خواتین کے حقوق کا عالمی دن
ہاں البتہ رشتوں کا تقدس ضرور ہے، جیسا کہ خاوند کو بیوی پر فوقیت دی گئی ہے،
KARACHI:
خداوند کریم نے بلا شبہ انسانوں کو برابر پیدا فرمایا ہے، یعنی انسان ہونے کے ناتے کسی انسان کو کسی دوسرے انسان پر کوئی فوقیت نہیں ہے، اسی طرح عورت کو مرد پر یا مرد کو عورت پر کوئی فوقیت نہیں ہے۔
ہاں البتہ رشتوں کا تقدس ضرور ہے، جیسا کہ خاوند کو بیوی پر فوقیت دی گئی ہے، اس رشتے میں مرد کو جو فوقیت دی گئی ہے وہ رشتے کا تقدس ہے جب کہ دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک خاتون جب وہ ماں ہوتی ہے تو اس ماں کو اپنے بچوں پر قدرت نے جو فوقیت دی ہے، وہ رشتے کا تقدس ہے، یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ جو بلند ترین مقام ماں کو عطا ہوا ہے اگر اس خاتون کے آٹھ یا دس بیٹے بھی ہوں تو وہ سب یکساں ہوکر بھی اپنی ماں کے بلند مقام کی برابری کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔
یہ فوقیت ماں کے رشتے کا احترام ہے بصورت دیگر حقیقت وہی ہے کہ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے، سب انسان بلا تفریق مرد و زن برابر ہیں، مگر عام طور پر یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ یہ خیال جوکہ خام خیال ہے کہ مرد عورت کی نسبت زیادہ باصلاحیت ہوتا ہے جب کہ حقیقت اس خیال کے برعکس ہے۔
کیوں کہ عورت کسی بھی زمانے سے تعلق رکھتی ہو ہر دور میں عورت نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے، سب سے بڑی مثال ہمارے آقا و مولا رسول برحق حضور اکرم ؐ کی پیاری بیوی ام المومنین حضرت خدیجہؓ ہیں جو کہ تجارت کرتی تھیں اور ان کے کاروبار کا دائرہ دوسرے ممالک تک پھیلا ہوا تھا۔ خود رسولؐ عربی ان کا مال تجارت فروخت کرنے کی غرض سے دوسرے ممالک تک لے جاتے تھے اور سفر سے واپسی پر مال تجارت سے حاصل شدہ رقم ان کو ادا فرما دیا کرتے تھے۔
چنانچہ رسولؐ عربی نے یہاں ہمارے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ پیش کیا ہے کہ اگر کوئی خاتون اپنے خاندان کی کفالت کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا حصہ ڈالنا چاہے تو اس خاتون پر کوئی پابندی نہ ہوگی۔
لیکن آج اگر ہم اپنے سماج میں دیکھتے ہیں کہ کوئی خاتون اپنے گھریلو حالات سے پریشان ہوکر کوئی ملازمت اختیار کرے تو اس خاتون پر طرح طرح کی الزام تراشیوں کا آغاز ہوجاتا ہے یہ الزام تراشیاں کرنے والے اس خاتون کے قریبی عزیز و اقارب ہی ہوتے ہیں۔ جب کہ یہ عزیز و اقارب وہ صاحب ثروت لوگ ہوتے ہیں جو استعداد کے باوجود اس خاتون کی یا اس کے خاندان کی مالی معاونت کرنے کے روادار نہیں ہوتے جب کہ گلی محلے کے اوباش و نکھٹو لڑکے اس خاتون یا اس جیسی دیگر ملازمت پیشہ خواتین پر آوازیں کسنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔
دوسری جانب قبائلی نظام میں تو عورت کے حقوق تو کیا شاید اس کے انسان ہونے کا بھی تصور تک موجود نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مجھے چند قبائل کے رہن سہن کے متعلق جانکاری کا موقع ملا ہے اگر ان قبائل کے نام تحریر کروں تو بات ذاتیات تک چلی جائے گی۔ ان میں دو قبائل ایسے بھی ہیں جن کا پاکستان کی سیاست میں اہم ترین کردار رہا ہے۔
ان قبائل میں زراعت سے وابستہ تمام امور خواتین انجام دیتی ہیں، ان امور میں فصلوں کی بوائی سے لے کر فصلوں کی تیاری تک، پھر کٹائی سے لیے کر تیار فصلوں کی گھروں تک منتقلی تک یہ سب امور خواتین انجام دیتی ہیں جب کہ ان قبائل کے مرد حضرات ہوٹلوں و اوطاقوں میں بیٹھ کر گپ شپ لگانے یا قبائلی لڑائیوں میں مصروف رہتے ہیں، جب کہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے میں بھی یہ لوگ اپنی شان سمجھتے ہیں۔
چنانچہ آٹھ یا دس بچے کسی بھی خاندان میں ہونا عام سی بات ہے جب کہ ان تمام بچوں کی پرورش بھی خاتون خانہ کی ذمے داریوں میں شامل ہے، یعنی دونوں صورتوں میں خواتین پر جبر ہے کہ ایک جانب عورت کے ملازمت کرنے میں رکاوٹیں ہیں جب کہ دوسری جانب عورت پر اس قدر کام کا بوجھ ڈالنا سراسر ظلم ہے۔ یہ ظلم عورت پر زندگی کے کسی ایک شعبے تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر شعبوں میں بھی واضح نظر آتا ہے۔
اول شادی کے معاملے میں دیہی علاقوں میں تو گویا لڑکی کی پسند یا ناپسند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جہاں والدین نے یا قبیلے کے سردار نے لڑکی کا رشتہ طے کردیا بس وہ حرف آخر ہے، اب کوئی بھی لڑکی اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی، البتہ جسے اپنی زندگی عزیز نہ ہو اس کی بات دیگر ہے، اسی طرح لڑکی کی شادی کے وقت اس کی عمر کا خیال بھی کم ہی رکھا جاتا ہے۔
عام طور پر 12 سے 14 برس کی لڑکی کی شادی کردی جاتی ہے جب کہ اس عمر میں لڑکی شادی کے مفہوم سے بھی ناآشنا ہوتی ہے جب کہ یہ بدلے کی شادی ہوتی ہے، یعنی اگر کسی سے لڑکی کا رشتہ مطلوب ہے تو پھر اس خاندان میں لڑکی کا رشتہ دینا بھی لازمی ہے، اس قسم کی رشتے داری کو ''وٹہ سٹہ'' کا نام دیا جاتا ہے، جب کہ اس قسم کی رشتے داری میں چار افراد منسلک ہوجاتے ہیں۔ صاف مطلب ہے اگر ایک فرد غلطی کرے گا تو خمیازہ چار افراد بھگتیں گے۔
دوئم کاروکاری کی رسم ہے، اس بد رسم میں ہوتا یہ ہے کہ کسی خاتون یا لڑکی پر بدکاری کا سچا یا جھوٹا الزام لگادیا جاتا ہے، پھر قبیلے کے سردار سے اس کے قتل کا فیصلہ لیا جاتا ہے۔ یہ قتل اس قدر بے رحمانہ انداز میں کیا جاتا ہے کہ حساس دل انسان کے اس کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ یہ سزا بدکاری کے الزام میں دی جاتی ہے مگر پس پردہ خاندانی مسائل ہوتے ہیں، جب کہ اگر کسی مرد پر بدکاری کا الزام آجائے تو وہ اکثر جرمانے کی رقم ادا کرکے بچ نکلتا ہے۔
سوئم ایک اور رسم ہے ''ونی''، اس رسم کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب دو قبائل طویل لڑائیوں سے تنگ آکر بالآخر ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو باہمی لڑائیوں میں قتل ہونے والے مردوں کے ورثا کو تاوان کے طور پر لڑکیاں دی جاتی ہیں اس پر بھی فیصلہ قبیلے کے سرداروں سے لیا جاتا ہے کہ کس قبیلے کو مخالف قبیلے کی کتنی لڑکیاں دی جائیں گی۔
جب کہ خواتین پر ایک ظلم بڑے ہی خوبصورت انداز میں کیا جاتا ہے، ہوتا یہ ہے کہ سرمایہ دار اپنی گھٹیا و تیسرے درجے کی اشیا فروخت کرنے کے لیے خواتین کا سہارا لیتے ہیں کہ وہ اپنی ادائیں دکھا دکھا کر ان اشیا کی نمائش کریں تاکہ ان اشیا کی فروخت میں اضافہ ممکن ہوسکے، جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرمایہ دار اپنی اشیا کا معیار بلند کرے تاکہ صارفین ان اشیا کا معیار دیکھ کر وہ اشیا خریدیں تاکہ اشتہار میں خوبرو خواتین کو دیکھ کر خریدیں۔
خواتین پر ظلم و جبر اس لیے نہیں ہورہا کہ خواتین کے حقوق کے لیے قوانین موجود نہیں بلکہ قوانین موجود ہیں مگر ان قوانین پر عمل در آمد نہیں ہوتا۔ ہر سال کی طرح امسال بھی 8 مارچ کو خواتین کے حقوق کا عالمی دن منایا گیا۔ ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ خواتین پر روا رکھے جانے والے ہر ظلم و جبر کا خاتمہ کرنا ہوگا، خواتین کو نہ صرف برابر کا شہری تسلیم کرنا ہوگا بلکہ ان کو برابر کے حقوق بھی دینا ہوں گے اور یہ کوشش کرنا ہوگی کہ خواتین بھی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں تاکہ ہم بھی ترقی یافتہ اقوام کے بالمقابل کھڑے ہوسکیں کیوں کہ کسی بھی سماج کی ترقی خواتین کی سماجی سرگرمیوں سے مشروط ہوتی ہے۔
انڈونیشیا کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں سماجی سرگرمیوں میں خواتین کا حصہ 52 فیصد ہے، یہی سبب ہے کہ آج انڈونیشیا تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہا ہے۔
خداوند کریم نے بلا شبہ انسانوں کو برابر پیدا فرمایا ہے، یعنی انسان ہونے کے ناتے کسی انسان کو کسی دوسرے انسان پر کوئی فوقیت نہیں ہے، اسی طرح عورت کو مرد پر یا مرد کو عورت پر کوئی فوقیت نہیں ہے۔
ہاں البتہ رشتوں کا تقدس ضرور ہے، جیسا کہ خاوند کو بیوی پر فوقیت دی گئی ہے، اس رشتے میں مرد کو جو فوقیت دی گئی ہے وہ رشتے کا تقدس ہے جب کہ دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک خاتون جب وہ ماں ہوتی ہے تو اس ماں کو اپنے بچوں پر قدرت نے جو فوقیت دی ہے، وہ رشتے کا تقدس ہے، یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ جو بلند ترین مقام ماں کو عطا ہوا ہے اگر اس خاتون کے آٹھ یا دس بیٹے بھی ہوں تو وہ سب یکساں ہوکر بھی اپنی ماں کے بلند مقام کی برابری کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔
یہ فوقیت ماں کے رشتے کا احترام ہے بصورت دیگر حقیقت وہی ہے کہ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے، سب انسان بلا تفریق مرد و زن برابر ہیں، مگر عام طور پر یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ یہ خیال جوکہ خام خیال ہے کہ مرد عورت کی نسبت زیادہ باصلاحیت ہوتا ہے جب کہ حقیقت اس خیال کے برعکس ہے۔
کیوں کہ عورت کسی بھی زمانے سے تعلق رکھتی ہو ہر دور میں عورت نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے، سب سے بڑی مثال ہمارے آقا و مولا رسول برحق حضور اکرم ؐ کی پیاری بیوی ام المومنین حضرت خدیجہؓ ہیں جو کہ تجارت کرتی تھیں اور ان کے کاروبار کا دائرہ دوسرے ممالک تک پھیلا ہوا تھا۔ خود رسولؐ عربی ان کا مال تجارت فروخت کرنے کی غرض سے دوسرے ممالک تک لے جاتے تھے اور سفر سے واپسی پر مال تجارت سے حاصل شدہ رقم ان کو ادا فرما دیا کرتے تھے۔
چنانچہ رسولؐ عربی نے یہاں ہمارے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ پیش کیا ہے کہ اگر کوئی خاتون اپنے خاندان کی کفالت کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا حصہ ڈالنا چاہے تو اس خاتون پر کوئی پابندی نہ ہوگی۔
لیکن آج اگر ہم اپنے سماج میں دیکھتے ہیں کہ کوئی خاتون اپنے گھریلو حالات سے پریشان ہوکر کوئی ملازمت اختیار کرے تو اس خاتون پر طرح طرح کی الزام تراشیوں کا آغاز ہوجاتا ہے یہ الزام تراشیاں کرنے والے اس خاتون کے قریبی عزیز و اقارب ہی ہوتے ہیں۔ جب کہ یہ عزیز و اقارب وہ صاحب ثروت لوگ ہوتے ہیں جو استعداد کے باوجود اس خاتون کی یا اس کے خاندان کی مالی معاونت کرنے کے روادار نہیں ہوتے جب کہ گلی محلے کے اوباش و نکھٹو لڑکے اس خاتون یا اس جیسی دیگر ملازمت پیشہ خواتین پر آوازیں کسنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔
دوسری جانب قبائلی نظام میں تو عورت کے حقوق تو کیا شاید اس کے انسان ہونے کا بھی تصور تک موجود نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مجھے چند قبائل کے رہن سہن کے متعلق جانکاری کا موقع ملا ہے اگر ان قبائل کے نام تحریر کروں تو بات ذاتیات تک چلی جائے گی۔ ان میں دو قبائل ایسے بھی ہیں جن کا پاکستان کی سیاست میں اہم ترین کردار رہا ہے۔
ان قبائل میں زراعت سے وابستہ تمام امور خواتین انجام دیتی ہیں، ان امور میں فصلوں کی بوائی سے لے کر فصلوں کی تیاری تک، پھر کٹائی سے لیے کر تیار فصلوں کی گھروں تک منتقلی تک یہ سب امور خواتین انجام دیتی ہیں جب کہ ان قبائل کے مرد حضرات ہوٹلوں و اوطاقوں میں بیٹھ کر گپ شپ لگانے یا قبائلی لڑائیوں میں مصروف رہتے ہیں، جب کہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے میں بھی یہ لوگ اپنی شان سمجھتے ہیں۔
چنانچہ آٹھ یا دس بچے کسی بھی خاندان میں ہونا عام سی بات ہے جب کہ ان تمام بچوں کی پرورش بھی خاتون خانہ کی ذمے داریوں میں شامل ہے، یعنی دونوں صورتوں میں خواتین پر جبر ہے کہ ایک جانب عورت کے ملازمت کرنے میں رکاوٹیں ہیں جب کہ دوسری جانب عورت پر اس قدر کام کا بوجھ ڈالنا سراسر ظلم ہے۔ یہ ظلم عورت پر زندگی کے کسی ایک شعبے تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر شعبوں میں بھی واضح نظر آتا ہے۔
اول شادی کے معاملے میں دیہی علاقوں میں تو گویا لڑکی کی پسند یا ناپسند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جہاں والدین نے یا قبیلے کے سردار نے لڑکی کا رشتہ طے کردیا بس وہ حرف آخر ہے، اب کوئی بھی لڑکی اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی، البتہ جسے اپنی زندگی عزیز نہ ہو اس کی بات دیگر ہے، اسی طرح لڑکی کی شادی کے وقت اس کی عمر کا خیال بھی کم ہی رکھا جاتا ہے۔
عام طور پر 12 سے 14 برس کی لڑکی کی شادی کردی جاتی ہے جب کہ اس عمر میں لڑکی شادی کے مفہوم سے بھی ناآشنا ہوتی ہے جب کہ یہ بدلے کی شادی ہوتی ہے، یعنی اگر کسی سے لڑکی کا رشتہ مطلوب ہے تو پھر اس خاندان میں لڑکی کا رشتہ دینا بھی لازمی ہے، اس قسم کی رشتے داری کو ''وٹہ سٹہ'' کا نام دیا جاتا ہے، جب کہ اس قسم کی رشتے داری میں چار افراد منسلک ہوجاتے ہیں۔ صاف مطلب ہے اگر ایک فرد غلطی کرے گا تو خمیازہ چار افراد بھگتیں گے۔
دوئم کاروکاری کی رسم ہے، اس بد رسم میں ہوتا یہ ہے کہ کسی خاتون یا لڑکی پر بدکاری کا سچا یا جھوٹا الزام لگادیا جاتا ہے، پھر قبیلے کے سردار سے اس کے قتل کا فیصلہ لیا جاتا ہے۔ یہ قتل اس قدر بے رحمانہ انداز میں کیا جاتا ہے کہ حساس دل انسان کے اس کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ یہ سزا بدکاری کے الزام میں دی جاتی ہے مگر پس پردہ خاندانی مسائل ہوتے ہیں، جب کہ اگر کسی مرد پر بدکاری کا الزام آجائے تو وہ اکثر جرمانے کی رقم ادا کرکے بچ نکلتا ہے۔
سوئم ایک اور رسم ہے ''ونی''، اس رسم کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب دو قبائل طویل لڑائیوں سے تنگ آکر بالآخر ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو باہمی لڑائیوں میں قتل ہونے والے مردوں کے ورثا کو تاوان کے طور پر لڑکیاں دی جاتی ہیں اس پر بھی فیصلہ قبیلے کے سرداروں سے لیا جاتا ہے کہ کس قبیلے کو مخالف قبیلے کی کتنی لڑکیاں دی جائیں گی۔
جب کہ خواتین پر ایک ظلم بڑے ہی خوبصورت انداز میں کیا جاتا ہے، ہوتا یہ ہے کہ سرمایہ دار اپنی گھٹیا و تیسرے درجے کی اشیا فروخت کرنے کے لیے خواتین کا سہارا لیتے ہیں کہ وہ اپنی ادائیں دکھا دکھا کر ان اشیا کی نمائش کریں تاکہ ان اشیا کی فروخت میں اضافہ ممکن ہوسکے، جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرمایہ دار اپنی اشیا کا معیار بلند کرے تاکہ صارفین ان اشیا کا معیار دیکھ کر وہ اشیا خریدیں تاکہ اشتہار میں خوبرو خواتین کو دیکھ کر خریدیں۔
خواتین پر ظلم و جبر اس لیے نہیں ہورہا کہ خواتین کے حقوق کے لیے قوانین موجود نہیں بلکہ قوانین موجود ہیں مگر ان قوانین پر عمل در آمد نہیں ہوتا۔ ہر سال کی طرح امسال بھی 8 مارچ کو خواتین کے حقوق کا عالمی دن منایا گیا۔ ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ خواتین پر روا رکھے جانے والے ہر ظلم و جبر کا خاتمہ کرنا ہوگا، خواتین کو نہ صرف برابر کا شہری تسلیم کرنا ہوگا بلکہ ان کو برابر کے حقوق بھی دینا ہوں گے اور یہ کوشش کرنا ہوگی کہ خواتین بھی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں تاکہ ہم بھی ترقی یافتہ اقوام کے بالمقابل کھڑے ہوسکیں کیوں کہ کسی بھی سماج کی ترقی خواتین کی سماجی سرگرمیوں سے مشروط ہوتی ہے۔
انڈونیشیا کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں سماجی سرگرمیوں میں خواتین کا حصہ 52 فیصد ہے، یہی سبب ہے کہ آج انڈونیشیا تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہا ہے۔