ریت کا جادو
یہاں بہت دنوں بعد بزرگ شاعر ع س مسلم صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جو دبئی میں ہمارے اولین مشاعرے کے بھی سرپرست تھے۔
ریت سے متعلق تلازموں میں غالباً سب سے زیادہ اور معروف ترین تلازمہ ریگ رواں کا ہے جو انگریزی میں Shifting Sands کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ ہماری زمین جن بنیادی حصوں میں بنی ہوئی ہے، اس میں بھی پانی اور مٹی کے بعد ریت ہی کا نمبر آتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عام طور پر ریت اور مٹی ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہیں۔
مجھے یاد ہے 1981 میں جب پہلی بار دبئی جانا ہوا تو وہ ایک نیم اجاڑ سی جگہ تھی جس میں عمارتوں کے درمیان ریت ملی مٹی کا ایک ایسا دریا سا بہہ رہا تھا جس میں روئیدگی اور سبزے نام کا گزر تک نہیں تھا، چھوٹے سے ایئر پورٹ سے باہر نکلتے ہی چند سیڑھیاں اترنے کے بعد قدرے بے ڈھنگی سی آبادی شروع ہو جاتی تھی جس کے بازاروں میں سستی اشیاء کی عام سی دکانیں تھیں جن کے زیادہ تر گاہک لیبر کلاس کے وہ مزدور تھے جو اس شہر کی تعمیر کے لیے بے گھری اور شدید ترین گرمی کا عذاب سہہ رہے تھے کہ ان دنوں وہاں نہ تو عظیم شاندار اور غیر ملکی قیمتی اشیا سے بھرے ہوئے ایئرکنڈیشنڈ شاپنگ مال تھے نہ بڑی سڑکیں نہ گاڑیوں کی قطاریں اور نہ ہی وہ چمک دمک جو آج آنکھوں کو چکا چوند کیے دیتی ہے۔
صرف پندرہ بیس برس پہلے تک یہ ایک مچھیروں کی بستی تھی جہاں کا دوسرا اہم پیشہ گزرنے والی کشتیوں وغیرہ کو لوٹنا تھا اور یہ کہ وہاں کے حاکم تک اپنے معیار زندگی کے حوالے سے بس سفید پوشی کی زندگی ہی گزار رہے تھے۔ ہمیں پار دبئی میں الجواہر نامی ایک تین چار منزلہ ہوٹل میں ٹھہرایا گیا جس کے چاروں طرف اکا دکا عمارتوں اور بنجر مٹیالی زمین کے سوا کچھ نہ تھا۔
گزشتہ 34 برس میں تقریباً بیس مرتبہ وہاں جانے کا اتفاق ہوا ہے (تازہ ترین سفر اسی ماہ کی 4 سے 8 تاریخوں میں ہوا) اور مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ان میں سے ایک بار بھی مجھے اس شہر کی حالت پہلے سے بدلی ہوئی نہ ملی ہو۔
وہاں کے معروف اخبار خلیج ٹائمز کا دفتر ابوظہبی کی طرف جانے والی ایک عام سی سڑک کے نزدیک واقع تھا جو ان دنوں آباد دبئی کا سرحدی علاقہ تصور کیا جاتا تھا اور اس کے بعد تقریباً 150 کلو میٹر تک ویرانہ ہی ویرانہ تھا۔کوئی ہرا درخت، نہ پرندہ نہ آدم زاد۔ جب کہ اس وقت یہ عالم ہے کہ اس روٹ پر تین اتنی بڑی سڑکیں بن چکی ہیں کہ جن میں سے ہر ایک پر کاروں کے آنے جانے کے لیے دونوں طرف چھ رویہ راستے بنائے گئے ہیں مگر اس کے باوجود کم از کم جبل علی تک (جو دبئی کے سٹی سینٹر سے تقریباً ستر کلو میٹر کے فاصلے پر ہے) روزانہ ٹریفک جام ہوتا ہے اور ابوظہبی کے پورے راستے میں چھوٹی چھوٹی آبادیاں مسلسل آپ کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔
جمیرہ بیچ اور برج خلیفہ کے ارد گرد بننے والی بے شمار فلک بوس رہائشی عمارتوں میں ہزاروں فلیٹس تعمیر ہونے کے باوجود رہنے کو جگہ نہیں ملتی جب کہ یہاں دو بیڈ روم کے فلیٹ کا کرایہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ درہم سالانہ ہے یعنی اگر آپ اسے پاکستانی روپے میں تبدیل کر کے دیکھیں تو یہ تقریباً چھتیس لاکھ روپے کے لگ بھگ بنتا ہے یعنی تین لاکھ روپے ماہانہ اور واضح رہے کہ یہ عمارتیں شہر کے مرکز سے چالیس پچاس کلو میٹر کی دوری پر واقع ہیں۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ فی الوقت اس ہزار درہم ماہانہ سے کم آمدنی والے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ ایک کمرے کے فلیٹ میں بھی رہنا افورڈ نہیں کر سکتے کہ بقول غالب ؔ
ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں، کھائیں گے کیا!
کی سی صورت حال بن جاتی ہے۔ مجھے مشاعروں اور ادبی دوروں کی وساطت سے دنیا کے کئی بڑے شہروں مثلاً شکاگو، نیو یارک، لاس اینجلس، بیجنگ، شنگھائی، تاشقند، ممبئی، لندن، پیرس، فرینکفرٹ، سڈنی، دہلی، برمنگھم، ٹوکیو وغیرہ دیکھنے کا موقع ملا ہے لیکن تیزی، پھیلاؤ اور خوبصورتی تینوں حوالوں سے دبئی ان سب سے آگے ہے کہ یہاں ریت کے سمٹنے اور کنکریٹ کے پھیلنے کا عمل اس قدر ہوش ربا ہے کہ ہر بار دیکھنے پر یہ پہلے سے مختلف، زیادہ سرسبز اور زیادہ خوب صورت دکھائی دیتا ہے۔
کچھ نو تعمیر اور مہنگی رہائشی کالونیوں میں تو سبزے اور پھولوں کی اس قدر افراط ہے کہ یہ باور کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے کہ اس جگہ کا شمار دنیا کے گرم ترین خطوں میں ہوتا ہے۔ برادران عزیز افتخار بٹ اور نور الحسن تنویر کے گھر اندر سے اپنے مکینوں کی طرح باذوق اور کشادہ دل تو تھے ہی مگر ان کے بیرونی حصے، لان اور شجر کاری بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔
اب کچھ ذکر اس سفر کی غایت اور روداد کا بھی ہو جائے۔ ستر کی دہائی کے آخر اور اسی کی دہائی کے آغاز میں وہاں اردو بولنے، سمجھنے اور لکھنے والوں کی خاصی تعداد جمع ہو گئی تھی ۔
سو وہاں موسیقی اور شعر و ادب کی محفلوں کی جگہ آپ سے آپ بنتی چل گئی۔ اسّی کی دہائی کے وسط میں سلیم جعفری مرحوم نے بالخصوص شعر و ادب کے حوالے سے بڑھتے ہوئے رجحان کو ایک باقاعدہ سالانہ ادبی میلے کی شکل دے دی اور پاکستان اور بھارت کے اس وقت کے سینئر اور مقبول شعراء کے جشن منانے کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ایک دہائی تک چلتا رہا اور اگرچہ بعد کے چند برسوں میں ان کی بیوہ شاہدہ بھابی نے بھی اس کو جاری رکھا مگر ان کے خاتون اور ذاتی طور پر مشاعروں کے انتظامات کی تفصیلات سے کم واقفیت ہونے کی بنا پر یہ عدم تسلسل کا شکار رہا اور اگر دوحہ قطر کے برادر عزیز اور حقیقی معنوں میں خادم اردو ملک مصیب الرحمن ان کی اعانت نہ کرتے تو شاید یہ بالکل ہی ختم ہو جاتا مگر پھر یوں ہوا کہ یکے بعد دیگرے ملک مصیب اور شاہدہ بھابی دونوں کا بلاوا آ گیا۔
دوحہ میں محمد عتیق کی کوششوں سے تو یہ روایت ابھی تک زندہ ہے مگر سلیم جعفری کے بعد دبئی اور کسی حد تک ابوظہبی میں نت نئے مشاعرہ گروپ سامنے تو آتے رہے مگر سوائے ظہور الاسلام جاوید سید صلاح الدین، امجد اقبال امجد، اقبال پرنس اور بابر بھائی کے سب کے سب ایک یا دو مشاعروں کے بعد غائب ہو گئے۔ ظہور الاسلام جاوید اور سید صلاح الدین دونوں نے سلیم جعفری کے ساتھ مل کر کام کیا تھا سو انھوں نے اس روایت کو زندہ رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
ظہور کا تعلق پاکستان اور صلاح الدین کا بھارت سے ہے مگر ان کے مشاعروں میں دونوں ملکوں کے شعراء مدعو کیے جاتے ہیں، خود میں گزشتہ برس سید صلاح الدین کا اور اس سال ظہور الاسلام جاوید کا مہمان تھا۔ اس بار بھی حسب سابق ظہور الاسلام جاوید کا مشاعرہ ابوظہبی میں تھا جس کے مہمان خصوصی سفیر پاکستان محترم آصف درانی تھے جو رات دس بجے سے صبح ساڑھے چار بجے تک نہ صرف محفل میں خود شامل رہے بلکہ ان کے کئی رفقاء بھی آئے جن میں کمرشل قونصلر حبیب احمد سے مشاعرہ شروع ہونے سے قبل خاصی ملاقات رہی اور میں نے انھیں سخن سنج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بے حد باشعور اور درد مند پاکستانی بھی پایا۔
مشاعرے کے مہمان شعرا میں ڈاکٹر پیر زادہ قاسم اور میرے علاوہ عباس تابش، رحمن فارس، عنبریں حبیب عنبر، تسنیم عابدی، عزیزی قمر ریاض، سہیل ثاقب اور سعید آغا جب کہ میزبانوں میں ڈاکٹر ثروت زہرا، زبیر فاروق، سلمان جاذب، تابش زیدی اور یعقوب تصور کے نام ذہن میں رہ گئے ہیں۔
مشاعرہ عمومی طور پر بہت اچھا رہا لیکن اگر یہ وقت پر شروع کر دیا جاتا اور کچھ انتظامی طور پر ضروری مگر مشاعرے کے لیے بے جا طوالت کی حامل کارروائیوں پر توجہ دی جاتی تو یہ دو بجے تک ختم ہو سکتا تھا۔ 6 مارچ کو PAD یعنی پاکستانی ایسوسی ایشن آف دبئی کے دوستوں نے میرے اور پیر زادہ قاسم کے اعزاز میں ایک محفل مشاعرہ کا اہتمام کر رکھا تھا جس کی صدارت پاکستان قونصلیٹ کے کمیونٹی ویلفیئر اتاشی ہارون ملک نے کی جب کہ مہمان خاص برادر عزیز نور الحسن تنویر تھے ۔
یہاں بہت دنوں بعد بزرگ شاعر ع س مسلم صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جو دبئی میں ہمارے اولین مشاعرے کے بھی سرپرست تھے۔ انفارمیشن قونصلر عبدالواحد خان سے چند برس قبل ٹوکیو میں ملاقات ہو چکی تھی سو ان سب دوستوں کی موجودگی اور موسم کی خوشگواری نے اس محفل کو دو آتشہ کر دیا۔
میرا قیام برادر عزیز عابد نواز ملک کی طرف تھا جو حسب سابق سب کام چھوڑ چھاڑ کر چاروں دن مجھے ہر جگہ لیے لیے پھرے۔ پہلی شام بچپن کے دوست افتخار احمد بٹ دوسری ابوظہبی کے مشاعرے اور تیسری پہلے دمام اور اب دبئی والے عزیز دوست محمد افتخار بٹ کے ساتھ گزری جب کہ پہلی دوپہر برادرم فرخ مراد، تیسری بھائی نور الحسن تنویر اور 8 مارچ کی دوپہر پیارے بھائی میاں منیر اور ان کے برادر کلاں میاں عمر اور دیگر احباب کی دعوتوں میں کٹی جو سب کے سب میرے دل سے بہت قریب ہیں۔
قونصل جنرل جاوید خٹک اور ان کے رفقاء کے ساتھ کچھ وقت پاکستانی قونصلیٹ میں بھی گزرا جس کے دوران میں نے خٹک صاحب سے بھی وہی گزارشات کیں کہ جو دو دن قبل سفیر پاکستان آصف درانی سے کر چکا تھا کہ وہ حکومتی سطح پر دونوں ملکوں کی یونیورسٹیوں کے زبان و ادب سے متعلق شعبوں میں اردو اور عربی ادب کے جدید اور نمایندہ فن پاروں کے تراجم کا سلسلہ شروع کرائیں کیونکہ ہماری نوجوان نسل دنیا بھر کے ادب اور ادیبوں سے تو حسب توفیق واقفیت رکھتی ہے مگر ہم ایک دوسرے کے بارے میں اس قدر قریب ہونے کے باوجود بھی بہت کم جانتے ہیں اور اس ضمن میں باہمی تراجم یقیناً ایک پل کا رول ادا کر سکتے ہیں۔