اللہ کا فضل یا گرفت

اللہ کبھی کسی کو انعام کے طور پر غربت و فقیری عطا کر دیتا ہے اورکبھی عذاب کے طور پر دولت و مرتبہ۔


نعیم شاہ March 11, 2015
[email protected]

CAIRO: میں ان دنوں مشکلات میں گھرتا جا رہا تھا، جس کام میں ہاتھ ڈالتا ناکام ہو جاتا، پریشانیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔ میں سوچنے لگا کہ کیا اللہ مجھ سے ناراض تھا، اس لیے مجھے ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑ رہا تھا؟ کیا اللہ کا فضل میرے شامل ِ حال نہ تھا؟ اللہ کا فضل؟ میرے ذہن میں اچانک یہ الفاظ جیسے پھنس گئے۔

میں سوچنے لگا کہ اللہ کا فضل ہوتا کیا ہے؟ کیا خوشحالی، دولت اور آسائشیں؟ مگر پھر خیال آیا کہ یہ سب نعمتیں تو فرعون کے پاس بھی رہی ہیں۔ صرف یہ چیزیں اللہ کا فضل نہیں ہو سکتیں! پھر اللہ کا فضل کیا ہوتا ہے، میں اس تلاش میں اللہ کے نبیوں تک پہنچا، تو وہاں بھی اقتدار رکھنے والی حضرت سلیمان ؑ جیسی اللہ کی محبوب ہستیاں نظر آئیں۔ میں ان دونوں گروہوں، اللہ کے نافرمان اور اطاعت گزاروں کاموازنہ کرنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ دنیاوی نقطہ نگاہ سے دونوں پر اللہ کا فضل محسوس ہوتا تھا۔

دونوں کے پاس اقتدار تھا مگر یقینا ان میں سے ایک اللہ کے غضب کا شکار ہونے والا تھا۔ اللہ کے پیغمبروں کے پاس تو مال و اسباب و نعمتوں کا ہونا سمجھ میں آتا تھا مگر منافقوں، نافرمانوں کے پاس یہ سب کچھ ہونا مجھ جیسے سادہ انسانوں کو الجھا دینے والا مسئلہ تھا۔ عموماً یہی سمجھا جاتا ہے کہ جو خوشحال ہے اس پر اللہ کا فضل ہے اور جو غربت و آزمائشوں سے گزر رہا ہو اس سے اللہ ناراض!

ایک بار چند لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ''یا امیر المومنین ، ہم آپ سے محبت کرتے ہیں'' انھوں نے جواب دیا '' تو پھر مصیبتوں اور آزمائشوں میں سے گزرنے کے لیے تیار ہو جاؤ'' یعنی اللہ ان کے ایمان و اخلاص میں ترقی کے لیے انھیں سختیوں سے گزارے گا۔ انھیں کندن بنانے کے لیے آگ کی بھٹی میں ڈالا جائے گا۔ لہٰذا مجھ پر انکشاف ہوا کہ صرف مشکلات و ناکامیاں اس چیز کی دلیل نہیں ہو سکتی کہ اللہ کسی سے ناراض ہے۔

ان تمام خیالات نے مجھے کچھ کنفیوز سا کر دیا اور میں جو اب تک اپنی کامیابی کی دعامانگتا رہا تھا... اب رک گیا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا دعا کروں؟ نجانے کونسی دعا میرے حق میں بہتر تھی اور کونسی بری، کس دعا کا کیا نتیجہ نکلتا۔

پتہ نہیں اللہ کیا چاہتا تھا اور میں کیا مانگ بیٹھتا؟ میں پتہ لگانا چاہتا تھا کہ آیا میری مشکلات، میری ناکامیاں میری غفلتوں کا نتیجہ تھیں یا اللہ کی مرضی؟ میں اللہ کے فضل کی حقیقی پہچان چاہتا تھا۔ میں جاننا چاہتا تھا کے کیا واقعی قہقہے، لذیذ دسترخوان اور کاروبار میں کامیابی اللہ کی رضا کی نشانی ہیں اور آنسو، دکھ، ارادوں کا ٹوٹنا اللہ کی ناراضگی کی وجہ ہے؟

ایک مسافر کسی آبادی سے گزر رہا تھا ، وہ بہت بھوکا تھا۔ نہ جانے کب سے پیٹ بھر کھانا نہ کھایا تھا۔ اس نے لوگوں سے کھانے کا سوال کیا۔ مگر کسی نے اس کی مدد نہ کی۔ بالآخر وہ تھکا ہارا ایک مسجد کے پاس پہنچا۔ اس نے دل میں سوچا کہ کسی نے مجھے اپنا مہمان نہ ٹھہرایا، چلو آج رات اللہ کے مہمان ہی سہی۔ وہ مسجد میں داخل ہوا ، وضو کر کے نماز پڑھی اور لیٹ گیا۔

آدھی رات آئی، سحری کا وقت آیا اور پھر صبح ہو گئی مگر اس کی مشکل آسان نہ ہوئی۔ وہ اسی طرح بھوک کے عالم میں اٹھا اور مایوسی سے سوچنے لگا کہ ''یقینا مجھ جیسا گنہگار اللہ کا مہمان بننے کے لائق نہیں'' اور سر جھکائے مسجد سے نکل گیا۔

کچھ عرصے بعد اس نے خواب میں خود کو اللہ کی بارگاہ میں دیکھا تو سوال کیا کہ ''یا اللہ تو ُ نے اس رات مجھ گنہگار کو اپنا مہما ن بنانا کیوں پسند نہ کیا؟ تو جواب ملا کہ ''اے میرے بندے! اس رات میں نے تیری میزبانی قبول کر لی تھی اور چاہا کہ اپنے خزانوں میں سے بہترین نعمتوں سے تیری خاطر کروں مگر اپنے خزانوں میں بھوک سے بڑھ کر مفید اور بہترین غذا تیرے حق میں اور کوئی نہ پائی، اس لیے اسی سے تیری تواضع کی!''

حدیث ؐ ہے کہ ''جنت دکھوں اور تکلیفوں میں لپٹی ہوئی ہے'' جنت تک پہنچنے کا راستہ آزمائشوں سے ہوتا ہوا گزرتا ہے اور آسانی، خواہشوں کی تکمیل اکثر انسان کو جہنم تک پہنچا دیتی ہے۔ واصف علی واصف نے اپنی کتاب 'گفتگو' میں اس باریک نقطے کو بڑے عمدگی اور آسان زبان میں سمجھایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ''کبھی دوزخ میں آنے والوں سے انٹرویو کریں کہ تم یہاں کیسے آئے ہو تو وہ کہیں گے کہ ہم نے جو چاہا وہ کیا اور پھر یہاں پہنچ گئے۔ جنت والوں سے پوچھو کہ یہاں کیسے آئے، تو کہیں گے جو ہم نے چاہا وہ نہیں ہوا اور ہم یہاں آ گئے۔ تو جنت میں جانے والے وہ تھے جو اپنی خواہشات پوری ہونے سے بچ گئے۔

جنھوں نے بڑی کوشش کی کہ وہ سیٹ مل جائے 'رشوت والی' نہیں ملی، بچ گئے، اگر ان کی وہ خواہش پوری ہو جاتی تو وہ دوسری طرف ہوتے۔ بعض دفعہ انسان کی کوششوں میں کامیابی اسے دوزخ میں پہنچا دیتی ہے۔ اس لیے جب تک معلوم نہ ہو کہ کوشش کا حتمی نتیجہ کیا ہو گا، کوشش کہاں تک جاتی ہے، اس میں زور لگانا، اصرار کرنا صحیح نہیں ہے۔ ایک جگہ فقراء نے یہ راز بتایا۔ سننے والی بات ہے، اللہ فرماتا ہے ''اگر تم شکر کرو تو میں اس میں اضافہ کروں گا۔'' اب یہ بڑی باریک بات ہے کہ نعمت پر شکر کرو تو نعمت بڑھ جائے گی۔

شکر سے نعمت محفوظ بھی ہو جائے گی، مزید بھی ہو جائے گی۔ اب فقراء نے اس کی بڑی خوبصورت تشریح کی کہ انسان کو پتہ تو ہے نہیں کہ اس کے لیے اچھی چیز کیا ہے، تو وہ بعض اوقات غلطی پر شکر ادا کرنا شروع کر دیتا ہے اور وہ غلطی بڑھ جاتی ہے۔ شکر کرنے سے پہلے سوچ ضرور لینا چاہیے کہ وہ شکر والی بات تھی یا استغفار والی۔ ایسے ہی شکر نہ کر دیں، وہ چیز بڑھ جائے گی مثلاً اچانک خیال آیا اور صبح صبح دعا مانگی کہ گھر میں حالات کمزور ہیں، یااللہ کوئی سبب بنا۔

دفتر گئے تو پٹواری صاحب آ گئے اور پھر زمین کا انتقال ہو گیا آپ کے نام، حالات بہتر ہو گئے، پیسہ آ گیا، نتیجہ یہ ہوا کہ آپ نے کہا بڑا شکر ہو گیا۔ یہ شکر والی نہیں، استغفار والی بات ہے۔ اس لیے کہتے ہیں فقراء کہ تم نے غلط راستے سے آنے والی کسی شے کو شکر کے طور پر قبول کیا تو وہ شے بڑھ جائے گی، نجات نہیں ہو گی۔ کہ اللہ نے کہا کہ تم شکر ادا کرو میں بڑھا دوں گا۔ یہ خاص راز ہے کہ انسان اپنے شکر کے ذریعے بھی بعض اوقات عذاب میں گرفتار ہو جاتا ہے۔

اس لیے شکر بھی احتیاط سے ادا کرو اور کسی چیز کا شکر ادا کرنے سے پہلے اچھی طرح غور کر لو کہ وہ شکر والی بات ہے یا نہیں۔ بادشاہ شکر ادا کرتا ہے کہ تو نے مجھے بادشاہی دی، جب وہ بادشاہ بنا ہو گا تو شکر ادا کیا ہو گا۔ آنا تو اچھا ہوتا ہی ہے سب کا، لیکن جانا اچھا ہے یا نہیں؟ جب اس نے شکر ادا کیا ہو گا، شکر سے اس کا اقتدار بڑھ گیا ہو گا۔ بعد میں وہ شکر جو ہے ایک گرفت بن گئی۔ کیونکہ مرتبہ عذاب بھی ہے انعام بھی۔

فرعون کے پاس بھی مرتبہ ہے اور اللہ کے محبوبوں کے پاس بھی۔ مرتبہ عذاب کب ہے؟ اس وقت جب صاحب ِ مرتبہ مغرور ہو جائے، مرتبے میں مصروف ہو جائے اور مرتبہ اس کو یاد ِالٰہی سے غافل کر دے اور مرتبہ نعمت اس وقت ہے جب وہ مرتبے کی وسعت اور اختیار کے ساتھ عوام کی خدمت میں مصروف ہو جائے، اس وقت مرتبہ انعام ہے۔

ہمیں بہت باریک بینی سے اس باریک نقطے کو ذہن میں رکھتے ہوئے دعائیں کرنے کی ضرورت ہے۔ عموماً ہم اپنی بد عملیوں کو جاری رکھتے ہوئے فقط اپنی خوشحالی کو اللہ کا فضل سمجھتے ہوئے اپنی غلط روش پر قائم رہتے ہیں۔

جب کہ وہ فضل نہیں اللہ کی گرفت ہوتی ہے۔ یا کوئی مشکلات میں گرفتار انسان اللہ کو خود سے ناراض تصور کرتا ہے کیونکہ اسے آزمائشوں سے گزرنا پڑ رہا ہوتا ہے جب کہ اللہ اسے پسند کرتا ہے، اسی لیے اسے آزمائشوں سے گزارتا ہے تا کہ اسے اپنے قریب تر کر لے۔ لیکن وہ نادان اپنی صحیح راہ چھوڑ کے اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لیے پر زور دعائیں کرنے لگتا ہے۔ جس میں کامیابی اور شکر اسے دوزخ تک لے جانے والی ہوتی ہے۔

کسی نے ایک پہنچے ہوئے بزرگ سے دعا کی درخواست کی۔ بزرگ نے ہاتھ اٹھا کے کہا دے، غربت و فقیری عطا کرے۔'' اس شخص نے حیرت سے کہا ''بابا جی! یہ آپ میرے لیے دعا کر رہے ہیں یا بد دعا؟ آپ مجھے دولت و خوشحالی کی دعا دیں'' بزرگ نے معنی خیز مسکراہٹ سے اسے دیکھا اور بولا '' تو پھر یہ کہہ کہ تیرے لیے بد دعا کروں کہ اللہ تجھے دولت و شہرت دے، اقتدار دے ۔ ۔ تا کہ تو ُ ان نعمتوں کی جواب دہی میں ناکام ہو کر اللہ کی گرفت میں آ جائے اور جہنم کا ایندھن بن جائے۔''

اللہ کبھی کسی کو انعام کے طور پر غربت و فقیری عطا کر دیتا ہے اورکبھی عذاب کے طور پر دولت و مرتبہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں