کتنا دوڑانا ہے
شہریارخان اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ہیں اور وہ مشرف دور میں بھی اس اہم پوزیشن پر فائز رہے ہیں۔
چہرے پر چہرہ لگا دینے سے اصلیت چھپ نہیں جاتی۔ مگر بار بار چہروں پر خول لگانے سے اصلی چہرے تباہ بھی ہو سکتے ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ یہاں کسی بھی پوزیشن پر جو شخص بیٹھا ہے اُس کا اصل کام وہ نہیں ہے جس پر وہ بیٹھا ہوا ہے۔
یہاں موچی کو حجام کی دکان کھول کر اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ ہر آنے جانے والے پر نظر رکھے اسی چکر میں پورے محلے کے سروں پر بھلے استرا پھر جائے۔ یہاں زمین پر ہل چلانے والے کسان کے ہاتھ سے کھیت چھین کر اُسے پکوان کھول کر دے دیا جاتا ہے تا کہ وہ سب کے پیٹ اور منہ کو خراب کرتا رہے۔
اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ایک گاڑیاں صحیح کرنے والے مستری کو لیپ ٹاپ کا ماہر بنا کر پیش کیا جائے جو اُس کی الف، ب بھی نہ جانتا ہو۔ آپ سب لوگ کیوں حیرت کرتے ہیں کہ ایک بزنس مین کو جس نے زندگی میں کبھی کشتی نہ چلائی ہو اُسے ماہی گیروں کا سربراہ بنا دیا جائے اور کوئی قیامت نہیں آ جاتی کہ ایک سرکاری افسر کو کرکٹ اس لیے دے دی جائے کہ وہ انڈیا میں بہت اچھے تعلقات رکھتا ہو۔ اُس میں اب بھلے ہماری کرکٹ روز گرگٹ کی طرح رنگ بد لتی رہے وہ صرف اپنا کام کرتا رہے گا۔
گلے پھاڑ پھاڑ کر چاہے کوئی کچھ بھی بولتا رہے لیکن حقیقتیں ایسی نہیں کہ چھپی رہیں۔ شہریار خان کرکٹ پر بات کرتے ہیں لیکن لگتا یوں ہے کہ اُن کا اصل ٹاسک کچھ اور ہے۔
شہریارخان اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ہیں اور وہ مشرف دور میں بھی اس اہم پوزیشن پر فائز رہے ہیں۔ حیرت انگیز معاملہ یہ ہے کہ پوری زندگی سفارتکاری میں گزارنے والے اس اہم شخص کو ہمیشہ اُس وقت کیوں اہم پوزیشن دی جاتی ہے جب پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں کسی پچھلے راستے کی ضرورت ہوتی ہے۔
یاد کیجیے کہ نواز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد ہی اگست 2013ء میں شہریارخان کو خصوصی ٹاسک دیا اور اس کی تصدیق بھی ہو چکی تھی۔ دو سوالات اہم ہے کہ کن لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے؟ جو پچھلے دروازے سے بات چیت کرنے کے ماہر ہیں اور اب اس وقت کیا ہو رہا ہے۔ آئیے دو کرداروں پر بات کرتے ہیں جس سے بہت سی باتیں سمجھ آ جائیں گی۔
نوابزادہ شہریار خان 1934ء میں قصر سلطانی میں پیدا ہوئے۔ یعنی نواب صاحب نے اپنی آنکھیں ہی بھوپال کی سلطنت میں کھولیں۔ اس لیے یہ بتاتا چلوں کہ اس وقت کے مشہور اداکار سیف علی خان کے والد شہریار خآن کے فرسٹ کزن ہیں۔
سیف علی خٓان نواب آف پٹودی کے بیٹے ہیں۔ اس لیے یہ بات تو آپ کو بھی سمجھ آ چکی ہو گی کہ اُن کے بھارت کے اعلیٰ اور اثر رکھنے والے لوگوں میں بہت اچھے تعلقات ہیں۔ 1950ء میں شہریار خان پاکستان آ گئے اور یہاں وزارت خارجہ سے منسلک ہو گئے اور جلد ہی ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے اعلیٰ منصب تک پہنچ گئے۔
ایک تو اعلیٰ خا ندان سے تعلق جس کا سرحد کے دونوں طرف کافی اثر و رسوخ اور دوسری جانب وزارت خارجہ کی باریکیوں سے بہت اچھی طرح آگہی بھی ان کی خوبی ہے۔ اسی وجہ سے انھیں وزارت خارجہ سے رخصتی کے بعد کرکٹ کا عملی تجربہ نہ ہونے کے باوجود 2003ء میں پاکستانی کرکٹ کا بادشاہ بنا دیا گیا۔
اور اُس کے بعد سرحد کے دونوں طرف ہونے والی پس پردہ گفتگو میں اُن کا اہم کردار رہا۔ پرویز مشرف سے ذاتی رنجش ہونے کے باوجود نواز شریف کے ارد گرد وہی لوگ نظر آتے ہیں جو سابقہ ادوار میں رہے ہیں۔ اب اس کی وجہ چاہے آپ یہ سمجھیں کہ حکومت کی مسند پر کوئی بھی بیٹھا ہو آگے پیچھے آپ کو وہ ہی چند چہرے نظر آئیں گے یا پھر پاکستان میں اگر کوئی قابل ہے تو بس چند یہی لوگ ہیں۔
زرداری دور میں جب بمبئی حملوں کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہو رہے تھے اور سفارتی سطح پر بظاہر کوئی ملاقات نہیں ہو رہی تھی اُس وقت شہریارخان کی کئی ملاقاتیں دبئی اور بنکاک میں ہوئی تھی جس نے اُس وقت برف پگھلانے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اب یہ سب جاننے کے بعد فی الحال شہریار خان پر آگے چل کر بات کریں گے۔ اب آتے ہیں دوسرے کردار پر۔
دوسرا اور اہم کردار وہ ہے جسے انڈیا کے اندر ''جنرل شانتی'' کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ پاکستانی میڈیا میں اُسے اس طرح سے نہیں لیا جاتا لیکن انڈیا کا میڈیا ہمیشہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی میجر جنرل (ر) محمود علی درانی وہ صاحب ہیں جو سچے دل سے چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ''شانتی'' ہو اسی لیے انھیں بھارتی میڈیا میں جنرل شانتی لکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں اُن کے حوالے سے کئی افواہیں ہیں جس میں جنرل ضیاء کے جہاز کا سانحہ وغیرہ بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ وہ پرویز مشرف دور میں امریکا میں پاکستان کے سفیر بھی رہے ہیں۔ ان کی خدمات پیپلز پارٹی نے بھی حاصل کی تھیں لیکن بمبئی حملوں میں اجمل قصاب تنازعہ کی وجہ سے وہ ایک بار پھر خبروں میں آ چکے تھے۔
اس چھوٹی سی معلومات کی بنیاد پر آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ ان کے پاکستان اور بھارت میں اہم تعلقات ہیں۔ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے اور پھر کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کے حوالے سے بڑھنے والے خود ساختہ تنازعہ کہ وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا معاملہ سرد خا نے میں چلا گیا تھا۔ لیکن حقیقت میں دونوں جانب سے رابطے جاری تھے اور دروازے کے پیچھے والی سفارت کاری جاری تھی۔
دونوں جانب کی خبروں پر نظر رکھنے والے جانتے تھے کہ معاملہ اتنا بھی تشویش ناک نہیں جتنا میڈیا میں ظا ہرکیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں بھارتی سیکریٹری کے پاکستان آنے سے پہلے ہی میجر جنرل (ر) محمود علی درانی انڈیا میں تھے۔ انھوں نے ایک مہینے پہلے وہاں کا تفصیلی دورہ کیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ویسے تو وہ ذاتی دورے پر تھے لیکن انھوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ''اجیت دول'' سے ملاقات کی ہے۔
اور ساتھ ساتھ اپنے پرانے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے پاکستانی تشویش اور تحفظات کو بھارتی اعلیٰ قیادت تک پہنچایا گیا ہے اور برف کو پگھلانے کے لیے کئی معاملات طے کیے گئے۔بظاہر دونوں ملکوں کے درمیان اصل کام وہ لوگ کر رہے ہیں جن کا براہ راست تعلق نہیں ہے لیکن اُن کے تعلقات بہت زیادہ ہیں۔ شہریارخان انڈیا میں قیام پذیر رہنے کے بعد پاکستان آ گئے ہیں۔
بظا ہر یہ لگ رہا تھا کہ وہ اس سال کے آخر میں ہونے والی پاکستان، انڈیا کرکٹ سیریز کے لیے بات کرنے گئے ہیں۔ مگر اُن کی اپنی کتاب ''کرکٹ ... امن کا پُل'' کو استعمال کر رہے ہیں۔ نواز شریف نے انھیں جس کام کے لیے پہلے براہ راست رکھا تھا وہ اُسی کام کو آگے بڑھانے کے لیے ابھی وہاں موجود ہے۔
ایک بہت ہی شریفانہ انداز میں ایک جاسوس نے کان میں کہا ہے کہ بھارت میں اُن کی بہت سی ملاقاتیں ہونے کو ہیں اور امید ہے کہ اس سیریز کے بہانے کرکٹ ڈپلومیسی یا پھر پیچھے کے دروازے کی ڈپلومیسی استعمال کی جا رہی ہے۔ دیکھا اور سمجھنا یہ ہے کہ جن گھوڑوں کو دوڑایا گیا ہے اُن سے وہ نتائج نکل سکیں گے جس سے مستقل حل نکل سکے۔ یا پہلے کی طرح ان گھوڑوں کو اتنا ہی دوڑانا ہے جتنی ضرورت ہے۔ کرکٹ ورلڈ کپ تو پھر ہو جائے گا۔ ابھی تو گھوڑوں کی ریس دیکھیں۔