غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
کیا کبھی ہم نے دیوار پر لگے گھڑیال یا کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کے چلنے سے کچھ سیکھا ہے یا سیکھنے کی کوشش بھی کی ہے
کیا کبھی ہم نے دیوار پر لگے گھڑیال یا کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کے چلنے سے کچھ سیکھا ہے یا سیکھنے کی کوشش بھی کی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کائنات میں کوئی بھی چیز بے مقصد نہیں ہے۔
کائنات میں بہت ساری تخلیقات میں گھڑیال یا گھڑیاں بھی ایک ہیں، جن پر اگر غور کیا جائے تو بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں صرف ڈائل یا سوئیاں نہیں ہوتیں، جو چاہے کتنی بھی خوبصورت ہوں، اس کو چلانے والے کئی چھوٹے بڑے پرزے ہوتے ہیں، جن میں سے اگر ایک بھی اپنا کام کرنا بند کر دے تو وہ بند ہو جاتی ہیں۔
میری تمہید کا مقصد ہے کہ ہماری انفرادی، سماجی اور قومی زندگی بھی ایک گھڑی کی مانند ہے۔ اگر ذاتی زندگی میں کوئی نظم و ضبط نا ہو تو وہ بیگانی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اسی طرح گھریلو اور سماجی زندگی بھی ہر طرح کا نظم و ضبط مانگتی ہے۔ اپنے کاروبار، نوکری وغیرہ میں وقت کی پابندی اور باقاعدگی بھی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے۔
بچوں کی صحت، تعلیم و تربیت، ان کے مستقبل کے لیے پہلے سے منصوبہ بندی اور ان کی رہنمائی نہایت ضروری امور ہیں۔ اسی طرح پڑوسیوں اور دوست احباب سے تعلقات، بوقت ضرورت ان کے کام آنا، یہ سب زندگی کا نہایت ضروری حصہ ہیں۔
اب آتے ہیں قومی زندگی پر۔ سب سے پہلی بات ہے، وقت اور وعدے کی پابندی، جس کا ہمارے ملک میں شروع سے ہی فقدان رہا ہے۔ ہمارے لیڈر صاحبان ہمیشہ کسی میٹنگ یا جلسے میں وقت پر پہنچنے کا وعدہ تو کریں گے، لیکن آئیں گے نہیں۔ لوگ گھنٹوں انتظار کرتے کرتے تھک جائیں گے۔ ہم لوگ وقت کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ شادی کے کارڈ میں نکاح اور کھانے کے جو اوقات لکھے ہوں گے، ان پر میزبان بھی اس جگہ پر موجود نہیں ہو گا۔
ہمارا حال تو یہ ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے لوگوں کی ایمانداری پرکھنے کے لیے اعلان کروایا کہ فلاں رات میں شہر کے باشندے ایک حوض میں ایک ایک گلاس دودھ کا ڈال کر جائیں۔ کسی عقلمند نے سوچا کہ سب لوگ تو دودھ کے گلاس ڈالیں گے اور میں پانی کا گلاس ڈالوں گا، کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو گی۔ لیکن جب بادشاہ کا وزیر حوض پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ پانی سے بھرا ہوا ہے۔ کیا ہم بھی ان پانی ڈالنے والے جیسے نہیں ہیں؟ اگر ایسا نا ہوتا، تو ہمارا ملک آج گل و گلزار ہوتا۔
ملک کا نظام چاہے بادشاہی ہو یا جمہوری (ترقی یافتہ ملکوں میں صرف ایک قسم کی جمہوریت ہوتی ہے، جب کہ ہمارے جیسے ملکوں میں کہیں بنیادی تو کہیں گائیڈڈ جمہوریت ہوتی ہے، جو حکمران وقت کی شیروانی کے مطابق کسی درزی سے سلوائی جاتی ہے، انڈونیشیا میں صدر سوئیکارنو نے گائیڈڈ جمہوریت رائج کی، تو ہمارے والے صاحب نے بنیادی)۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک میں اچھی حکمرانی Good Governance ہونی چاہیے، جس میں سب سے پہلے انصاف کی جلد فراہمی اور سزائیں ایسی کہ کوئی بھی آدمی جرم کرنے سے پہلے 100 دفعہ سوچے کہ پکڑے جانے کی صورت میں جلد اور عبرتناک سزا ملے گی۔ انصاف نا صرف ہونا چاہیے، بلکہ ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔ ہمارے ہاں دادا کے مقدمے پوتے لڑتے ہیں۔ ایک بھارتی فلم (دامنی) میں ڈائیلاگ، تاریخ پہ تاریخ، ہمارے ہاں انصاف کے دیرینہ نظام کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مجھے ایک دوست نے بتایا کہ 1959ء کا جائیداد کا ایک مقدمہ ابھی تک ایک اعلیٰ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ ایک دوسرے دوست کا مقدمہ 27 سال بعد فیصلہ ہوا، وہ بھی اس لیے کہ وہ مقدمہ ضلعی عدالت تک محدود تھا۔ اگر فریقین میں سے کوئی بھی اعلیٰ اور اعلیٰ ترین عدالت تک جاتا تو 27 سال اور درکار تھے۔ 1997ء میں یونائیٹڈ بینک کے 5416 ملازمین کو بہ یک جنبش قلم ایک ہی دن میں گھر بھیج دیا گیا، ان کا مقدمہ 18 سال گزرنے کے بعد بھی ابھی تک اعلیٰ ترین عدالت میں زیر سماعت ہے۔
حکومت اور شہری، دونوں کے اگر کوئی حقوق ہوتے ہیں تو فرائض بھی۔ جہاں حکومت اپنے حقوق جتاتی ہے، اور ان سے پہلو تہی بھی کرتی ہے، تو شہری بھی کسی طرح اپنے فرائض کی کوتاہی میں پیچھے نہیں رہتے۔ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی، یہ نعرہ کچھ سال پہلے میڈیا پر گونجتا تھا۔ اس پر کتنا عمل ہوا اور ہو رہا ہے، یہ سب لوگ اچھی طرح جانتے ہیں۔
لیکن کیا کیلے کا چھلکا بیچ سڑک پھینکنا، عمارات کے کونوں پر پان کی پیک سے رنگ نگاری کرنا، ٹریفک کی لال بتی پر نہ رکنا، گھروں اور دکانوں کے سامنے زمین ہتھیا کر قبضہ کرنا اور دیگر بے قاعدگیاں شہریوں کا حق ہے؟ ہم خود ہی گلیوں، شاہراہوں پر کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں اور پھر حکومت پر صفائی نا کرنے کا الزام بھی دھرتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 15 اگست 1947ء کی صبح سے ہی صحت، تعلیم، بجلی، مواصلات، زراعت اور دیگر شعبوں میں کام شروع ہو جاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ صحت کے شعبے میں صرف اسپتال قائم کرنا کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ بلکہ پہلے بیماریوں سے بچاؤ کے لیے پینے کا صاف پانی فراہم کرنا اولین ترجیح ہے، کا بندوبست کیا جاتا۔ اس ضمن میں ہماری کوتاہی آج رنگ لا رہی ہے کہ ہم پولیو کے معاملے میں اول اور آخر نمبر پر ہیں۔ افریقا، جس کو دنیا کا کالا براعظم کہا جاتا ہے۔
وہاں بھی پولیو کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، لیکن ہمارے ہاں نئے نئے کیس دریافت ہو رہے ہیں۔ واٹر سپلائی کی ٹنکیوں میں باقاعدگی سے کلورین ڈالنا، ہر بچے کے لیے اسکول جانے کا بندوبست کرنا، تعلیم کا معیار بلند کرنا، سڑکیں، فون کا نظام، بجلی کی پیداوار اور ترسیل کا صحیح انتظام بنانا اور سب سے زیادہ زراعت کے شعبے میں ریسرچ کے ذریعے ہم اناج میں خود کفیل ہونا (تا کہ ہم خیرات کی گندم پر پل کر جواں نہ ہوتے۔ خیرات کی روٹی کھاکر انسان کی غیرت مر جاتی ہے)۔
حکومت جہاں عوام سے ٹیکس وصول کرتی ہے، وہاں اس کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ رقم شہریوں کے بھلے کے لیے ہی خرچ کرے اور شہریوں کو ان کے حق بھی دلائے۔ ہمارے ہاں جو بسیں چلتی ہیں ان کی عمر کسی طور پر 50 سال سے کم نہیں ہے، ان کی کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی ہوتی ہیں، جن میں سے نا تو سردیوں میں سرد ہوا سے بچاؤ، نا ہی گرمیوں میں دھوپ اور لو سے بچاؤ ہے اور نا ہی بارش میں بھیگنے سے بچاؤ۔ لوگوں کو چھتوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ لیکن بس مالکان کرایہ فرسٹ کلاس بسوں کے وصول کرتے ہیں اور حکومت ان کے سامنے بے بس ہے، کہ وہ ہر بات پر اسٹرائیک پر چلے جاتے ہیں۔
میں یہ مضمون لکھتے وقت راج کپور کی ایک پرانی فلم شری 420 دیکھ رہا ہوں، جس میں وہ لوگوں سے 200 روپیہ فی کس لے کر انھیں اپنے گھر کا خواب دکھاتے ہیں اور انھیں یہ بتاتے ہیں کہ میں جانتا تھا کہ 200 روپیہ میں کوئی گھر نہیں بن سکتا، لیکن میں نے تم کو یکجا کیا ہے کہ تم حکومت سے کہو کہ ہمیں زمین دو، گھر ہم خود بنائیں گے۔ کیا ہم نے پاکستان کا مطالبہ کرتے وقت یہ نہیں کہا تھا کہ ہمیں زمین دو، ہم گھر خود بنائیں گے۔ کیا ہم نے واقعی گھر بنایا؟ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، ہم ابھی تک فروعات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ گھڑیال کا پینڈولم رکتا نہیں۔
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی