ریلوے اکانومی کلاس میں سفر

ریلوے میں اکانومی کلاس کا کرایہ کم ہوتا ہے اور غریبوں کی اکثریت اکانومی کلاس ہی میں سفر کرتی ہے


Muhammad Saeed Arain March 11, 2015

موجودہ حکومت سے قبل سابق صدر آصف علی زرداری کی مفاہمتی حکومت میں پاکستان ریلوے پر جو گزری اور اے این پی کے سابق وزیر ریلوے اور کے پی کے کے ایک بہت بڑے ٹرانسپورٹر کی پانچ سالہ وزارت میں ملک کی ریلوے جس تباہی سے دوچار ہوئی، اس انتہائی برے وقت کو کون بھول سکتا ہے۔

جب محکمہ ریلوے کی چلتی ہوئی گاڑیاں بند ہوئیں جن میں کما کر دینے والی مال گاڑیاں بھی شامل تھیں۔ ریلوے تباہ ہوتی رہی اور وزیر ریلوے حکومت سے فنڈز مانگتے رہے مگر انھوں نے ریلوے کی بحالی پر توجہ دینا ضروری نہیں سمجھا۔ مسافر ٹرینوں کی آمد و رفت کے اوقات مذاق بن گئے تھے۔

نہ ٹرینیں وقت پر چلتی تھیں اور منزل پر پہنچنے تک کہیں انجن فیل ہو جاتے تھے تو کہیں ان کا تیل ختم ہو جاتا تھا دن کی سخت گرمی ہو یا سرد راتیں، کہیں چھوٹے اسٹیشن ہوں یا راستوں کے ویرانے اور جنگل ٹرینیں اچانک رک جاتی تھیں اور مسافر نئے انجن یا تیل کی آمد کے انتظار میں گھنٹوں خوار ہوتے رہتے اور یہ بھی ہوتا رہا کہ دو ٹرینوں کی بوگیوں کو بھی بعض مرتبہ ان پرانے انجنوں کو کھینچ کر لانا پڑتا جو ایک ٹرین کو چلانے کی بھی صلاحیت کھو چکے تھے۔ جہازوں اور ہیلی کاپٹروں میں خود سفر کرنے والے صدر، ان کے دو وزرائے اعظم اور ضعیف وزیر ریلوے تماشا دیکھتے رہے۔

صدر کی اہلیہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا سب سے زیادہ نقصان بھی محکمہ ریلوے کو سندھ میں برداشت کرنا پڑا تھا جس کے بعد ریلوے خصوصی توجہ کا مستحق تھا مگر اسے ایک ٹرانسپورٹر کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ بے شمار شہروں کے اسٹاپ ختم اور کما کردینے والی اہم مسافر ٹرینیں جان بوجھ کر بند کر کے ریلوے کا سفر مسافروں کے لیے عذاب بنا دیا گیا۔

چلتی گاڑیوں میں اے سی جب چاہے چلنا بند ہو جاتے تھے جب کہ اکانومی کلاس جس کی بوگیاں اور مسافر سب سے زیادہ ہوتے ہیں کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں تھا جس کی وجہ سے ریلوے اپنے مسافروں کا اعتماد کھو بیٹھی تھی جب کہ کرپشن میں مسافر کم ہونے کے باوجود کمی نہیں اور اضافہ ہونے سے خسارہ بڑھتا گیا اور ریلوے کے اس بدترین دور کو پارلیمنٹ کی 5 سالہ مدت پوری ہونے پر نجات ملی اور ریلوے سے سفر نہ کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نے بھی کبھی کبھی ریلوے کی تباہی پر احتجاج کیا مگر صدر نے اے این پی کے وزیر اعظم کو نہ ہٹایا اور ریلوے تباہ و برباد ہونا گوارا کر لیا۔

ریلوے میں اکانومی کلاس کا کرایہ کم ہوتا ہے اور غریبوں کی اکثریت اکانومی کلاس ہی میں سفر کرتی ہے اور اس کلاس میں رش اس قدر ہوتا ہے کہ سیٹ یا برتھ نہ بھی ملے تو بھی مسافر مجبوری میں ٹرینوں کے فرش پر بیٹھ اور لیٹ کر سفر کر کے منزل پر پہنچ ہی جاتے ہیں۔

ریلوے میں میڈیا کو رعایت کی وجہ سے میڈیا والے زیادہ تر ریلوے کی اے سی اور سلیپر بوگیوں ہی میں سفر کرتے ہیں اور انھیں اکانومی میں سفر کرنے والوں کی سفری بدحالی کا اندازہ نہیں ہوتا۔ راقم کو گزشتہ دنوں لاہور سے کراچی جلد پہنچنے کے لیے کراچی ایکسپریس کی اکانومی کلاس میں برتھ میسر آ گئی۔ ٹرین لاہور سے صرف آدھے گھنٹے کی تاخیر سے روانہ ہوئی جب کہ 31 دسمبر کو یہی ٹرین لاہور سے تین گھنٹے تاخیر سے روانہ ہوئی تھی مگر اے سی میں سفر کے باعث کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا تھا۔

مقام شکر تھا کہ اکانومی بوگی کی کھڑکیاں ٹھیک تھیں البتہ لائٹ کہیں کہیں جل رہی تھی کہیں اندھیرا تھا اور واش روم میں کراچی تک پانی بھی موجود ملا۔ اکانومی کلاس کو ہمیشہ ریلوے میں یتیم کلاس سمجھا جاتا ہے جہاں ابتدائی اسٹیشن پر سفر کے آغاز پر صفائی ہوتی ہے جس کا فقدان بڑھتا جاتا ہے اور منزل آنے تک یہ بوگیاں کچرے سے بھر جاتی ہیں جہاں واپسی پر ہی واشنگ یارڈ میں صفائی کی جاتی ہے۔

واش رومز میں ٹوٹیاں ٹوٹی اور بہتی ہوئی، بیسن کے پائپ غائب یا ٹوٹے ہوئے، پانی کبھی بھی ندارد اور لوٹوں کا تو اکانومی میں تصور ہی نہیں۔ منرل واٹر اور کولڈ ڈرنک کی خالی پلاسٹک بوتلوں سے یہ مسئلہ مسافر خود حل کر لیتے ہیں۔ اکانومی بوگیوں میں کھانے پینے والوں کی آمد و رفت دن رات زور دار آوازوں سے جاری رہتی ہے تا کہ مسافر سفر میں سو نہ جائے۔ اکانومی کلاس چونکہ سستی ہے اس لیے اس کی بوگیاں ایسی بنائی جاتی ہیں کہ مسافر سکون سے سفر نہ کر سکے جب کہ اے سی اور سلیپر بوگیوں میں اتنے جھٹکے محسوس نہیں ہوتے۔

اکانومی میں سفر کر کے مسافر پہلے دھکوں سے پریشان اور منزل تک ادھ مرا ہو چکا ہوتا ہے۔ ریلوے میں سفری سہولتوں کے فقدان سے زیادہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور تمام اشیا خوردنی انتہائی مہنگی بلکہ دوگنا قیمتوں پر فروخت ہوتی ہیں۔ ریلوے میں فروخت ہونے والے کھانے مہنگے اور ناقص جب کہ اسٹیشنوں کے اسٹالوں پر تو مضر صحت اشیا فروخت ہوتی ہیں مگر کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں ہے کیونکہ بھاری رشوت پر ٹھیکے دار ٹرینوں میں اشیائے خورونوش فروخت کرنے کے ٹھیکے لیتے ہیں۔

منرل واٹر کی بڑی بوتل ساٹھ روپے، کولڈ ڈرنک اور چائے تیس روپے، پندرہ / سترہ والا بسکٹ 25 روپے، 5 روپے والی جیلی تھیلی 10 روپے میں فروخت کرائی جاتی ہے۔ معلوم کرنے پر سیلز مین نے بتایا کہ انھیں ٹھیکیدار کے مقررہ نرخوں پر اشیا فروخت کرنا پڑتی ہیں۔ کمیشن یا تنخواہ ہماری مرضی ہے اور ٹھیکیدار انھیں پندرہ سے اٹھارہ ہزار ماہانہ تنخواہ دیتا ہے۔

ریلوے کے ڈیوٹی افسروں کو اسٹیشنوں اور ٹرین ریسٹورنٹ میں چائے اور کھانا مفت ملتا ہے۔ مسافروں کو سفر کے لیے چادر اور تکیے منہ مانگے ریٹ پر دیے جاتے ہیں۔ ریلوے میں سردی 15 نومبر اور گرمی 15 اپریل سے تسلیم کی جاتی ہے جب کہ موسم ریلوے کے اوقات نہیں مانتا۔

راقم کو گزشتہ سال یکم اگست کو کراچی سے کوئٹہ جانا تھا اور کراچی سے صرف بولان میل کوئٹہ جاتی ہے جس میں تمام بوگیاں اکانومی کلاس کی تھیں۔ شام ٹرین کراچی سے چلی تو بولان میں لائٹ تھی نہ پنکھے، معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ٹرین کے ساتھ پاور وین نہیں لگی اور ٹرین بجلی کے بغیر ہی کوئٹہ جا رہی ہے۔

اگست کی گرمی میں ٹرین کے پنکھے اور لائٹس بند تھیں۔ کوٹری کے بعد طوفانی بارش شروع ہو گئی بارش سے محفوظ رہنے کے لیے کھڑکیاں بند کیں تو گرمی اور حبس ہو گیا مجبوراً کھڑکیاں کھلی رکھ کر بھیگ کر رات گزاری۔ جیکب آباد کے بعد دن گرم ہو گیا دن بھر پسینہ سے شرابور رہ کر شام سات بجے 25 گھنٹے سفر کے بعد کوئٹہ آیا تو عذاب سے نجات ملی۔

بولان میل کے کوئٹہ میں داخلے سے قبل ریلوے پولیس نے ہدایت دی کہ شیشے نہیں لوہے کی کھڑکیاں بند کر کے اندھیرے اور گرمی میں رہیں کیونکہ قریبی آبادی سے ٹرین پر پتھر برسائے جاتے ہیں اور بند نہ کرنے پر متعدد مسافر زخمی ہو چکے ہیں جن کی طبی امداد بھی ٹرین میں نہیں ہو سکتی۔

پتھر برسانے والوں پر تو نہیں البتہ ٹرین کے بے بس مسافروں پر حکومت کنٹرول کر لیتی ہے۔ جیکب آباد سے کوئٹہ کا سفر اب ریلوے نے دن میں کر دیا ہے اور ٹرین لیٹ ہو جائے تو دن کا انتظار مسافروں کو رات گزار کر ہی کرنا پڑ رہا ہے۔

حکومت کا فرض عوام کو سہولیات کی فراہمی ہوتا ہے مگر پاکستان میں حکومت عوام کی اکثریت کو نہیں بلکہ صرف دو فیصد امرا اور ارکان اسمبلی و افسروں کو ہی عوام سمجھتی ہے اور صرف ان ہی کے لیے سہولیات کی فراہمی اپنا فرض سمجھتی ہے جب کہ عوام کی اکثریت کو رقم ادا کر کے سہولیات خریدنا پڑتی ہیں۔ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق بہت زیادہ امیروں میں شامل نہیں اس لیے انھیں اکانومی کے مسافروں پر بھی خصوصی توجہ دینا ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں