ماؤنٹ ایورسٹ یا کچرا کُنڈی
ماؤنٹ ایورسٹ پر کوڑا کرکٹ اور انسانی فضلے کی موجودگی ماحولیاتی مسائل کو جنم دے رہی ہے۔
HARIPUR:
کوہ پیمائی کی فیلڈ میں ماؤنٹ ایورسٹ کو وہی مقام حاصل ہے جو فن اداکاری میں آسکر ایوارڈ کا ہے۔ اکیڈمی ایوارڈ کا حصول کسی بھی اداکار کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ اسی طرح ماؤنٹ ایورسٹ کو سَر کرنا کوہ پیماؤں کا دیرینہ خواب ہوتا ہے۔ اس خواب کو تعبیر دینے کے لیے ہر سال اوسطاً 700 کوہ پیما نیپال کا رُخ کرتے ہیں۔
کوہ پیماؤں کے ساتھ اشیائے خورونوش کی بڑی مقدار ہوتی ہے۔ ٹن پیک میں بند خوراک استعمال کرنے کے بعد وہ خالی ڈبے وہیں پھینک دیتے ہیں۔ اشیائے خورونوش کے خالی ڈبوں اور ریپرز کے علاوہ دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹی پر انسانی فضلے کی بھی بڑی مقدار موجود ہے۔ اس طرح ماؤنٹ ایورسٹ کو ' کچرا کُنڈی' کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
ماؤنٹ ایورسٹ پر کوڑا کرکٹ اور انسانی فضلے کی موجودگی ماحولیاتی مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ گندگی کی وجہ سے وہاں نہ صرف آلودگی پھیل رہی ہے بلکہ مختلف امراض بھی جنم لے سکتے ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ کی گزرگاہوں پر جگہ جگہ پھیلی ہوئی گندگی کی وجہ سے وبائی امراض بھی پھیل سکتے ہیں۔
نیپال میں کوہ پیماؤں کی ایسوسی ایشن کے سربراہ اینگ شیرنگ کہتے ہیں،'' ایورسٹ کی چوٹی تک پہنچنے کے راستے کوڑا کرکٹ اور انسانی فضلے سے اَٹ گئے ہیں۔ حکومت نے ماؤنٹ ایورسٹ کی صفائی ستھرائی کے سلسلے میں اب تک کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا۔ کھانے پینے کی اشیاء کے خالی ڈبے پہاڑی پر چھوڑ دینا کوہ پیماؤں کی مجبوری ہے۔ اور ظاہر ہے کہ رفع حاجت کے لیے وہ کہاں جائیں۔''
نیپال میں کوہ پیمائی کا سیزن مارچ کے آغاز کے ساتھ شروع ہوجاتا ہے جو مئی کے اختتام تک جاری رہتا ہے۔ تین ماہ کے دوران سیکڑوں غیرملکی کوہ پیما مقامی گائیڈز جنھیں شرپا کہا جاتا ہے، کی مدد سے ماؤنٹ ایورسٹ کو سَر کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اپریل 2014ء میں ماؤنٹ ایورسٹ سے گرنے والے برفانی تودے کی زد میں آکر سولہ گائیڈ ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حادثے کی وجہ سے گذشتہ سال کوہ پیمائی کی مہمات منسوخ کردی گئی تھیں۔
ماؤنٹ ایورسٹ پر بیس کیمپ سے لے کر چوٹی کے درمیان چار کیمپ قائم ہیں۔ ان کیمپوں میں خیمے اور کچھ دوسرا بنیادی ضرورت کا سامان موجود ہوتا ہے مگر بیت الخلا نہیں ہیں۔ چناں چہ انسانی فضلہ برف کے گڑھوں میں دبا دیا جاتا ہے۔ یوں تو چوٹی تک پہنچنے کے دونوں اہم راستوں پر جگہ جگہ کوڑا کرکٹ اور گندگی بکھری ہوئی ہے مگر یہ کیمپ اور ان کا قرب و جوار خاص طور پر کچرا کنڈی کا منظر پیش کرتا ہے۔
نیپالی حکومت نے 2014ء میں یہ پابندی عائد کی تھی کہ ہر کوہ پیما چوٹی سے واپسی پر اپنے ساتھ آٹھ کلو کوڑا کرکٹ لے کر آئے گا بہ صورت دیگر اسے چار ہزار ڈالر جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ تاہم انسانی فضلے کی صورت میں پھیلنے والی گندگی سے نمٹنے کے سلسلے میں اب تک کچھ نہیں کیا جاسکا۔
ماؤنٹ ایورسٹ پہلی بار 1953ء میں نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما ایڈمنڈ ہلیری اور اس کے نیپالی شرپا ٹینزنگ نورگے نے سَر کی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک چار ہزار کوہ پیما یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔
کوہ پیمائی کی فیلڈ میں ماؤنٹ ایورسٹ کو وہی مقام حاصل ہے جو فن اداکاری میں آسکر ایوارڈ کا ہے۔ اکیڈمی ایوارڈ کا حصول کسی بھی اداکار کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ اسی طرح ماؤنٹ ایورسٹ کو سَر کرنا کوہ پیماؤں کا دیرینہ خواب ہوتا ہے۔ اس خواب کو تعبیر دینے کے لیے ہر سال اوسطاً 700 کوہ پیما نیپال کا رُخ کرتے ہیں۔
کوہ پیماؤں کے ساتھ اشیائے خورونوش کی بڑی مقدار ہوتی ہے۔ ٹن پیک میں بند خوراک استعمال کرنے کے بعد وہ خالی ڈبے وہیں پھینک دیتے ہیں۔ اشیائے خورونوش کے خالی ڈبوں اور ریپرز کے علاوہ دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹی پر انسانی فضلے کی بھی بڑی مقدار موجود ہے۔ اس طرح ماؤنٹ ایورسٹ کو ' کچرا کُنڈی' کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
ماؤنٹ ایورسٹ پر کوڑا کرکٹ اور انسانی فضلے کی موجودگی ماحولیاتی مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ گندگی کی وجہ سے وہاں نہ صرف آلودگی پھیل رہی ہے بلکہ مختلف امراض بھی جنم لے سکتے ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ کی گزرگاہوں پر جگہ جگہ پھیلی ہوئی گندگی کی وجہ سے وبائی امراض بھی پھیل سکتے ہیں۔
نیپال میں کوہ پیماؤں کی ایسوسی ایشن کے سربراہ اینگ شیرنگ کہتے ہیں،'' ایورسٹ کی چوٹی تک پہنچنے کے راستے کوڑا کرکٹ اور انسانی فضلے سے اَٹ گئے ہیں۔ حکومت نے ماؤنٹ ایورسٹ کی صفائی ستھرائی کے سلسلے میں اب تک کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا۔ کھانے پینے کی اشیاء کے خالی ڈبے پہاڑی پر چھوڑ دینا کوہ پیماؤں کی مجبوری ہے۔ اور ظاہر ہے کہ رفع حاجت کے لیے وہ کہاں جائیں۔''
نیپال میں کوہ پیمائی کا سیزن مارچ کے آغاز کے ساتھ شروع ہوجاتا ہے جو مئی کے اختتام تک جاری رہتا ہے۔ تین ماہ کے دوران سیکڑوں غیرملکی کوہ پیما مقامی گائیڈز جنھیں شرپا کہا جاتا ہے، کی مدد سے ماؤنٹ ایورسٹ کو سَر کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اپریل 2014ء میں ماؤنٹ ایورسٹ سے گرنے والے برفانی تودے کی زد میں آکر سولہ گائیڈ ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حادثے کی وجہ سے گذشتہ سال کوہ پیمائی کی مہمات منسوخ کردی گئی تھیں۔
ماؤنٹ ایورسٹ پر بیس کیمپ سے لے کر چوٹی کے درمیان چار کیمپ قائم ہیں۔ ان کیمپوں میں خیمے اور کچھ دوسرا بنیادی ضرورت کا سامان موجود ہوتا ہے مگر بیت الخلا نہیں ہیں۔ چناں چہ انسانی فضلہ برف کے گڑھوں میں دبا دیا جاتا ہے۔ یوں تو چوٹی تک پہنچنے کے دونوں اہم راستوں پر جگہ جگہ کوڑا کرکٹ اور گندگی بکھری ہوئی ہے مگر یہ کیمپ اور ان کا قرب و جوار خاص طور پر کچرا کنڈی کا منظر پیش کرتا ہے۔
نیپالی حکومت نے 2014ء میں یہ پابندی عائد کی تھی کہ ہر کوہ پیما چوٹی سے واپسی پر اپنے ساتھ آٹھ کلو کوڑا کرکٹ لے کر آئے گا بہ صورت دیگر اسے چار ہزار ڈالر جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ تاہم انسانی فضلے کی صورت میں پھیلنے والی گندگی سے نمٹنے کے سلسلے میں اب تک کچھ نہیں کیا جاسکا۔
ماؤنٹ ایورسٹ پہلی بار 1953ء میں نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما ایڈمنڈ ہلیری اور اس کے نیپالی شرپا ٹینزنگ نورگے نے سَر کی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک چار ہزار کوہ پیما یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔