ ہو کہاں رہا ہے؟ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں؟ حیرت ہو رہی ہے ناں؟ کہاں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی وہ وکٹیں جو باؤلرز کے لیے مددگار سمجھی جاتی ہیں کہاں یہ عالم کہ صرف 33 مقابلوں میں 23 مرتبہ 300 سے زیادہ رنز بنے ہیں بلکہ تین بار تو 400 کا ہندسہ بھی عبور ہو چکا ہے، ان میں بھی ایک بار کہیں اور نہیں پرتھ کی ''مشہور زمانہ'' وکٹ پر۔ باؤلرز کی تو ایک ہی صدا ہے ، الامان، الحفیظ!
آسٹریلیا اور سری لنکا کے مابین کھیلے گئے مقابلے کے دوران جب کمار سنگاکارا نے ایک ہی اننگز میں کئی سنگ ہائے میل عبور کیے وہیں اس اننگز نے کسی عالمی کپ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ سنچریوں کا ریکارڈ بھی توڑا۔ اس سے قبل 2011ء کے عالمی کپ میں 24 سنچریاں بنی تھیں جب کہ کمار سنگاکارا کی 102 رنز کی اننگز نے جاری ٹورنامنٹ میں سنچریوں کی تعداد کو 25 تک پہنچا دیا ہے۔ بنگلہ دیش-انگلستان مقابلے میں محمود اللہ کی یادگار سنچری نے اس میں مزید ایک اننگز کا اضافہ کردیا ہے۔ ویسے ابھی ٹورنامنٹ میں 16 میچز باقی ہیں اور یہ تعداد کہاں تک پہنچے گی، ابھی کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
یہ اعدادوشمار ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ پچھلے چند ایک سال میں کرکٹ میں کس تیزی سے تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ جب 1975ء میں پہلا ورلڈ کپ کھیلا گیا تھا تو صرف 6 سنچریاں بنیں تھیں بلکہ دوسرے ٹورنامنٹ میں تو یہ تعداد مزید گھٹ کر صرف 2 رہ گئی تھیں۔1983ء میں ہونے والے ورلڈ کپ کے 27 میچز میں 8 مرتبہ تہرے ہندسے کی اننگز کھیلی گئیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تینوں ورلڈ کپ انگلینڈ میں کھیلے گئے، جہاں باؤلرز کے لیے کنڈیشنز اچھی ہوتی ہیں اور اس بات کو 1987ء کے عالمی کپ سے تقویت بھی ملی جب برصغیر میں پہلی بار انعقاد ہوا اور 11 سنچریاں بنیں۔
1992ء میں ورلڈ کپ پہلی بار آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں منعقد ہوا، 39 میچز کھیلے گئے اور صرف 8 سنچریاں بنیں بلکہ پورے ٹورنامنٹ میں صرف ایک مقابلے میں 300 رنز کا ہندسہ عبور ہوا۔ یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کس طرح کی وکٹیں ہوتی تھیں۔ پھر پاکستان و بھارت نے 1996ء کے عالمی کپ کی میزبانی کی اور یہاں کی بیٹنگ کے لیے سازگار وکٹوں پر نیا ریکارڈ بنا اور 16 سنچریاں اسکور ہوئیں۔
1999ء میں جب 16 سال کے بعد ورلڈ کپ واپس انگلستان پہنچا تو 42 مقابلوں میں 11 سنچریاں بنیں لیکن اس کے بعد صدی بدل گئی، زمانہ بدل گیا اور کرکٹ بھی بدل گئی۔ 2003ء میں یہ تعداد کم و بیش دوگنی ہوکر 21 تک پہنچ گئی حالانکہ یہ ٹورنامنٹ جنوبی افریقہ میں کھیلا گیا تھا، جہاں زیادہ تر باؤلنگ وکٹیں ہوتی ہیں۔ اس کے بعد سے آج تک یہ تعداد 20 سے کم نہیں ہوئی۔ 2007ء میں 20 سنچریاں بنیں اور 2011ء میں بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں ہونے والے ورلڈ کپ میں یہ تعداد نئے ریکارڈ 24 تک جا پہنچی۔
لیکن 2015ء میں یہ صورتحال ہے کہ ابھی اچھے خاصے مقابلے باقی ہیں، وکٹیں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ہیں لیکن سنچریاں ہیں کہ کم ہونے میں نہیں آ رہی۔ صرف 33مقابلوں میں 26 سنچری اننگز کھیلی جا چکی ہیں جن میں ایک ڈبل سنچری بھی ہے، جو عالمی کپ تاریخ میں اپنی نوعیت کی واحد اننگز ہے۔
کیا قصور صرف وکٹوں کا ہے؟ شاید نہیں۔ اس کا ایک بہت بڑا سبب قوانین کی تبدیلی بھی ہے۔ بیٹنگ پاور پلے کے علاوہ بھی دائرے سے باہر 4 سے زیادہ فیلڈرز کھڑے نہیں کیے جا سکتے۔ پھر دونوں اینڈز سے الگ الگ گیندوں کے استعمال نے بھی باؤلز کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ اب ایک تماشہ ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں، یہ کہاں جا کر تھمے گا، کچھ نہیں معلوم جب تک کہ اس پر بین الاقوامی کرکٹ کونسل روک نہیں لگائے گی۔
آسٹریلیا اور سری لنکا کے مابین کھیلے گئے مقابلے کے دوران جب کمار سنگاکارا نے ایک ہی اننگز میں کئی سنگ ہائے میل عبور کیے وہیں اس اننگز نے کسی عالمی کپ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ سنچریوں کا ریکارڈ بھی توڑا۔ اس سے قبل 2011ء کے عالمی کپ میں 24 سنچریاں بنی تھیں جب کہ کمار سنگاکارا کی 102 رنز کی اننگز نے جاری ٹورنامنٹ میں سنچریوں کی تعداد کو 25 تک پہنچا دیا ہے۔ بنگلہ دیش-انگلستان مقابلے میں محمود اللہ کی یادگار سنچری نے اس میں مزید ایک اننگز کا اضافہ کردیا ہے۔ ویسے ابھی ٹورنامنٹ میں 16 میچز باقی ہیں اور یہ تعداد کہاں تک پہنچے گی، ابھی کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
یہ اعدادوشمار ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ پچھلے چند ایک سال میں کرکٹ میں کس تیزی سے تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ جب 1975ء میں پہلا ورلڈ کپ کھیلا گیا تھا تو صرف 6 سنچریاں بنیں تھیں بلکہ دوسرے ٹورنامنٹ میں تو یہ تعداد مزید گھٹ کر صرف 2 رہ گئی تھیں۔1983ء میں ہونے والے ورلڈ کپ کے 27 میچز میں 8 مرتبہ تہرے ہندسے کی اننگز کھیلی گئیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تینوں ورلڈ کپ انگلینڈ میں کھیلے گئے، جہاں باؤلرز کے لیے کنڈیشنز اچھی ہوتی ہیں اور اس بات کو 1987ء کے عالمی کپ سے تقویت بھی ملی جب برصغیر میں پہلی بار انعقاد ہوا اور 11 سنچریاں بنیں۔
1992ء میں ورلڈ کپ پہلی بار آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں منعقد ہوا، 39 میچز کھیلے گئے اور صرف 8 سنچریاں بنیں بلکہ پورے ٹورنامنٹ میں صرف ایک مقابلے میں 300 رنز کا ہندسہ عبور ہوا۔ یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کس طرح کی وکٹیں ہوتی تھیں۔ پھر پاکستان و بھارت نے 1996ء کے عالمی کپ کی میزبانی کی اور یہاں کی بیٹنگ کے لیے سازگار وکٹوں پر نیا ریکارڈ بنا اور 16 سنچریاں اسکور ہوئیں۔
1999ء میں جب 16 سال کے بعد ورلڈ کپ واپس انگلستان پہنچا تو 42 مقابلوں میں 11 سنچریاں بنیں لیکن اس کے بعد صدی بدل گئی، زمانہ بدل گیا اور کرکٹ بھی بدل گئی۔ 2003ء میں یہ تعداد کم و بیش دوگنی ہوکر 21 تک پہنچ گئی حالانکہ یہ ٹورنامنٹ جنوبی افریقہ میں کھیلا گیا تھا، جہاں زیادہ تر باؤلنگ وکٹیں ہوتی ہیں۔ اس کے بعد سے آج تک یہ تعداد 20 سے کم نہیں ہوئی۔ 2007ء میں 20 سنچریاں بنیں اور 2011ء میں بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں ہونے والے ورلڈ کپ میں یہ تعداد نئے ریکارڈ 24 تک جا پہنچی۔
لیکن 2015ء میں یہ صورتحال ہے کہ ابھی اچھے خاصے مقابلے باقی ہیں، وکٹیں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ہیں لیکن سنچریاں ہیں کہ کم ہونے میں نہیں آ رہی۔ صرف 33مقابلوں میں 26 سنچری اننگز کھیلی جا چکی ہیں جن میں ایک ڈبل سنچری بھی ہے، جو عالمی کپ تاریخ میں اپنی نوعیت کی واحد اننگز ہے۔
کیا قصور صرف وکٹوں کا ہے؟ شاید نہیں۔ اس کا ایک بہت بڑا سبب قوانین کی تبدیلی بھی ہے۔ بیٹنگ پاور پلے کے علاوہ بھی دائرے سے باہر 4 سے زیادہ فیلڈرز کھڑے نہیں کیے جا سکتے۔ پھر دونوں اینڈز سے الگ الگ گیندوں کے استعمال نے بھی باؤلز کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ اب ایک تماشہ ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں، یہ کہاں جا کر تھمے گا، کچھ نہیں معلوم جب تک کہ اس پر بین الاقوامی کرکٹ کونسل روک نہیں لگائے گی۔