شکست انگلینڈ کے لیے رحمت ثابت ہوگی
عالمی کپ 2015ء سے انگلستان کے عبرتناک اخراج ظاہر کے ساتھ ہی کرکٹ نے اپنے جنم استھان میں دم توڑ دیا ہے۔
عالمی کپ 2015ء سے انگلستان کے عبرتناک اخراج ظاہر کے ساتھ ہی کرکٹ نے اپنے جنم استھان میں دم توڑ دیا ہے۔ اگر 1882ء ہوتا تو شاید پھر کوئی منچلا صحافی اٹھتا اور اخبار میں انگلش کرکٹ کی موت کی خبر لگاتا، جس میں کہا جاتا کہ انگلش کرکٹ کی چتا جلانے کے بعد اس کی راکھ آسٹریلیا بھیج دی جائے گی۔
اسی طرح ایشیز سیریز کا جنم ہوا تھا اور شاید 2015ء کی شکست ون ڈے ایشیز کا نقطہ آغاز ہوتی لیکن یہ نتیجہ اتناغیر متوقع نہیں تھا۔ اس مقابلے کو ملا کر انگلستان گزشتہ ایک سال میں 27 ایک روزہ مقابلوں میں سے صرف 9 جیت پایا ہے اور 18 میں شکست کھائی ہے۔
یہ اعداد و شمار کرکٹ میں انگلستان کی حالت ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ کہاں وہ انگلستان جس نے ابتدائی پانچویں عالمی کپ ٹورنامنٹس کا سیمی فائنل کھیلا، بلکہ تین بار فائنل تک بھی پہنچا، اور کہاں یہ کہ گزشتہ 6 عالمی کپ میں 4 مرتبہ پہلے ہی مرحلے سے 'بے آبرو ہوکر' نکالا گیااور باقی دو میں بھی کوارٹر فائنل میں ہی دم توڑ دیا۔درحقیقت، فٹ بال کے ہاتھوں انگلستان میں کرکٹ ختم ہو رہی ہے۔
انگلینڈ میں کرکٹ کا بنیادی ڈھانچہ شاندار ہے، ایک ایسا نظام موجود ہے جس کے تحت نئے کھلاڑی کرکٹ کے دائرے میں داخل ہوتے ہیں اور تمام مراحل طے کرتے ہوئے آگے آتے ہیں لیکن گزشتہ کئی سالوں سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس سرزمین سے اسٹار کھلاڑی ناپید ہو گئے ہیں۔ جب بھارتی نژاد ناصر حسین اور جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے کیون پیٹرسن کھیلے تو ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ خود اپنی جائے پیدائش پر کرکٹ کی جڑیں کمزور ہو رہی ہیں۔
آج نئے کھلاڑیوں میں سے کتنوں کے نام لیں، جو بیرون ملک پیدا ہوئے یا جن کے والدین انگریز نہیں۔ میٹ پرائیر، مائیکل لمب، سام روبسن، جیسن روئے، جیڈ ڈرنباخ، کرس جارڈن، بین اسٹوکس، ایون مورگن، ایڈ جوائس، بوائیڈ رینکن اور معین علی۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اب انگلینڈ میں عوام کی نظریں فٹ بال پر ہیں، اب کرکٹ ان کی ترجیح نہیں یعنی قومی کھیل کا کم و بیش وہی حال ہے جو یہاں پاکستان میں ہے۔
اب انگلستان میں ایسے بچوں کی تعداد لاکھوں میں ہو گی جو وین رونی اور فرینک لمپارڈ بننا چاہتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں اسٹورٹ براڈ، ایون مورگن اور جیمز اینڈرسن بننے کے خواہشمند کہیں کم ہیں۔ جس طرح پاکستان میں ہر بچہ شاہد آفریدی بننا چاہتا ہے، لیکن اس کو ہاکی اور فٹ بال کے کسی کھلاڑی کے نام تک کا علم نہ ہو گا۔ اسی رحجان کی وجہ سے انگلستان میں کرکٹ ہر گزرتے سال کے ساتھ پیچھے ہوتی جا رہی ہے۔
لیکن عالمی کپ میں بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکست کو ایک طرح سے انگلستان کے لیے رحمت بھی سمجھنا چاہیے۔ اگر وہ گرتا پڑتا کسی نہ کسی طرح کوارٹر فائنل تک پہنچ جاتا تو وہاں دفاعی چیمپئن بھارت کے خلاف مقابلے میں ہی اس کا دم نکل جاتا لیکن کہنے کو یہ بات رہ جاتی کہ انگلستان نے کوارٹر فائنل تک رسائی حاصل کی لیکن اب پہلے مرحلے سے اخراج سے کرکٹ کے احیاء کی کوششوں پر سنجیدگی سے عمل ہو گا کیونکہ چوٹ جتنی گہری ہوتی ہے، اس کا علاج بھی اتنی توجہ کے ساتھ کرنا پڑتا ہے۔
انگلستان کے پاس اس وقت بھی چند عالمی معیار کے کھلاڑی ہیں۔ جن میں جو روٹ سب سے نمایاں ہیں۔ اس نوجوان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں عالمی منظر نامے پر آیا، جب انگلش کرکٹ اپنے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ اس کے علاوہ وکٹ کیپر جوس بٹلر بہت عمدہ کھلاڑی ہیں، معین علی کا مستقبل بہت روشن ہونا چاہیے اور ساتھ ہی جیمز ٹیلر کا بھی۔
اب وقت آ گیا ہے کہ اپنا بہترین وقت گزارنے والے کھلاڑیوں کو عزت کے ساتھ رخصت کیا جائے اور ملک کی نمایندگی کے لیے ایک ایسے دستے کو تشکیل دیا جائے جو نوجوان ہو، عزم و حوصلہ رکھتا ہو اور آگے بڑھنے کی ہمت اور توانائی بھی۔ اسی طرح جیسے 2003ء کے ورلڈ کپ کے بعد جنوبی افریقہ نے نئی ٹیم تشکیل دی تھی۔
ویسے آپ کرکٹ کے بارے میں پریشان مت ہوں، اپنی جنم بھومی میں اس حال تک پہنچنے کے باوجود یہ کھیل ختم نہیں ہو رہا۔ بلکہ جن دنوں انگلستان میں دم توڑ رہا تھا، عین اسی لمحے برصغیر پاک و ہند میں نیا جنم لے لیا تھا۔ آج کرکٹ کی وجہ سے یہاں دیگر کھیلوں کے ساتھ وہی کچھ ہو رہا ہے، جو کرکٹ خود انگلستان میں بھگت رہا ہے۔