فائنل کی ٹکٹوں کے متلاشی سری لنکن شائقین بپھر گئے

سیل پوائنٹس پر پتھرائو، ٹیم کی بس روک دی، مظاہرین پرپولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا


Sports Desk October 07, 2012
بلیک مارکیٹ میں ٹکٹین بکتی رہیں، بورڈ کے ملازمین رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ فوٹو فائل

ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ فائنل کی ٹکٹوں کے متلاشی سری لنکن شائقین بپھر گئے، ٹکٹ سیل پوائنٹس پر پتھرائو کیا۔

پریکٹس کیلیے آنے والی اپنی ٹیم کی بس روک لی، مظاہرین کو کنٹرول کرنے کیلیے پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑگیا، ادھر بلیک مارکیٹ میں کئی گنا زیادہ قیمت پر ٹکٹیں ہاتھوں ہاتھ بکتیں رہیں، سری لنکن بورڈ کے ملازمین بھی بہتی گنگا میں ہاتھ رنگتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ تفصیلات کے مطابق فائنل کی ٹکٹیں نہ ملنے پر مقامی شائقین مشتعل ہوگئے، انھوں نے اسٹیڈیم کے قریب ٹکٹوں کی فروخت کیلیے قائم بوتھس پر بھی پتھرائو کیا جبکہ سڑکوں پر ٹریفک بھی روک دی۔ شائقین کے بپھرنے کی وجہ آئی سی سی کا بیان بنا جو اس نے پاکستان اور میزبان سائیڈ کے درمیان پہلے سیمی فائنل سے کچھ گھنٹے قبل جاری کیا،اس میں کہا گیا تھا کہ جمعرات کے میچ کیلیے 3314ٹکٹ فروخت کیلیے دستیاب جبکہ فائنل کیلیے بھی کچھ ٹکٹیں فروخت کیلیے پیش کی جاسکتی ہیں۔

پہلے سیمی فائنل سے قبل بھی بدنظمی دیکھنے کو آئی جب لوگ صبح سے ہی ٹکٹیں حاصل کرنے کیلیے سیل پوائنٹس کے گرد جمع ہوگئے تھے، ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد 10 ہزار سے بھی زائد تھی۔ فائنل کیلیے بھی شائقین ٹکٹوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے، مشتعل ہجوم کو قابو کرنے کیلیے پولیس نے لاٹھی چارج بھی کیا، مظاہرین پر کنٹرول کیلیے واٹر کینن اور آنسو گیس استعمال کرنے کی بھی تیاری مکمل تھی مگر اس کی ضرورت ہی نہیں پڑی، جب سری لنکن ٹیم پریکٹس کیلیے اسٹیڈیم پہنچی تو مشتعل افراد نے اس کی بس کا راستہ بھی روک لیا۔

دوسری جانب بلیک مارکیٹ میں آخری لمحات تک دھڑا دھڑ ٹکٹیں فروخت ہوتی رہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ سری لنکا بورڈ کے کچھ ملازمین بھی 'مال' بناتے ہوئے دکھائی دیے، ایک سری لنکن ٹی وی نے اسٹنگ آپریشن میں ایس ایل سی ٹریننگ اکیڈمی اور جم فیسلٹی ملازمین کو ٹکٹیں بیچتے ہوئے دکھایا، وہ750 کی ٹکٹ کیلیے 6000 تک طلب کررہے تھے، اس بارے میں بورڈ صدر اپالی دھرما داسا کا کہنا ہے کہ آئی سی سی سے ہم نے 500 ٹکٹیں لیں جو کلبز، پروینشل ایسوسی ایشنز، سب کمیٹیز اوربورڈ ملازمین میں تقسیم کیں،اگر کوئی انھیں فروخت کررہا ہے تو اس کے ذمہ دار ہم نہیں ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں