سینیٹ کے انتخابات اور شفافیت

پنجاب میں دس کے قریب مسلم لیگی اراکین نے پیپلز پارٹی کے امیدوارکو ووٹ دیے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan March 11, 2015
[email protected]

سینیٹ کے انتخابات نا مکمل رہ گئے ۔ رات گئے جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس کو الیکشن کمیشن نے تسلیم کرنے سے انکارکیا، فاٹا کے چار سینیٹرز کے انتخاب کا معاملہ التواء کا شکار ہوگیا۔ تحریکِ انصاف نے خیبرپختون خواہ میں ہارس ٹریڈنگ کے خلاف شور مچایا جس کی بناء پر پولنگ کئی گھنٹے رکی رہی اور ڈیرہ اسماعیل کا گلزار خاندان پہلی بار انتخابی عمل سے باہر ہوا، مگر تحریکِ انصاف نے مسلم لیگ ن سے مفاہمت کرلی۔ پہلی دفعہ بیلٹ بکس سے خالی پرچیاں برآمد ہوئیں۔

بلوچستان سے آزاد امیدوارکامیاب ہوئے۔ پنجاب میں دس کے قریب مسلم لیگی اراکین نے پیپلز پارٹی کے امیدوارکو ووٹ دیے۔ سندھ میں ہارس ٹریڈنگ کی شکایت نہیں ہوئی مگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں پرکروڑوں روپے کے عوض سینیٹ کے ٹکٹ دینے کے الزامات لگے۔ اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان سینیٹ کے چیئرپرسن اورڈپٹی چیئرپرسن کے عہدے حاصل کرنے کی دوڑ شروع ہوگئی۔ سینیٹ کے انتخابات کے نتائج کے تجزیے سے ظاہر ہوا کہ 2013 میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نتائج کا عکس ان انتخابات میں نظر آیا۔ ہارس ٹریڈنگ کا غلغلہ انتخابات سے پہلے بہت زیادہ تھا مگر انتخابی نتائج سے ہارس ٹریڈنگ کے بہت زیادہ الزامات کی تصدیق نہ ہوسکی۔

2013 کے انتخابات میں کے پی کے میں تحریکِ انصاف، پنجاب میں مسلم لیگ ن، سندھ میں پیپلز پارٹی اور بلوچستان میں مخلوط جماعتوں کو اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ 5 مارچ 2015 کو ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں چاروں صوبوں میں ان ہی جماعتوں کو اکثریت حاصل ہوئی جنہوں نے مئی 2013 کے انتخابات میں حاصل کی تھی۔ اس صورتحال کو برقرا رکھنے میں مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور پختون خواہ ملی عوامی پارٹی نے بنیادی کردار ادا کیا۔

ملک میں انتخابی عمل اور سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا برسوں سے جائزہ لینے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں ہارس ٹریڈنگ کے خدشات تھے۔ یہی وجہ تھی کہ تحریکِ انصاف خفیہ ووٹ دینے کے خاتمے اور ہاتھ اٹھا کر ووٹ دینے کے قانون کے لیے مسلم لیگ ن سے تعاون کے لیے تیار تھی مگر پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی طریقہ کار کو تبدیل نہ کرنے کے حق میں رائے کے بعد تحریک ِانصاف اور مسلم لیگ ن کا سخت امتحان شروع ہوا تھا۔

تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے صورتحال کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے ہارس ٹریڈنگ کے بارے میں صفر برداشت پالیسی اختیار کرتے ہوئے اسمبلی توڑنے کی دھمکی دی تھی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تحریکِ انصاف کے نمایندوں نے اپنے سربراہ کی دھمکی کو سنجیدگی سے لیا تھا۔ اسی بناء پر تحریک کے منحرف رکن اسمبلی، صوبائی اسمبلی میں نہیں آئے جب کہ باقی اراکین نے انتہائی احتیاط کا ثبوت دیا۔ عوام اور سیاسی جماعت کے دباؤ کی بناء پر اراکین نے محتاط رویہ اختیارکیا۔

یہی وجہ ہے کہ سینیٹ کی 90ء کی دھائی سے شروع ہونے والی تاریخ میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ارب پتی گلزار خان خاندان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر تحریکِ انصاف نے ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا وہ قانون سے مطابقت رکھنے کے حوالے سے خود ایک سوال بن گیا۔ خیبر پختون خواہ میں اپوزیشن کے اراکین کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف نے اپنے اراکین کو براہِ راست ووٹ ڈالنے سے روکا۔ انھیں ہدایت کی گئی کہ بیلٹ پیپر کی جگہ خالی کاغذ بیلٹ باکس میں ڈالیں اور اپنا بیلٹ پیپر باہر آکر دکھائیں، دوسرا رکن بیلٹ پیپر بیلٹ بکس میں ڈال رہا تھا۔ یہ صورتحال مضحکہ خیز بنی۔

اسی تنازعے کی بناء پر کے پی کے میں کئی گھنٹے تک پولنگ رکی رہی۔ اگرچہ تحریکِ انصاف کے رہنماؤں نے اس الزام کی تردید کی مگر بیلٹ بکس سے ملنے والی خالی کاغذوں سے اپوزیشن کے اس الزام کی صداقت حقیقت سے قریب تر ہوگئی۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ پرویز خٹک نے اس بات کا اقرار کر کے کہ دوسری ترجیح کے لیے مسلم لیگ ن سے مفاہمت کی گئی تھی اپنے قائد عمران خان کے گزشتہ 9 ماہ سے مسلم لیگ ن سے کسی قسم کی مفاہمت نہ کرنے اور مسلم لیگ کو اقتدار سے ہٹا کر ملک کو تباہی سے بچانے کے نعرے کی صحت کو چیلنج کردیا۔

پرویز خٹک کے اس بیان سے ثابت ہوگیا کہ اپنے مفاد کے لیے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت ہر جماعت سے تعاون کیا جاسکتا ہے۔ عمران خان کا ان جماعتوں سے کسی قسم کی مفاہمت نہ کرنے کا نعرہ کمزور پڑگیا۔ عمران خان نے سینیٹ کے انتخابات سے قبل سابق صدر آصف علی زرداری سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ، تو عمران خان کے اس اقدام پر بھی حیرت ہوئی تھی مگر اب پرویز خٹک کے اقرار کے بعد عام آدمی کے لیے سیاسی رہنماؤں کے بیانات پر یقین کرنا مزید مشکل ہوگیا۔ پھر ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لیے کوئی غیر قانونی طریقہ اختیارکیا گیا ہے مگر کے پی کے کی سیاست میں ان تمام تضادات کے باوجود ہارس ٹریڈنگ کے اثرات کا کم ہونا جمہوری نظام کے لیے ایک صحت مندانہ علامت ہے۔

دوسری طرف ان انتخابات میں مسلم لیگ ن کی تنظیمی خرابیاں سامنے آگئیں۔ مسلم لیگ پنجاب اور بلوچستان میں اپنے اراکین کو نظم وضبط کا پابندی نہیں کرسکی۔ کہا جاتا ہے کہ سندھ کے رہنماؤں کو پنجاب سے سینیٹ کے انتخاب کے لیے ٹکٹ دینے اور میاں شہباز شریف کے طرزِ حکومت نے اراکین کو پارٹی لائن سے انحراف پر مجبور کیا۔ پنجاب اسمبلی کے اراکین کے لیے سندھ سے تعلق رکھنے والے تین اراکین کو منتخب کرنے کا فیصلہ کرنا اس لیے بھی مشکل تھا کہ پنجاب میں ان رہنماؤں سے زیادہ قربانیاں دینے والے کارکن موجود تھے۔

میاں شہباز شریف کا اراکین سے رابطہ نہ رکھنا، ترقیاتی اسکیموں میں اراکین کی رائے کو اہمیت نہ دینا اور اسمبلی سے غیر حاضری جیسے مسائل بعض اراکین کی بغاوت کی وجہ بنے مگر بنیادی بات یہ ہے کہ قیادت سے اختلاف کتنا ہی کیوں نہ ہو اگر قیادت کے فیصلوں پر کھلے عام اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے تو پھر کسی دوسرے فریق کی حمایت کا مطلب ہارس ٹریڈنگ بھی لیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن تنظیمی طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کا اتحاد قبائلی سرداروں کے ساتھ ہے جو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی ڈاکٹرائن کی تابعداری کرتے رہے ہیں۔ ان قبائلی سرداروں نے نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر مالک کی حکومت کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے، یہ قبائلی رہنما اپنے مفادات کے لیے صوبائی حکومت کے خلاف اعلانِ بغاوت بلند کرتے رہے ہیں۔

ان ہی رہنماؤں نے مرکزی قیادت کے فیصلے سے انحراف کیا ہے۔ بلوچستان میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کی پوزیشن اتنی کمزور ہے کہ وہ صوبائی اسپیکر جان جمالی سمیت ان رہنماؤں کے خلاف کسی کارروائی کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اب جان محمد جمالی نے بلوچستان مسلم لیگ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ یہی وقت ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت بلوچستان میں منحرف رہنماؤں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ اس کارروائی کی بناء پر میاں نواز شریف کو وقتی نقصان تو ہوگا مگر مستقبل میں ایک ایسی روایت قائم ہوگی کہ کوئی اور رہنما پارٹی پالیسی سے انحراف کی جرات نہیں کرسکے گا۔

بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام کا کردار بھی خاصا قابلِ اعتراض رہا۔ سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل کا یہ بیان قابلِ غور ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے رہنما معاہدے کی پاسداری کے بجائے منحرف ہوگئے، یوں جمعیت کی قیادت کے فیصلوں پر شکوک و شبہات بڑھ گئے۔ سینیٹ انتخابات کی ایک منفی بات انتخاب کی رات صدارتی آرڈیننس کا اجراء ہے۔ اس آرڈیننس کے اجرائے سے صدر ممنون حسین تنقید کا نشانہ بنے جب کہ وہ آئینی طور پر وزیر اعظم کی سفارش پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔ وفاقی حکومت کو یہ آرڈیننس سینیٹ انتخابات کے شیڈول کے اجراء کے وقت جاری کرنا چاہیے تھا۔

اب اس آرڈیننس کی خامیاں دور کر کے اس کو بل کی شکل میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کرنا چاہیے۔ اسی طرح کی کارروائیاں 80ء اور 90ء کی دھائی کی سیاست کی یاد دلاتی ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات سے پھر سوال انتخابی اصلاحات سے منسلک ہوگیا ہے۔ ہر سطح پر شفاف انتخابات کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کو آئینی اصلاحات پر غورکرنا چاہیے۔

تحریکِ انصاف قومی اسمبلی کی کارروائی اور سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کرکے شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کا مقصد حاصل نہیں کرسکتی۔ حکومت کو اس طرح کی غیر جمہوری حرکتوں کو ترک کردینا چاہیے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین کا عہدہ بلوچستان کو ملنا چاہیے۔ میر حاصل بزنجو اس عہدے کے اہل ہیں۔ آصف علی زرداری کے والد حاصل بزنجو کے والد میرغوث بخش بزنجو کی قیادت میں سرگرمِ عمل رہے ہیں۔ بلوچستان کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے یہ مناسب اقدام ہوگا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو چھوٹے صوبوں کے مفاد میں یہ فیصلہ کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |